Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور لڑائی کے لیے مسلمانوں کو جابجا مورچوں پر بٹھا رہے تھے اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
غزوہ احد کا تذکرہ ، پس منظر اور تحریک اسلامی پر اس کے اثرات : 231: اس آیت سے غزوہ کا تذکرہ شروع کیا جا رہا ہے۔ غزوہ بدر کے بعد یہ پہلا بڑا معرکہ ہے۔ بدر میں قریش مکہ اور ان کے حلفیوں کی جو گت بنی تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس معرکہ نے مذہبی اور ملکی حالات پر گوناگوں اثرات پیدا کئے اور حقیقت میں یہ اسلام کی ترقی کا قدم اولین تھا۔ قریش کے بڑے بڑے رؤسا جن میں سے ایک ایک اسلام کی ترقی میں سد راہ تھا فنا ہوگئے۔ خصوصاً عتبہ اور ابو جہل کی موت نے قریش کی سیاست کا تاج ابو سفیان کے سر پر رکھ دیا تھا۔ لیکن قریش کے اصلی زور قوت کا معیار بیت ماند پڑگیا تھا۔ مدینہ میں فتح بدرتک عبداللہ اب سلول اعلانیہ کافر تھا۔ لیکن وہ بظاہر اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگیا تھا۔ اگر وہ تمام عمر منافق رہا۔ قریش کو پہلے صرف حضرمی کے قتل کا رونا تھا۔ اور اب یعنی بدر کے بعد ہر گھر ماتم کدہ تھا۔ قریش نے ایک سال تک اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لیے بیسیوں کوششیں کیں لیکن ہر بار ناکام رہے۔ اب انہوں نے مکمل تیاری کرلی اور ایک بہت بڑا لشکر تشکیل دیا اور بہت کچھ سروسامان تیار کیا۔ رسول اللہ ﷺ قبا میں تھے کہ آپ ﷺ کو مکہ سے اپنے آدمیوں کا روزانہ کیا ہوا خط ملا۔ جس میں یہ تحریر تھا کہ قریش مکہ کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لئے مکہ سے روانہ ہوچکا ہے۔ اس خبر کو آپ ﷺ نے عام پھیلنے نہ دیا اور اپنی تیاری مکمل کرنے کی فکر شروع کردی۔ جب تک قریش کے اس طرح سے آنے کی خبر عام ہوئی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو مسجد نبوی ﷺ میں جمع کیا اور مشورے لئے رائے طلب فرمائی۔ آپ ﷺ نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا کہ شہر کے اندر رہ کر اگر دفاع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کے تمام فوائد بھی آپ ﷺ نے بیان فرمائے تا ہم یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد آپ ﷺ نے رائے طلب کی تعجب ہے کہ آپ ﷺ کی اس رائے سے عبداللہ بن ابی بھی متفق ہوگیا۔ تاہم چونکہ اس اجتماع عام میں یہ نوجوان لوگ بھی تھے۔ جو بدر میں شریک معرکہ نہ ہوئے تھے وہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے جوش اپنے ایمان اور اپنے جزبہ جانثاری کو عملی طور پر پیش کریں اس لئے انہوں نے اصرار کیا کہ باہر کھلے میدان میں جا کر لڑائی کی جائے۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد نبی اعظم و آخر ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے اور جب آپ ﷺ دوبارہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ ﷺ لباس جنگ میں ملبوس تھے۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو نادم ہوئے کہ انہوں نے آپ ﷺ کی رائے سے اپنی رائے پر اصرار کیا اس لئے آپ ﷺ ان کے کہنے پر لباس جنگ پہن کر تشریف لائے اب وہ سب معزرت خواہ تھے اور فرمایا جو آپ ﷺ کی رائے ہے اس پر عمل فرمائیں ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ لباس جنگ پہن لے اور پھر لڑے بغیر اس کو اتار دے۔ “ اب رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو مسجد نبوی ﷺ کے باہرجمع ہونے کا حکم دیا اور ازیں بعد پورے لشکر کو مدینہ کے باہر ایک مقام جو ” شوط “ کہلات تھا اس کو معسکر قرار دیا یہ جگہ شہر سے باہر ایک میل دور بھی نہ تھی اس لئے کہ لڑائی کی روانگی کے لئے لشکر کے کوچ کا آغاز معسکر سے ہی ہونا چاہیے۔ شوط کے معسکر میں مدنی لشکر عصر اور مغرب کے درمیان پہنچا آپ ﷺ نے مغرب کے بعد تک سارے انتظامات مکمل کر لئے۔ دشمن بمشکل دو میل کے فاصلہ پر خیمہ زن تھا۔ اور اس کے افراد ارد گرد کے کھیتوں میں اپنے ججانور چرا رہے تھے۔ شوط اور مکی لشکر کے درمیان کوئی بھی ایسی جغرفیائی حد حائل نہ تھی جس کی وجہ سے کہا جائے کہ اہل مکہ سے مدنی لشکر کا مدینہ سے خروج پوشیدہ رہ سکتا ہے۔ اس وجہ سے ضروری تھا کہ رات کے لئے مکی جانب سے لشکر اسلامی کی حفاظت کی جائے آپ ﷺ نے اس کا مکمل انتظام کیا۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓ اور حضرت سعد بن معاذ ہتھیار باندھ کر تمام رات پہرہ دیتے رہے۔ اور حضرت زبیر بن العوام جو گھوڑا سوار دستے کے کماندار تھے انہیں مکی معسکر کی جانب تعین فرمایا کہ مکی رسالہ کے خلافہ پہلی رکاوٹ وہ ثابت ہوں اور گشت کی ذمہ داری محمد بن مسلمہ کو تفویض کی گئی۔ ابھی پورا لشکر شوط ہی میں تھا کہ عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر مدینہ واپس چلا گیا اس نے بہانہ یہ بنایا کہ چونکہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے کی تجویز دی تھی۔ اس پر عمل نہیں کیا گیا اور کھلے میدان میں اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ وہ صحیح نہیں سمجھتا اس لئے اپنے آدمیوں کو مروانا مناسب خیال نہیں سمجھتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا کہ ” اللہ اپنے رسول ﷺ کو تمہاری ضرورت سے بےنیاز کر دے گا۔ “ اب آپ ﷺ کے لشکر کی تعداد تین ہزار بتائی جاتی ہے اگرچہ قرائن سے جا اندازہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی قریش کا صرف اپنا لشکر جو مکہ سے نکلا تھا اس کی تعداد دو ہزار نو سو افراد پر مشتمل تھی۔ جس میں سے تین صد سانڈنی سوار اور دو صڈ گھوڑ سوار بھی تھی اور قریش کے حلیف بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے اس لئے ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ لشکر قریش کے ساتھ بہت سی عورتیں بھی تھیں جو قریش کے نوجوانوں کو بھڑکانے کے لئے لائی گئی تھی۔ جن میں سے چند کے نام ذکر کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 1 - ہند عتبہ کی بیٹی جو ابو سفیان کی بیوی اور امیر معاویہ ؓ کی والدہ تھی۔ 2 - ام حکیم جو عکرمہ کی والدہ اور ابو جہل مقتول بدر کی بیوی تھی۔ 3 - فاطمہ بنت ولید جو خالد بن ولید جو اس وقت مکی فوج کے سپ سالار تھے۔ ان کی بہن ۔ 4 برزہ مسعود ثقفی جو طائف کا امیر تھا اس کی بیٹی تھی۔ ۔ 5 ریطہ عمرو بن عاص کی زوجہ اور ۔ 6 حناس جو مصعب بن عمیر کی ماں تھی اور پھر ان کے ساتھ ان کی باندیاں اور خدمت گزار عورتیں بھی تھیں جن کا ذکر تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ عام مورخین و مفسرین کی رائے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز شوط ہی میں ادا کی لیکن کچھ رلوگوں کی رائے میں صبح کی نماز سے قبل ہی یہاں سے اٹھنا ان کے نزدیک سپ سالاری اصولوں کے منافی ہے۔ حالانکہ اسلام میں صبح کی نماز بہت سویرے ادا کرنے کی ہدایات بھی موجود ہیں اور خصوصاً سفر جاری کرنے کے لیے تو نماز بہت جلد ادا کی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ یہیں سے اٹھ کر لشکر کو ترتیب دینے کا ذکر زیر نظر آیت میں دیا گیا ہے اور یہ صرف ایک جملہ ” اذغدوت من اھلک “ کے الفاظ سے سب کچھ قلمبند کردیا گیا کہ اس رات رسول اللہ ﷺ اپنے اہل یعنی سیدہ عائشہ ؓ کو اپنے کئے گئے انتظامات کے مطابق اپنے خیمہ ہی میں چھوڑ کر لشکر کی ترتیب کے لئے باہر نکل کھڑے ہوئے اور یہ بات صحیح احادیث سے واضح ہے کہ اس غزوہ احد میں سیدہ عائشہ ؓ شریک تھیں اور یہ بھی کہ اسلامی لشکر کی مدد گار عورتوں کی نگہبان بھی تھیں۔ اس میں یہ ہدایت بھی مضمر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے تو اس کی تعمیل میں اہل و عیال کی محبت سنگ راہ نہیں ہونی چاہیے۔ پھر اس کے بعد وہاں سے نکل کر محاز جنگ تک پہنچنے کے جزئی واقعات کا ذکر نہیں فرمایا اور محاذ جنگ میں پہلے کام کا ذکر کردیا کہ ” تبوء المومینین مقاعد اللقتال “ یعنی آپ ﷺ مسلمانوں کو قتال کے لئے مناسب مقامات پر جما رہے تھے۔ اس ٹکڑے میں اس وقت کے تمام کئے گئے انتظامات کا ذکر کردیا کہ جگہ کا تعین ، صفوں کی آراستگی ، رسد کا انتظام ، ذخمیوں کی دکیکھ بھال ، حملے کی صورت میں دفاع اور بہادروں کی جنگ آزمائی کے لیے میدان میں نکلنا۔ اپنے پرچم کی حفاظت بطور کمک پیچھے رکھنے والوں کے لیے ہدایات یعنی یہ سارے کام جو ایک سپ سالار کے ذمہ ہیں آپ ﷺ نے خود ادا کئے۔ جن میں سے پچاس آدمیوں کو جبل عینین پر تعین کرنا بھی شامل تھا۔ اور ” واللہ سمیع علیم “ میں اشارہ فرما دیا کہ اس وقت مخالفین و موافقین کے ساتھ جو کچھ پیش آیا سب اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا اور کوئی شے اس کے علم سے باہر نہیں تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ کہ کون مدنان جنگ تک پہنچے گا اور کون راستہ سے ہٹ کر واپس چلا جائے گا۔ کس کس کے لئے اس میدان میں کام آنا ہے او کس کس کو غازی بننا ہے اور اس طرح اس جنگ کا انجام بھی وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ اور اس سے پیدا ہونے والے حالات سے بھی وہ اچھی طرح واقف ہے۔
Top