Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 116
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز کام نہ آئے گا عَنْھُمْ : ان سے (کے) اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے ( آگے) شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ (دوزخ) والے ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو ایسا ہوگا کہ نہ تو مال و دولت کی طاقت انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے گی ، نہ آل و اولاد کی کثرت ہی کچھ کام آئے گی وہ یقینا دوزخی ہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے
کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کے کام نہ دولت آئے گی اور نہ اولاد : 222 : کفار کون ہیں ؟ وہی جنہوں نے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی سچائیوں کو جھٹلایا بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس طرح جو روش انہوں نے اختیار کی اسی پر ان کا اختتام ہوگیا۔ یہیں وہ لوگ ہیں جو ابدی دوزخ کے مستحق ہوگئے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ” خلودنار “ کی سزا صرف کافروں کے لئے ہے گنہگار مومنوں کے لئے نہیں فرمایا گیا کہ ” نہ تو مال و دولت کی طاقت انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے گی اور نہ ہی آل و اولاد کی کثرت ہی ان کے کچھ کام آئے گی “ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مال کو بطور کفارہ یا توبہ پیش کر کے نجات حاصل کرلی جائے۔ یہود کے جو غلط سلط عقیدے اس باب میں ہوچکے تھے ان سب کو بند کردیا اور اس کا تفصیلی تذکرہ تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد اور سورة البقرہ آیت 42 سے 62 تک آپ پڑھ چکے ہیں۔ بہت سی قوموں میں یہ عقیدہ آج بھی پایا جاتا ہے کہ اولاد والدین کی بخشش کا باعث ہے چناچہ ہندوؤں اور جینیوں میں یہ گمراہی خاص طور پر بڑھی ہوئی ہے کہ لڑکا ہی مرے ہوئے باپ کو پانی دے دے کر عذاب سے چھڑا سکتا ہے۔ منو جی کا یہ قول ان کی کتابوں میں اکثر پڑھا اور دیکھا گیا ہے کہ بیٹے کو سنسکرت میں ” پتر “ کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ باپ کو ” پت “ یعنی دوزخ سے چھڑا لاتا ہے۔ اور یہ فاتحہ و درود کے نظریے اس راستہ سے اسلام میں بھی گھس آئے ہیں۔ قرآن کریم نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ مال و اولاد مرنے والوں کے کچھ کام آنے والی شے نہیں یہ سب کی سب دنیوں زندگی کی ہوا ہے بس ! چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے کہ : لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلاَ اَوْلاَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ” قیامت کے دن نہ تمہارے رشتہ دار ہی تمہارے کچھ کام آئیں گے اور ہی اولاد کچھ کام آئے گی۔ “ ایک جگہ اور ارشاد ہوا : یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْن ” وہ دن کہ نہ ان کو فائدہ دے گا اور نہ ہی اولاد۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : وَ مَآ اَمْوَالُکُمْ وَ لَآ اَوْلَادُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ” یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو۔ ہاں مگر جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ “ یعنی اللہ کے قریب کرنے والی چیز مال اور اولاد نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح ہے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوا کہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہونے والے اس طرح پکار پکار کر کہیں گے کہ : مَآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ (الحاقہ 69: 28 ، 29) ” کہ افسوس میرا مال بھی میرے کچھ کام نہ آیا مجھ سے میری حکومت بھی جاتی رہی۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوا کہ : فَاِِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ (عبس 80:33 ، 36) ” پھر جب کان بہرے کردینے عالی ، شور بپا کرنے والی آئے گی یعنی قیامت۔ اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا اور اپنی ماں اور باُ سے بھاگے گا اور اپنی بیوٰ اور بچوں سے بھی گریزاں ہوگا۔ “ ایک جگہ اور ارشاد ہوا کہ : مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ ” اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئی۔ “
Top