Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 112
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
ان لوگوں پر ذلت کی مار پڑی جہاں کہیں بھی پائے گئے ، ہاں ! یہ کہ اللہ کے عہد سے یا لوگوں کے عہد سے کہیں پناہ مل گئی ہو ، اللہ کا غضب ان پر چھا گیا ، محتاجی اور بدحالی میں گرفتار ہوگئے اور یہ اس لیے ہوا کہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور نبیوں کے ناحق قتل میں بیباک تھے ان کی یہ حالت اس لیے ہوئی کہ وہ نافرمانی اور سرکشی کرنے لگے تھے اور شرارتوں میں حد سے گزر گئے تھے
یہود مخضوب الٰہی ہوچکے ہیں ان پر ذلت کی مار ہی پڑے گی : 217 : ذلت کیا ہے ؟ ذلت شخص محکومیت پر بولا جاتا ہے۔ مگر انتہا اس کی یہ ہے کہ ایسی قتل و غارت ان پر واقع ہو غارت ان پر واقع ہو کہ کسی حالت میں آرام نہ ملے۔ چونکہ محض محکومیت مسکنت میں بھی شامل ہے اس لئے اس جگہ انتہائی ذلت ہی مراد ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ دعوت حق کی مخالفت میں سب سے زیادہ حصہ یہودیوں کا ہے۔ کیونکہ ان کا حال یہ ہے۔ کہ اپنی بد عملیوں اور سرکشیوں سے مغضوب الٰہی ہوچکے ہیں اور دنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کر رہے ہوں خواہ وہ فلسطین ہو یا کوئی دوسرا علاقہ۔ ججہاں کہیں بھی ان کو پناہ ملی ہے۔ وہ آخر دوسروں کے سہارے ہے اور یہی سب سے بڑی ذلت و نامرادی ہے یعنی یا تو اہل کتاب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے چھوڑ رکھا ہے یا پھر حکمران قومون نے محکومیت اور اطاعت کے قول وقرار پر زندگی کی مہلت دے دی ہے۔ چناچہ پہلی حالت عرب میں تھی اور دوسری روم و ایران میں۔ کہا جا رہا ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ تم ان کی مخالفت سے پریشان خاطر ہو وہ وقت دور نہیں جب عرب میں بھی ان کی رہی سہی طاقت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس جگہ یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ قرآن کریم محکومی کی حالت کو کس نظر سے دیکھتا ہے ؟ اس زمانے میں یہودی رومیوں کے ماتحت امن کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اور عرب میں بھی ان کی بڑی بڑی بستیاں تھیں لیکن چونکہ حکومت و فرمانروائی سے محروم ہوچکے تھے۔ اس لئے اس کو ذلت و رسوائی قرار دیا گیا۔ مسلمان اس بات کو یاد رکھتے تو ان کی حالت جو اس وقت دنیا میں ہے یقینا نہ ہوتی۔ یہود کو دنیا میں زندگی کے دن گزارنے کے لئے کوئی نہ کوئی سہارا پکڑنا ضروری ہوگیا : 218: جہاں کہیں بھی یہ رہیں گے ان دو صورتوں میں سے ایک ضرور ہوگی یا تو وہ ” حَبْلُ مِنَ اللہ “ ہوں گے یا ” حَبْلُ مِنَ ا النَاس “ رہیں اس کے علاوہ ان کے رہنے کی کوئی تیسری صورت نہیں ہا سکتی۔ ” حَبْلُ مِنَ اللہ “ کیا ہے ؟ یعنی قانون الٰہی میں جو ان کو چھوٹ دی جا چکی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر وہ رہیں تو رہ سکتے ہیں۔ اور قانون الٰہی نے مسلمانوں پر یہ بات لازم کردی ہے کہ جب تم کو حکومت مل جائے اور تمہاری حکومت میں جو کافر لوگ ہوں خواہ وہ اہل کتاب سے ہوں یا مشرکوں سے جو بھی تم سے امن کا طالب اس کو امن دے دو اور اس کو کہو کہ جزیہ دے کر وہ امن وامان کی ضمانت حاصل کرلیں۔ جس کو اسلام قانون میں ذمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور اس کی تفصیل قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور حدیث رسول اللہ ﷺ میں بھی اور اسلامی قانون میں اس کی پوری پوری وضاحت موجود ہے۔ جس کا مکمل بیان اپنے موقع پر ہوگا۔ اور ” حَبْلُ مِنَ النَاس “ یہ ہے کہ وہ غیر مسلم حکومتوں سے جو یہود کے علاوہ دوسرے لوگوں کی ہو سکتی ہیں جیسے نصاریٰ کی ان سے کوئی عہد و پیمان کرلیں اور اس طرح وہ اس حکومت کے ماتحت یا اس حکومت کے بل بوتے پر کسی علاقہ میں زندگی بسر کرتے رہیں۔ یہود کی ذلت و مسکنت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہونے کا ذکر بتفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 61 سے آیت 120 تک کا مطالعہ کریں۔ ہاں ! یاد رہے کہ ذلت و مسکنت ان کی دنیوی حالت ہے اور غضضب من اللہ ان کی دینی حالت کے متعلق ہے مگر ذلت یعنی قتل و غارت کی حالت سے وہ اس طرح نکل سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذمگی میں آجائیں یعنی حکومت اسلامی کے ماتحت آجائیں یا کسی دوسری حکومت سے معاہدہ کر کے رہیں۔ اور اسی صورت حال کے تحت وہ آج تک موجود ہیں۔ اور یقینا اس حالت سے وہ کبھی بھی نہیں نکل سکتے۔ اس وقت جو نصاریٰ نے ان کے وجود کی بقاء کے لئے اہل اسلام سے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے یقینا وہ دن دور نہیں کہ ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ لوگ یعنی نصاریٰ اور دوسرے غیراسلامی مذاہب مل کر ججو یہود کی سرپرستی کر رہے ہیں وہ اپنے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلانے کے مصداق ہیں۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے۔ کہ ” حَبْلُ مِنَ اللہ “ سے ان کی ایسی آبادی مراد ہے جسے خود شریعت الٰہی نے قتل ہلاکت اور تعزیری و انتقامی کاروائیوں سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ مثلاً ان کے بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، اور مزاحمت نہ کرنے والے لوگ اور وہ گوشہ نشین زاہد و درویش جو کسی حال میں ہاتھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ اور ” حَبْلُ مِنَ اللہ “ سے مراد ان کی وہ جماعتیں ہیں جو معاہدوں کے ژریعہ امن حاصل کرلیں چونکہ معاہد لوگوں ہی سے ہوں گے خواہ وہ لوگ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس لئے کہ ” حَبْلُ “ بمعنی عہد و ذمہ ہی ہے خواہ وہ ججس سے بھی ہو۔ ان کی اسی حالت کا بیان قرآن کریم میں کگء ایک مقامات پر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَ (التوبۃ : 9:29) ” اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں۔ جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے ان کی کتاب میں حرام ٹھہرا دیا ہے۔ اور نہ سچے دین ہی پر وہ عمل پیرا ہیں تو مسلمانو ! ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ جائے۔ “ ایک جگہ اور ارشاد ہے کہ : ہُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ فَاَتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ وَلَوْلَآ اَنْ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمُ الْجَلَآئَ لَعَذَّبَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ (الحشر : 59:2:3) ” وہ اللہ ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ یہ سمجھے بیٹے تھے۔ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچا لیں گے مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے۔ اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے۔ پس عبرات حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو۔ اور اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تو دناا ہی میں ان کو عذاب دے ڈالتا اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔ “ یہود کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا اور یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق کیونکر ہوئے ؟ اس کی تفصیل آپ سورة بقرہ میں پڑھ چکے ہو گے اگر نہیں تو سورة بقرہ کی آیات 62 تا 126 کا مطالعہ کریں انشاء اللہ بات واضح ہوجائے گی۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا محض ان کی حرکات کی وجہ سے ہوا اور داعی اسلام سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی وہ اس غضب الٰہی کے نئچے دب چکے تھے۔ لیکن آپ ﷺ کی بعثت کے بعد ان پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہی پڑی اس لئے کہ وہ اپنی ان حرکات سے باز نہیں آئے بلکہ من حیث القوم ان کی اکثریت جو اس وقت حجاز کے اندر موجود تھی۔ ان شرارتوں میں مزید ترقی کرتی گئی۔ اس لئے حجاز کے اندر بھی ان سے وہی کچھ ہوا جو ایک مدت سے ان کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا تھا۔ اس جگہ اگر صرف حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی۔ کہ رسول اللہ ﷺ جو رحمت اللعالمین کا لقب پانے ولاے تھے۔ انہوں نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔ مدینہ النبی اور اس کے مضافات میں بسنے والے یہود کا تاریخی پس منظر : اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مدینہ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے کیونکہ اس کے بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ یہ جان لینا اس لئے ضروری ہے کہ اسلام جو صلح و آشتی کا مذہب ہے کسی پر زیادتی معلوم ہوتی ہے اور یہود کے ساتھ یہی کچھ ہوا ۔ عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے اور عرب سے باہر کے یہودی مورخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑے گئے تھے۔ اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب ، زبان ، حتیٰ کہ نمام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کرلی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کبتات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لئے یہود عرب کی تاریخ خا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے۔ جو اہل عرب میں مشہور تھیں اور ان میء اچھا خاصا حصہ یہودیوں کا پانا پھیلایا ہوا تھا۔ حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آخر یہد میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے۔ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک لشکر یژب کے علاقے سے عمالقہ کو نکالنے کے لئے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آکر فرمان نبی ﷺ کی تعمہ کی مگر عمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا۔ اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لئے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال ہوچکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسیٰ کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بناء پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کردیا۔ اور اسے مجبوراً یژب واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی ج : 19 ، ص : 94) اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ 12 سو برس قبل مسیح یہاں سے آباد ہیں۔ لیکن درحقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لئے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔ دوسری یہودی مہاجرت ، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق 5877 قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت لمقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کردیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے۔ کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آکر وادی القریٰ ، تیماء اور یژب میں آباد ہوگئے تھے۔ (فتوحالبلد ان ، البلاذری) لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔ درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب 70 عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا اور پھر 132 ء میں انہیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا ، اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آکر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے وہاں ٹھہر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ ، مقنا ، تبوک ، تیماء ، وادی القریٰ ، فدک اور خیبر پر ان کا تسلط اس دور میں قائم ہوا اور بنی قریظہ ، بنی بہدل اور بنی قینقاع بھی اس دور میں آکر یژب پر قابض ہوئے۔ یژب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے۔ کیونکہ وہ کاہنوں (priests یا choens) کے طبقہ میں سے تھے۔ انہیں یہودیوں میں عالی نسب منا جاتا تھا۔ اور ان کو اپنی ملت میں مزہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آکر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے۔ جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سرسبزو شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد 450 یا 451 ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس ما ذکر سورة سبا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سباء کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں ، لخمی حیرہ (عراق) میں بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان اور اوس و خزرج یژب میں جا کر آباد ہوئے۔ یژب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے۔ اس لئے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے جہاں ان کو قوت لایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کار ان کے سرداروں میں سیایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کیے لئے شام گیا اور وہاں ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس و خزرج کو یژب پر پورا غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے ، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہوگئے۔ تیسرے قبیلے بنی قینقاع کی چونکہ ان دونوں یہودی قبیلوں سے ان بن تھی۔ اس لئے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہوگئے۔ تیسرے قبیلے بنی قینقاع کی چونکہ ان دونوں یہودی قبیلوں سے ان بن تھی۔ اس لئے وہ سہر کے اندر ہی مقیم رہا ، مگر یہاں رہنے کے لئے اسے قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یژب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ، آغاز ہجرت تک ، حجاز میں عموماً اور یژب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایا خدوخال یہ تھے۔ زبان ، لباس تہذیب ، تمدن ہر لحاظ سے انہوں نے پورے طرح عربیت کا رنگ اختیار کرلیا تھا۔ حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہوگئے تھے۔ 12 یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے۔ ان میں سے بنی زعوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ اس کے چند گئے چنے علماء کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہوچکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے اور نہوں نے شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انہوں نے صرف اس لئے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں رہ نہ سکتے تھے۔ ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبلو کرنے والے عرب تھے۔ یا کم ازکم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی کوئی تبلیغی سر گرمی دکھائی ہو یا ان کے علماء نصرانی پادریوں اور مشزیوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہی کہ ان کے اندر اسرائلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ امی (Gentiles) کہتے تھے۔ جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا۔ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے مار کھانا انہیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دیں۔ تاریخہ طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہوگئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجائے صر اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لئے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چندا اسرائیلی قبیلوں کا سرمایہ فخرو ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علاماء نے تعویز ، گنڈوں ، فال گیری اور جادو گری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے ” علم “ اور ” عمل “ کی دکھاک بیھتھ ہوئی تھی۔ معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے۔ اس لئے وہ بہت سے ایسے فنون جاتے تھے۔ جو اہل عرب میں رائج نہ تھے۔ اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یژب اور بالائی حجاز میں غلے کی در آمد اور پارچہ بانی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ میخانے بھی انہوں نے قائم کر رکھے تھے۔ جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔ بنی قینقاع زیادہ تر سنار ، لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بنج بیوپار میں یہ یہودی بےتحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا۔ جس کے ججال میں انہوں نے گروپیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا۔ اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار ، ج جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی۔ ان کے پھندے میں پھنسے ہوے تھے۔ یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے اور پھر سود در سود کا شکر چلاتے تھے۔ جس کی گرفت میں آجانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا۔ مگر اس کا فطر نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔ ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضہ یہ تھا۔ کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں۔ کیونکہ وہ اس بات کو جاتے تھے۔ کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے وہ ان بڑی بڑی جائیدادوں اور باغات اور سر سبز زمینوں پر انہیں قابض نہ رہنے دیں گے۔ جو انہوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھیں۔ مزید برآں اپنی حفاظت کے لئے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے۔ تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بناء پر بارہا انہیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہوجاتا تھا۔ جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخلف سے ہوتے تھے۔ یژب میں بنی قریظہ اور بنی نضیر اور اس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بعاث کے مقام پر ہوئی تھی۔ اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتی مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔ یہ حالات تھے۔ جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ ﷺ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا۔ اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی۔ یہ کہ یہودی اپنا خرش اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھی ایک دوسرے کی خیر خوائی کریں گے اور ان کے درمیان نیک و حق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا اور یہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ ﷺ کریں گے۔ اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پنایہ دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو اس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ ہر فریق اپنی ججانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔ (ابن ہشام ، ج : 2) یہ کہ قطع اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کردیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تنا تھے : ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو محضض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوں مفاد سے سروکار رکھے۔ مگر انہوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں خود ان کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت چھوڑ کر ان کو احکام الٰہی کی اطاعت اختیار کرنے اور ان خلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیاء بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔ دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ گردوپیش کے عر قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلام برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہی انہیں یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کیلئے انہوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا او سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیس کا میاب نہ ہو سکیں گی۔ تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ ﷺ کر رہے تھے۔ اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام ناجائز طریقوں کا سدباب شامل تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک اور حرام خوری قرار دے رہے تے۔ جس سے انہیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ ﷺ کی فرمانروائی قائم ہوگئی تو آپ ﷺ اسے قانوناً ممنوع کردیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی ہے۔ ان وجوہ سے انہوں نے حضور ﷺ کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لئے کوئی چال ، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکندڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگو آپ سے بدگمان ہوجائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے سکوک و سبہات اور وسوسے ڈالتے تے۔ تاکہ وہ اس دین سے برگشتہ ہوجائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجاتے تھے۔ تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جاسکیں۔ فتنے برپا کرنے کے لئے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے۔ جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کے ہدف تھے۔ جن سے ان کے مدتہائے دراز کے تعلقات چلے آرہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے۔ تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہوجائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لئے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا۔ ان میں سے جو نہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کے اس کا نام میں دم کردیتے اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے۔ کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمہارا دین کچھ اور تھا۔ اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے۔ اس لئے ہم پر تمہارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔ اس کی متعدد مثالیں تفسیر طبریٰ ، تفسییر فیسا بور ، تفسیر طبروسیٰ اور تفسیر روح المعانی میں سورة آل عمران ، آیت 75 کی تشریح کرتے ہوئے نقل کی گئی ہیں۔ معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کرچکے تھے۔ مگر ججب بدر میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹے تھے۔ کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کردیں تھیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ شہد ہوگئے۔ اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی اور اب ابو جہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نیجہی ان کی امیدوں اور رتمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ ٹم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔ بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ ” خدا کی قسم ! اگر محمد ﷺ نے ان اشراف عرب کو قتل کردیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لئے اس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے۔ “ پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سردار ان قریش مارے گئے تھے۔ ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کا انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے ایس غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اظہار عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آکر رسول اللہ ﷺ نے ربیع الاول 3 ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا۔ (ابن سعد ، ابن ہشام ، تاریخ طبریٰ ) یہودیوں کا پہلا قبیلا جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا۔ بنی قینقاع تھا۔ یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے۔ اور چونکہ یہ سنار ، لوہار اور ظروف ساز تھے اس لئے ان کے بازار میں اہل مدینہ کو کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے وججہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردان جنگ ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلہ خزرج سے انکے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبداللہ بن ابی ان کا پشیتبان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے ججانے والوں مسلمانوں کو ستانا اور خاص طور ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو بر سر عام برہنہ کردیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہوگیا۔ جب حالات اس حد کو پہنچ گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے جواب دیا۔ ” اے محمد ﷺ ! تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے ؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے۔ اس لئے تم نے انہیں مار لیا ، ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ “ یہ گویا صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) 2 ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کرلیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا۔ کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لئے گئے۔ اب عبداللہ بن ابی ان کی حمایت کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انہیں معاف کردیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے اس کی درخوات قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال ، اسلحہ ، اور آلات صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں۔ (ابن سعد ، ابن ہشام ، تاریخ طبریٰ ) ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انہیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد شوال 3 ھ قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لئے بڑی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لئے نکلے ہیں اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں تو انہوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جراتیں اور بڑھ گئیں۔ یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے لے لئے ایک باقاعدہ سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہوگئی۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر 4) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کاروائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کو قتل کردیا جو در اصل ایک معاہد قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کو کون بہا مسلمانوں پر واجب آگیا تھا۔ اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خون بہا کی ادائگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دیں۔ وہاں انہوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگایا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک بھاری پتھر گرادے گا جس کی دیوار کے سائے میں آپ ﷺ تشریف فرما تھے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بروقت خبردار کردیا اور آپ ﷺ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اب ان کے ساتھ کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضور ﷺ نے ان کو بلا تاخیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی۔ وہ میرے علم میں آگئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھہرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا اس کی گردن اتار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تماہر مدد کو آئی گے۔ تم ڈٹ جاؤ اور ہرگز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پہ انہوں نے حضور ﷺ کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے۔ آپ سے جو کچھ ہو سکے کرلیجئے۔ اس پر ربیع الاول 4 ھ میں رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ کرلیا ، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعد (جس کی مدت بعض رعایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آتی ہے) وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لئے راضی ہوگئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ وہ اپنے اونٹوں پر لاد کرلے ججا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبے لل سے مدینہ کی سرزمین خالی کرائی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر یہاں ٹھہر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔
Top