Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ تم میں سے دو جماعتوں نے ارادہ کیا تھا کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا جو ایمان رکھنے والے ہیں انہیں تو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھیں
ہاں ! تم میں سے دو جماعتوں نے ہمت ہارنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اللہ نے ان کی ہمت بندھا دی : 232: یہ دو جماعتیں کونسی تھی جن کے دل ڈھیلے پڑگئے تھے اور وہ ہمت ہارے ہی والے تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہمت بندھا دی۔ جیسا کہ پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے کہ عبد اللہ بن ابی جو غزوہ بدر کے بعد ایمان لایا تھا اور غزوہ احد کے وقت اس نے مدینہ کے اندر رہ کر ہی جنگ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی رائے کو خود چھوڑ کر دوسرے نوجوانوں کی رائے کو قبول کرلیا اور یقینا مشیت ایز دی سے ایسا ہوا تھا اگر وہ مخلص ہوتا تو وہ بھی نبی کریم ﷺ کی اختیار کردہ راہ کو اختیار کرلیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور مدینہ سے باہر نکل کر دوبارہ اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس مدینہ لوٹ گیا۔ در اصل اس وقت مدینہ سے باہر نکل کر واپس جانے میں اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ باقی لوگ یہ منظر دیکھ کر بددل ہوجائیں۔ یہ گویا اس کی ایسے نازک وقت میں ایک چال تھی۔ اس کے نکلنے کے ساتھ ہی اوس و خزرج کے کچھ لوگوں کے دلوں میں بھی کچھ ایسی بات نے جنم لیا لیکن ان کے اظہار کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ اس طرح اس کی یہ چال بھی کامیاب نہ ہوسکی بلکہ وہ بری طرح ناکام ہوگیا۔ اور اس کی منافقت کھل کر سامنے آگئی۔ بس انہی دو جماعتوں کا اس جگہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ ” ھم “ اس دلی ارادہ کو کہتے ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہو اور عملی طور پر اس کا ابھی اظہار نہ ہوا ہو خواہ وہ ارادہ اچھا ہو یا برا ۔ فرمایا ان کے دلوں میں یہ پیدا ہوا ہی تھا کہ اللہ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا اور انہوں نے عمل طور پر ابھی اس کا کوئی اظہار نہیں کیا تھا۔ اور یہ بات بھی اس سے واضح ہوگئی کہ اس نے اندھا بہرا ہو کر اپنے دل میں پیدا ہونے والے ارادہ سے باز آجائے تو اس کو اس بات پر اجر ملتا ہے کہ اس نے اندھا بہرا ہو کر اپنے دل میں پیدا ہونے والے ارادہ سے باز آجائے تو اس کو اس بات پر اجر ملتا ہے کہ اس نے اندھا بہرا ہو کر اپنے دل میں پیدا ہونے والے ارادہ کے مطابق عمل نہیں شروع کیا بلکہ اس کو سمجھ سوچ کر ترک کردیا کہ اس کے مطابق عمل صحیح نہیں۔ اس جگہ بھی ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ان دنوں گوہوں کا مدد گار تھا “ اس لئے ان کے دل میں پیدا ہونے والا وہم وہیں روک لیا گیا۔ اور یہ خیال بھی انہیں پیدا ہوا اپنی قلت تعداد ، قلت سامان اور مادی کمزوری کی بناء پر نہ کہ ضعف ایمان کی بناء پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اللہ ولیھما “ خود ان کے ایمان کامل کی شہادت دے رہا ہے۔ اس لئے گویا ان دونوں قبیلوں کے لئے اگر کچھ عتاب بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم یہ بشارت بھی ان ہی کے لئے ہے کہ ان دونوں جماعتوں کا دوست ہے یا کر ساز ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کامل ایمان کی ایک نشانی ہے : 233: جو یمان رکھنے والے ہیں انہیں تو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ اس سے یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ کثرت تعداد اور کثرت سازو سامان پر مسلمانوں کو اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں ! اپنی مکمل اور ہر لحاظ سے بھر پور تیاری بیشک ضروری ہے اور بقدر استطاعت مادی سامان جمع کرنے کے بعد بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر ہی رکھان چاہیے۔ چونکہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ کو کمزوری اور کم ہمتی کا جو وسوسہ پیدا ہوا تھا۔ وہ اس مادی ضعف کی بناء پر تھا اس لئے ان کے وسوسہ کا علاج تو کل ہی سے بتلایا گیا کہ توکل و اعتماد ان وساوس کے لئے نسخہ اکسیر ہے۔ توکل انسان کی اعلیٰ صفات میں سے ایک ہے۔ محقیقین نے اس کی حقیقت پر بحثیں کی ہیں اس جگہ اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ توکل کے معنی یہ نہیں کہ اسباب ظاہری سے بالکل قطع تعلق کر کے اللہ پر اعتماد کیا جائے۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ تمام اسباب ظاہری کو اپنی قدرت کے مطابق جمع کرے اور ان سب کو اختیار کرے اور پھر نتائج اللہ کے سپرد کر دے اور ان ظاہری اسباب پر جو اس نے بڑی محنت اور مشقت سے اکٹھے کئے ہیں کسی طرح کا فخر و ناز نہ کرے۔ شیخی نہ بگھارے اور اپنا مکمل اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھے جس نے ان ظاہری اسباب کو اکٹھا کرنے کی توفیق دی اور ان ظاہری اسباب کو پیدا فرمایا۔ نبی اعظم و اخر ﷺ اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے اور اس جہاد میں مسلمانوں کے لشکر کو جنگ کے لئے منظم کرنا۔ رات کے وقت اپنی قیام گاہ کو چھوڑ کر لشکر کی تیاری میں مصروف ہوجانا۔ سپ سالاروں کے قواعد کے مطابق جگہ کا انتخاب کرنا۔ مختلف لوگوں کے ذمہ ان کی ڈیوٹیوں کا تقسیم کرنا خود اپنی ذات اقدس کا جنگی لباس زر ہیں ، خود ، تلوار ، بندوق اور دوسرے اسباب کا اختیار کرنا اور اسب سے بڑھ کر یہ کہ خود بنفس نفیس جنگ میں شریک ہونا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ مادی اسباب بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں ان سے قطع نظر کرنے کا نام توکل نہیں ہے۔ اس جگہ مومن اور غیر مومن میں فرق صرف یہ ہوتا ہے۔ اور غیر مومن کو یہ نظریہ اور عقیدہ نصیب نہیں ہوتا اس کو صرف اپنی مادی طاقت پر بھروسہ ہوتا ہے اور اس فرق کا ظہور ایک سچے مسلم اور ایک پکے دنیا دار کے عمل سے وضح ہوجاتا ہے جو ہمیشہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔
Top