Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے مسلمانو ! حرام کی کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو جو دوگنی چوگنی ہوجایا کرتی ہے اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
مسلمانوں کو سود کی کمائی سے باز آنے کا حکم دیا جاتا ہے : 243: ” اَضْعَا فَا مُضَاعَفَۃ “ سود در سود کو کہا گیا ہے۔ عربوں میں دستور تھا اور غالباً ایسا ہی دستور تمام سود خواروں میں ہے کہ جب قرضہ کی میعاد پوری ہوجاتی ہے اور قرضہ ادا کرنے والا قرضہ ادا نہیں کرسکتا تو سود کو اصل رقم میں بڑھا کر دوبارہ میعاد مقرر کرلی جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی مجبوری کے باعث ایک بنئے سے سو روپے قرض لیے اور ایک سال کے بعد ایک سو بیس ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ سال گزر گیا لیکن وہ قرض ادا نہ کرسکا تو اب بنئے کی طرف سے 120 روپے اصل زر ہوگیا اور سال کے لیے جو رقم طے ہوئی اب وہ ایک صد بیس روپے پر ادا کرنا پڑے گا اس طرح رقم بڑھتے بڑھتے چار چھ سال میں مقروض کو اس قدر دبا کر بیٹھ گئی کہ اس کو زمین ، مکان ، جانور ، غلہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب دینا پڑا اور آہستہ آہستہ وہ ساری چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آیت کا یہ مطلب نہیں کہ کئی گنا کر کے سود نہ کھاؤ لیکن تھوڑا تھوڑا کھالو بلکہ مراد اس سے مذمت یا تو بیخ سود ہے کہ تم سود مت کھاؤ ۔ انسان جب اصل راہ سے ہٹ جائے تو اس کے لیے ہلاکت و پریشانی اور نقصان ہی نقصان ہوتا جاتا ہے۔ دراصل مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ جنگ احد میں تم نے ایک غلطی کی اور غلطی کا نتیجہ کیا رہا ہے ؟ اور کتنی تکلیف اٹھانی پڑی ہے ؟ پھر یہ کہ انسان جب ایک قدم غلط اٹھا بیٹھتا ہے تو وہ غلط پر مزید غلط قدم اٹھاتا ہی جاتا ہے اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نے ایک غلطی کی اس کا یہ نتیجہ پایا تو اب باز آجاؤں اعتراف کرلوں اور مزید غلط قدم نہ اٹھاؤں۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ غلطی کا اعتراف اس کو دل پر شاق گزرتا ہے۔ یہاں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ سود اور جنگ عملاً لازم و ملزوم ہیں۔ جس قوم کو یہ بیماری لگ جاتی ہے وہ ہمیشہ جا بجا انسانی خون سے ہاتھ رنگتی رہتی ہے۔ کفار مکہ نے جو جنگیں لڑیں دراصل ان کی بھی اصل وجہ یہی تھی۔ مشرکین نے جو مال اکٹھا کیا وہ سارے کا سارا اسی طرح کا مال تھا کہ و ڈیرے قوم کے غریبوں کو سود پر روپیہ دیتے اور ان سے سود کی رقم اکٹھی کر کے اصل زر خود رکھتے تاکہ ان کا کوئی نقصان نہ ہو اور سود کا روپیہ جن سے کماتے انہی لوگوں پر وہ روپیہ خرچ کر کے ان کو آمادہ پیکار کرتے اور اسی طرح قوم کے غریب و نادار لوگ اپنے ہی روپے سے میدان کارزار میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔ آج بھی اگر آپ دیکھیں گے تو آپ کو یہی صورت حال نظر آئے گی ان دنیا کے وڈیروں نے غریب ملکوں کو کیا دیا ؟ سود پر قرض دیا اور پھر سود در سود قرض بڑھتا گیا بلکہ ان کی ضرورت کو دیکھ کر مزید ان کو قرض لینے کی راہیں بتائیں کہ اگر تم یہ کرو گے تو تمہیں اتنا قرض مزید مل جائے گا اس طرح غریب ملکوں نے قرض لے لے کر اتنا قرض بڑھا لیا کہ اب اس سے نکلنے کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہی۔ جن ملکوں کے پاس ایسے وسائل تھے کہ ان کو قرض لینے کی ضرورت نہ تھی ان کو ایسی ایسی الجھنوں میں مبتلا کردیا کہ ان کے ان قدرتی وسائل پر قبضہ کرلیا۔ اب وسائل رکھنے والے برائے نام ان کے مالک ہیں اصل مالک ان کے وہ خود قرار پا گئے۔ جوں جوں آگے بڑھتے گئے حالات بدلتے گئے اور سود کی نئی نئی راہیں کھلتی گئیں۔ ان کے ہاتھ اس سود در سود سے اتنے مضوط ہوگئے ان غریب ملکوں میں سے جس کو جی چاہا قرض دینا بند کردیا اور اگر ضرورت پڑ تو پچھلے قرض مانگنے شروع کردیے۔ ملک کی پوری پیداوار وہ اٹھا کرلے گئے۔ کسی ملک نے اگر پھر بھی برداشت رکھی تو اس کے خلاف کسی ہمسائے ملک کو اکسا دیا اور شرارت شروع کرا دی حتیٰ کہ وہ پہلا ملک ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس طرح کے گٹھ جوڑ اور ان سودی کاروباروں نے سارے اسلامی ممالک کا ستیاناس کردیا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ہمرے ہاں اتنا اسلحہ ہوگیا کہ اب اس کی کوئی کھپت نہ ہوئی تو یہ پڑا پڑا بےکار ہوگا اور ہمیں خسارہ اٹھانا پڑے گا فوراً کسی مسلک سے اسلحہ بیچنے کے لیے اس کو قرض کی پیش کش کردی اگر ایک ملک متوجہ نہ ہوا تو دوسرے کے ساتھ کاغذی معاہدہ کرلیا پھر اس کے ہمسایوں میں کھسرپھسر شروع ہوگئی تو ان پر بھی احسان کی ٹانگ رکھ دی۔ اس سودی کاروبار نے ہمارے سارے اسلامی ممالک کو اس مقام پر پہنچا دیا اور اس وقت تقریباً سب دیوالیہ ہیں اور جو اپنے پاؤں پر کھڑے تھے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑا کر اور ان کو اسلحہ دے کر کنگال کردیا حتیٰ کہ آہستہ آہستہ ان کے وسائل پر قبضہ کر کے ان کی حفاظت کے ٹھیکہ دار بن گئے۔ اسلام نے جہاں ایک طرف جنگ کو تسلیم کیا ہے خصوصاً ان حالات میں جب ایک قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہو تو اسے نہایت ضروری قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان موجبات جنگ کو جو بلا ضرورت جنگ جاری رکھنے کا موجب ہو سکتے ہیں دور یا کم کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جب بھی جنگ لڑی ہے دفاعی جنگ لڑی ہے ملک گیری کی ہوس میں ایک جنگ بھی نہیں لڑی گئی اور مخالفین نے جو بھی جنگ بھی لڑی ہے صرف ملک گیری کی ہوس میں لڑی ہے۔ اب مسلمانوں کو مل کر دنیا کے ان و ڈیرے مہاجنوں کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت شدید نظر آرہی ہے اور یہ اس دفاع میں لڑی جانی چاہیے تاکہ ان کے چنگل سے قوم مسلم نجات حاصل کرے اور ان کی اپنی بھڑکائی ہوئی آگ ان کو بھسم کر کے رکھء دے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ہر حال میں اس کا علاج یہی ہے اور یہی ہوگا وقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس کے لیے کون سا مقرر کیا گیا ہے ؟ حرمت سود کا صرف دو موقعوں پر ذکر کیا گیا ہے ایک اس جگہ جہاں انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا ہے اور دوسری وہ جگہ جہاں جنگوں کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ سود ایک طرف انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ سے روکتا ہے اور دوسری طرف جنگ بھڑکانے کے لیے نئے نئے طریقے سجھاتا ہے اور اسلام ایک طرف انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیتا ہے اور اس میں یہ حکمت سکھاتا ہے کہ اس طرح اموال بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے اور قوم میں خوشحالی آتی ہے اور اس کی تنگی دور ہوتی ہے اور سود سے اموال کم ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ پوری قوم سے سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتے ہیں جس سے قومی خوشحالی کو اور قوم دن بدن بدحالی کی طرف بڑھنے لگتی ہے اور جن ہاتھوں میں دولت سمجٹ کر رہ جاتی ہے وہ اس دولت سے جنگ کے جھونکے تیز کردیتے ہیں تاکہ ان کے سود پر قرض دینے کی راہیں نکلتی رہیں اور اس طرح پوری قوم کا امن برباد ہوجاتا ہے اور پھر انجام کار وہ وقت آجاتا ہے کہ یہ جنگ بھڑکانے والے خود اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح نہ بانس رہتا ہے نہ بانسری بجتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 275 تا 281 کا مطالعہ کریں۔
Top