Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 113
لَیْسُوْا سَوَآءً١ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ
لَيْسُوْا : نہیں سَوَآءً : برابر مِنْ : سے (میں) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اُمَّةٌ : ایک جماعت قَآئِمَةٌ : قائم يَّتْلُوْنَ : وہ پڑھتے ہیں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات اٰنَآءَ الَّيْلِ : اوقات۔ رات وَھُمْ : اور وہ يَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں
تمام اہل کتاب ایک ہی طرح کے نہیں ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو راہ ہدایت پر قائم ہیں وہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور اس کے حضور سربسجود رہتے ہیں
اہل کتاب یعنی یہود ہی کے اندر اللہ کے نیک بندے بھی تھے جو رحمت الٰہی کے مستحق ٹھہرے : 219 : دین اسلام کا یہ سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ ہر سچائی تسلیم کرتا ہے۔ اور برملا اور اعلانہ کرتا ہے دوسرے ادیان کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی نام کی کوئی شے اس میں موجود نہیں۔ کاش کہ اس کے ماننے والے بھی آج اس نکتہ کو ذہن نشین رکھتے۔ گروہ یہود کی مختصر تاریخ آپ پڑھ چکے بلا شبہ من حثا القوم ان کی اکثریت شرارتی تھی اس لئے اوپر جو کچھ ذکر ہوا وہ ان کی اکثریت کا ذکر تھا باقی ان میں سے بعض بعض حق شناس اور انصاف دوست بھی تھے۔ اور وہ بالآخر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس لئے قرآن کریم نے بھی ان کی تعریف فرمائی اور ان کے اچھ اعمال و اخلاق کا ذکر واضح الفاظ میں کردیا۔ اسلام نے صرف ذکر ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ناموں تک کو محفوظ رکھا اور دنیا کو بتا دیا کہ اگر میں بروں کی برائی کو بیان کرتا ہوں تو اس قوم کے نیکوں کی نت کی کو بھی نہیں چھپاتا۔ چناچہ عبداللہ ؓ بن سلام۔ ثعلبہ ؓ بن سعید۔ اسید ؓ بن سعید اور اسد ؓ بن عبید وغیرہم کے نام آج بھی کتب احادیث اور تفاسیر میں موجود ہیں۔ قرآن کریم کے اس مقام پر جو ان کی صفات بیان کی گئیں وہ بالکل وہی ہیں جن کو اختیار کر کے انسان اللہ کا ایک نیک اور فرمانبردار بندہ بن سکتا ہے۔ فرمایا ” امۃُ قائمَۃ “ ان میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو راہ ہدایت پر قائم ہے۔ ان کا یہ پہلا وصف جو قرآن کریم نے بیان کیا یسا وصف ہے جس نے ان کے ظاہر و باطن دونوں کی پوری پوری وضاحت کردی کہ وہ ایسے مخلص لوگ ہی کہ ان کے اخلاص کو شک کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان کا دوسرا وصف اس طرح بیان کیا کہ ” یَتلون اٰ یاتِ اللہِ انائَ الیلِ “ وہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا اعجاز قرآنی ہے کہ الفاظ بالکل مختصر اور مضمون اتنا بڑا کہ اس کو کھولنا شروع کردیا جائے تو وہ کھلتا ہی چلا جائے اور کبھی ختم ہونے میں نہ آئے گویا پورے دریا کو کو زے میں بند کردیا۔ اللہ کی ایتوں کی تلاوت جب اور جس وقت بھی کی جائے وہ ایک نہایت ہی اچھا کام ہے۔ لیکن ایسے وقت میں جب لوگ میٹھی نیند میں سوئے ہوئے ہوں کوئی اللہ کا بندہ جاگ کر اور ہر ایک سے الگ تھلک ہو کر جب ان آیات کی تلاوت کر گا گویا وہ براہ رست اللہ سے ہم کلام ہوجائے گا اور اس طرح جو مضامین اس کے ذہن میں اتریں گے وہ دن کے شورو غوغا میں کب اتر سکتے ہیں اور کسی چیز کے پڑھنے کا حق کیا ہے ؟ یہی کہ وہ دل و دماغ میں اتر جائے تاکہ روح کو اپیئ غذا ھاصل ہو اور جس طرح جسم غذا کھانے سے تو تازہ ہوتا ہے اسی طرح روح کو بھی تازگی میسر آئے پھر فرمایا ان پر اللہ کی کتاب کی آیات پڑھنے کا اثر یو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ” للہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود رہتے ہیں۔ “ یعنی ان کی فرمانبرداری کا شروع قیام پر ہوتا ہے تو اخیر بارگاہ رب ذوالجلال کی سجدہ ریزی سے ہوتی ہے۔ اور یہ سارے کام وہ تب ہی انجام دے رہے ہیں جب کہ ان کے دل ایمان سے لبریز اور ان کی جانیں مشرف بہ اسلام ہوچکی ہیں۔
Top