Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 120
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١٘ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۠   ۧ
اِنْ : اگر تَمْسَسْكُمْ : پہنچے تمہیں حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْھُمْ : انہیں بری لگتی ہے وَ : اور اِنْ : اگر تُصِبْكُمْ : تمہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّفْرَحُوْا : وہ خوش ہوتے ہیں بِھَا : اس سے وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پر وہیز گاری کرو لَا يَضُرُّكُمْ : نہ بگاڑ سکے گا تمہارا كَيْدُھُمْ : ان کا فریب شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : جو کچھ يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : گھیرے ہوئے ہے
اگر تمہارے لیے کوئی بھلائی کی بات ہوجائے تو انہیں برا لگے ، برائی ہوجائے تو بڑے ہی خوش ہوں لیکن یاد رکھو اگر تم نے صبر کیا اور تقویٰ کی راہ اختیار کی تو ان کا مکر و فریب تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا ، جیسے کچھ بھی ان کے کرتوت ہیں اللہ کا قانون قدرت انہیں گھیرے ہوئے ہے
تمہاری خوشی سے وہ ناخوش ، تمہاری ناخوشی سے وہ خوش ہوں تو تم کو کیا کرنا چاہیے ؟ 229: منافقوں کی خباثت نفس اور کینہ پرور کا بیان ہے کہ وہ مسلمانوں کی تکلیف سے خوش ہوتے ہیں اور ان کی خوشی اور خوشحالی سے رنجدوہ خاطر ہوتے ہیں حسنۃ ہر ایک خوشی کرنے والے امر کو کہتے ہیں جس میں رغبت کی ججا سکے اور اس سے مراد ہر ایک نعمت بھی ہے جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا حالت میں پہنچے اور اس کی ضد سیۃ ہے۔ اس جگہحسنۃ سے مسلمانوں کی اندرونی تنظیم یا کافروں پر ان کا غلبہ اور ان کی فتح مراد ہو سکتی ہے اور سیئۃ سے اندرونی بد نظمی یا ہنگامی اور وقتی شکست بھی مراد ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے ارشادت قرآن کریم میں دوسرے مقامت پر بیان ہوئے ہیں مثلاً ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : وَ اِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَکُنْ مَّعَھُمْ شَھِیْدًا وَ لَئِنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوْلَنَّ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْم بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَھُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا (النساء 4:72 ، 73) ” اور دیکھو تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے کہ جنگ کا نام سن کر اس کے قدم پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں پھر اگر لڑائی میں تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو خوش ہو اور کہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ میں ان میں اور اس میں محبت کا کوئی رشتہ تھا ہی نہیں کہ اے کاش میں ان لوگوں کے ساتھ ہوتا تاکہ بہت کچھ کامیابی حاصل کرلیتا۔ ” لیبطن یبطئی بطؤ “ سے ہے جس کے معنی چلنے میں قدم جلدی نہ اٹھنا اور پیچھے رہ جانا (راغب) اور اسراع یعنی جلدی چلنے کا نقیض ہے۔ اور ایک جگہ ارشاد ہے کہ : اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ فَرِحُوْن (التوبۃ 9:50) ” اے پیغمبر اسلام ! اگر تمہیں کوئی اچھی بات پیش آجائے تو وہ ان منافقوں کو بری لگتی ہے اور اگر کوئی مصیبت پیش آجائے تو کہنے لگیں گے اس خیال سے ہم نے پہلے ہی اپنے لئے مصلحت بینی کرلی تھی اور پھر گردن موڑ کر خوشی خوشی چل دیتے ہیں۔ “ ان کی مکاری سے آپ ﷺ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا وہ قانون الٰہی کے شکنجے میں ہیں : 230 : اس آیت کا لفظ ” تمسسکم “ وہ بھی اپنے اندر بہت پوشیدہ مضمون رکھتا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو کوئی بھلائی چھو بھی جائے تو ان کو دکھ پہنچا ہے جس سے ان کی اندرونی کیفیت کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ ہے لفظ مس سے اس طرح اشارہ ہے کہ تمہاری ادنیٰ بہتری بھی ان کی رنجیدہ خاطری کا سامان پیدا کردیتی ہے۔ پھر فرمایا کہ ” ان تصبروا “ یعنی اگر تم پوری ہمت لگا کر کام کرو گے اور تمہاری اندرونی تنظیم تن من دھن سے اپنے کام میں مصروف رہے گی تو ان کا مکر کبھی کامیاب نہی ہوگا اور ان کی خفیہ تدبیریں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ تمہارے قدم ڈگمگا نہ گئے تو یقینا ان کی تدبیریں اور چالیں تمہارا کچھ نقصان نہیں کریں گی۔ یہ لوگ گویا اتنے گئے گزرے ہیں کہ انسانیت نام کی شے ان کے اندر موجود ہی نہیں رہی اس لئے کہ دکھ اور تکلیف تو ایسی چیزیں ہی کہ جب بھی بھی کسی شخص کو پہنچ جائے تو فطرت انسانی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ رنجش اور کدورت جو تھوڑی بہت باہم ہو وہ دور ہو کر اس کی جگہ ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے مگر ان کی عداوت اور قدر شدید ہے کہ مسلمانوں پر مصیبت وارد ہو تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ یہ حالت تو ان منافقین کی تھی اور ان کی عداوت کا یہ بیان ہے لیکن آج کل مسلمانوں کی حالت نہایت ہی ناگفتہ باحال ہے بلکہ اس سے بھی بدتر جو ان منافقین کی تھی آپ نے ایک سے زیادہ بار یہ بات سنی ہوگی کہ ایک پارٹی کا لیڈر مر گیا اور دوسری پارٹی مٹھائی تقسیم کر رہی ہے۔ اور ان کی خوشی کا عالم یہ ہے کہ بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں۔ اور شہنائیاں بجائی جا رہی ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسانی قدریں دن بدن مٹتی جا رہی ہیں۔ اے کاش ! اے قوم مسلم کبھی تم نے قرآن کو بھی سمجھا ہوتا تو آج تمہاری یہ حالت نہ ہوتی۔
Top