Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 115
وَ مَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
وَمَا : اور جو يَفْعَلُوْا : وہ کریں گے مِنْ : سے (کوئی) خَيْرٍ : نیکی فَلَنْ يُّكْفَرُوْهُ : تو ہرگز ناقدری نہ ہوگی اس کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِالْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کو
اور یہ لوگ نیک کاموں میں سے جو کچھ کرتے ہیں ہرگز ایسا نہیں ہوگا کہ اس کی ناقدری کی جائے اور جو لوگ متقی ہیں اللہ ان کے حال سے بیخبر نہیں
ان لوگوں نے جو نیک اعمال کئے ہیں ان کی ناقدری نہیں کی جائے گی : 221: فرمایا یہ خیال نہ کرو کہ کوئی متقی اللہ تعالیٰ کے علم میں آجانے سے رہ جائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہو سکتا پھر یہاں غیر قوموں کے عقائد کی تردید کے لئے اس جملہ کا اضافہ فرما دیا کہ ” فَاِن یَکفُر وہ “ یعنی کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ جن لوگوں کا ماضی خراب رہ چکا ہے تو اب ان کے نجات و مغفرت کی امید کیسے ہو سکتی ہے ؟ اور اب ان کے ایمان و حسن عمل سے حاصل کیا ؟ یہ اس لئے فرما دیا کہ دوسرے مذاہ بےای سے ہی عقائد گھڑ رکھے تھے اس لئے یہ تنبیہ ضروری تھی۔ یا کفر بمقابلہ شکر بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ پہلی دو آیات میں کامل صالحین کا نقشہ کھینچا گیا تھا اس لئے اب بتایا جا رہا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اگر اس کمال کو حاصل نہ بھی کرسکے تو جنتی بھی نیکی کرے گا اس کی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر و قیمت ہے۔ اس کی ناقدری ہرگز کبھی نہیں کی جائے گی۔ اس مضمون کی مزید تشریح قرآن کریم میں دوسرے مقامت پر کردی گئی ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : وَ اِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (ال عمران 3:199) اور یقینا اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہوچکا ہے سب کے لئے ان کے دل میں یقین ہے۔ نیز ان کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے کہ اللہ کی آیتیں تھوڑے داموں پر فروخت کر ڈالیں۔ تو بلا شبہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی کٹکا نہیں ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے یقینا اللہ کا قانون مکانات اعمال کے حساب سے ست رفتار نہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ وَ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْھِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ (القصص 28:52 تا 55) ” جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کم ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ واقعی حق ہے۔ ہمارے رب کی طرف سے ، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی ۔ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب انہوں نے بیہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کا سا طریق اختیار کرنا نہیں چاہتے۔ “ اہل کتاب ہی کے لوگوں کے متعلق ارشاد الٰہی ہے کہ ” ہم بہ یومنون “ کہ وہ قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں۔ بلاشبہ اس سے یہ امراد نہیں کہ تمام اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ اس پر ایمان لاتے ہیں بلکہ یہ اشارہ درا صل اس واقعہ کی طرف ہے جو سورة قصص کے نزول کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ اور اس سے اہل مکہ کو شرم دلائی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو جبکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آرہے ہیں اور اس کی قدر پہچان کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس واقعہ کو بیہقی وغیرہ نے محمد بن اسحٰق کے حوالہ سے اس طرح روایت کیا ہے کہ ہجرت حبشہ کے بعد جب نبی کریم ﷺ کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے غالباً بیس کے قریب عسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لئے مکہ مکرمہ آیا اور نبی کریم ﷺ سے مسجد حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔ وہ قریب آکر ان لوگوں کے ارد گرد کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ سوال کئے جن کا آپ ﷺ نے جواب دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن کریم کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اور انہوں نے اس کے کتاب اللہ ہونے کی تصدیق کی اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابو جہل اور اس کے چند شاتھیوں نے ان لوگوں کو راستے میں جا لیا اور انہیں سخت ملامت کی کہ تم ” بڑے نامراد ہو “ تمہارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس شخص کے حالات کی تحیقیق کر کے اور انہیں ٹھیک ٹھیک خبر دو ۔ مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دینم چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ ہماری نظر سے نہیں گذرا۔ “ اس پر نہوں نے جواب دیا کہ سلام ہے بھائیو ! تم پر ! ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کرسکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ اس سورة قصص کی آیت میں اہل کتاب کے ان نیک کتاب کے ان نیک و برگزیدہ لوگوں کی طرف جو یہ جملہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ ” اِنا کنا مِن قَبلِہ مُسلَمین “ علمائے اہل اسلام اور مفسرین حضرات کے ہاں یہ بحث موضوع رہ چکا ہے اور اس پر صفحات کے صفحات تحریر کئے گئے ہیں۔ اور بڑے بڑے اہل علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں۔ علامہ سیوطی (علیہ السلام) نے بھی ایک مفصل کتاب اس موضوع پر لکھی کہ ” مسلم “ کی اصطلاح صرف امت محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص ہے۔ پھر جب یہ آیت سامنے آئی تو وہ خود فرماتے ہیں کہ ” میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور میں ششدر رہ گیا اور میں اللہ سے دعائیں کرتا رہا کہ اس کا مفہوم میرے ذہن میں ڈال دے اور شرح صدر عطا فرما “ اور پھر اس آیت کی متعدد تعبیریں بھی کیں جن کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم صرف اس ایک جگہ نہیں بلکہ بیسیوں سے بھی متجاوز مقامات پر اس اصولی حقیقت کو بیان کرتا آیا ہے کہ اصل دین صرف ” اسلام “ یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا دین نہیں ہو سکتا تھا۔ اور نہ ہوا اور آغاز آفرنیش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے۔ اور سارے انبیاء کرام خود مسلم تھے۔ اور اپنے پیروؤ کو انہوں نے مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید کی ہے اور ان کے وہ سارے متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کیا ہر زمانے میں ہی تھے۔ اس کی تفصیل اس سورة آل عمران کی آیت 19 کے تحت گزر چکی ہے جہاں ” اَن الدین عِند اللہ الاسلام “ کے الفاظ آئے ہیں وہاں ملاحظہ کریں اور ایک بات یاد رکھیں کہ یہ بات آج کل کی ” جماعت المسلمین “ میں پائی ہی نہیں جاتی کیونکہ وہ تو کسی دوسرے کو ” مسلم “ تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ انہوں نے تو اسلام کا دارہ اتنا تنگ کردیا ہے کہ کوئی ” مسلم “ مسلم ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ کراچی کے ایک مسعود احمد کے ہاتھ بیت نہ کرے۔ اس آیت کی مزید تفصیل اس کے اپنے مقام یعنی سورة قصص پر ہوگی۔ انشاء اللہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْ لَاتُؤْمِنُوْا اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْھِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا (بنی اسرائیل :17 ، 107 ، 109) ” اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں سے کہہ دے کہ تم قرآن کریم کو کلام الٰہی مانو یا نہ مانو لیکن جن لوگوں کو پچھلی کتابوں کا علم دیا گیا ہے یعنی اہل کتاب انہیں جب یہ کلام سنایا جاتا ہے تو وہ بےاختیار سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں کہ ہمارے پروردگار کے لے پاکیزگی ہو بلا شبہ ہمارے کا وعدہ اس لئے تھا کہ پورا ہو کر رہے۔ “ وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْن وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَا جَآئَ نَا مِنَ الْحَقِّ وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْن (المائد 5: 83 ، 84) ” اور جب یہ عیسائی وہ کلام سنتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں جوش گریہ سے بہنے لگتی ہیں کیونکہ انہوں نے اس کلام کی سچائی پہچان لی ہے وہ بےاختیار بول اٹھتے ہیں کہ خدایا ہم اس کلام پر ایمان لائے پس ہمیں بھی انہیں میں سے لکھ لے جو تیری سچائی کو گوہی دینے والے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے ایمان نہ لائیں اور اللہ سے اس کی توقع رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے گروہ میں داخل کر دے ؟ “
Top