Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اس معاملہ میں تمہیں کوئی دخل نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ چاہے تو ان سے درگزر کرے اور چاہے تو عذاب دے (کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہو) یقینا وہ ظلم کرنے والے ہیں
آیت لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ کا شان نزول : 241: جنگ احد کا انجام بلاشبہ مسلمانوں کے حق میں اچھا رہا تاہم جو تکلیف مسلمانوں کو پہنچی اور خصوصاً نبی کریم ﷺ جس طرح اس جنگ میں زخمی ہوئے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ” شج النبی “ ﷺ یوم احد فقال کیف یفلح قوم شجوا لذیھم فنزلت لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٍ ۔ یعنی احد کے دن نبی کریم ﷺ کے سر میں زخم آیا تو اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کس طرح وہ قوم کامیاب ہوگی جنہوں نے اپنے نبی کو زخمی کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ” اس معاملہ میں تمہیں کوئی دخل نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا بہت سے مسلمان مجاہدین شہید بھی ہوئے اور کفار نے ان شہداء احد کی بےحرمتی بھی کی کہ ان کی نعشوں کا مثلہ کیا۔ ان کے کان ، ناک ، ہونٹ تک کاٹ دیے گئے اور سیدنا حمزہ ؓ کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا گیا جو ہندہ نے اپنے دانتوں سے نوچ کھانے کی کوشش کی اگرچہ وہ نگل نہ سکی۔ یہ سارے کام ایسے تھے جو نہایت حد تک دکھ دہ تھے اس پر ظالموں کی سزا کی خواہش بالکل فطری چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس سزا کی دعا اپنے خالق ومالک حقیقی سے مانگی گئی ان کفار کو جنہوں نے یہ بےحرمتی کی تھی کبھی بھی اس طرح کی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اس لیے کہ اس کے بعد بھی جنگیں لڑی گئیں اور میدان جنگ میں کفار مارے بھی گئے لیکن اس طرح کی کوئی حرکت مسلمانوں کی طرف سے انتقام کے طور پر بھی نہیں کی گئی۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو بیئر معونہ کے واقعہ کے متعلق بھی بیان کیا ہے اور وہ واقعہ بھی صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ستر قاریوں کو ایک سردار قوم کی درخواست پر اس کی قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا یہ سب حضرات جا رہے تھے اور جب اس کنوئیں کے قریب پہنچے جس کا نام معونہ ہے تو اس قوم کے قبیلوں نے غداری سے ان سب کو قتل کردیا اور یہ قبائل رعل ، زکوان ، عصیہ اور بننی لحیان تھے تو نبی کریم ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت ہی دکھ ہوا اور آپ ﷺ نے ایک مہینہ تک نماز صبح کی دوسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھی اور ان لوگوں کے لیے بددعا کی جنہوں نے دھوکہ اور فریب کی حد کردی اور نبی کریم ﷺ اور اہل اسلام کی اذیت کا باعث ہوئے اور ان سب واقعات میں دراصل کوئی اختلاف نہیں اس لیے کہ جب حکم عام ہے اور جب عالم اسلام پر کوئی ایسی ناگہانی مصیبت ڈال دی جائے یا ایسے تکلیف دہ واقعات رونما ہوں تو یہ دعائے قنوت پڑھی جاسکتی ہے اور یہی کچھ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے تور بار کے لیے یہ آیت بھی حکماً موجود ہے کہ اس میں مسلمانوں کے اختیار کا مسئلہ نہیں بلکہ جب کسی کی بدبختی اور روسیاہی کا وقت آجاتا ہے تو وہ ایسے واقعات پیدا کردیتا ہے جس سے ایک فریق کو تکلیف پہنچتی ہے تو بہرحال اس کے منہ سے بددعا تو نکلتی ہی ہے اور نکلنی ہی چاہیے اور پھر انجام کار آج بھی کہنا پڑتا ہے کہ ایسے حالات میں انسان کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں کہ ان کو روک سکے یا رونما نہ ہونے دے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی امر ہے جس کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ ہاں ! جس نے یہ واردات کی ہے وہ سزا کا مستحق ہے۔ دراصل اس میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ جب کسی کو کوئی تکلیف دی جاتی ہے تو اس کے منہ سے مظلوم ہونے کے باعث جو کچھ نکلتا ہے وہ غیر اختیاری ہوتا ہے اس لیے نکل جاتا ہے لیکن آپ ﷺ رحمت للعالمین ہیں آپ ﷺ کی اس بددعا کو بھی اس طرح منظور فرمایا گیا ہے کہ وہ تینوں شخص جن پر آپ ﷺ نے بددعا کی بعد میں مسلمان ہوگئے ایسے ہی قبائل بھی مسلمان ہوگئے اس میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو بات بات میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بزرگوں تک کے لیے لعنت بھیجنے کو اپنے مذہب کا ایک حصہ قرار دے بیٹھے ہیں۔
Top