Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 143
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ١۪ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : تم تمنا کرتے تھے الْمَوْتَ : موت مِنْ قَبْلِ : سے قبل اَنْ : کہ تَلْقَوْهُ : تم اس سے ملو فَقَدْ رَاَيْتُمُوْهُ : تو اب تم نے اسے دیکھ لیا وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور یہ واقعہ ہے کہ جب تک موت کا سامنا نہیں ہوا تھا تم راہ حق میں مرنے کی آرزوئیں کرتے تھے لیکن پھر ایسا ہوا کہ موت تمہاری آنکھوں کے سامنے آگئی اور تم کھڑے تک رہے تھے (کہ اچانک کیا سے کیا ہوگیا)
تمنا موت کی دو صورتیں اسلام میں جائز اور درست رکھی گئی ہے : 260: موت کی ایک تمنا جو اسلام نے جائز اور درست رکھی ہیں یہ ہے کہ انسان یہ خواہش رکھے کہ مجھے میدان جنگ میں شہادت نصیب ہو۔ اس نظریہ کے ساتھ جہاد میں شریک ہو اور جہاد کرتے ہوئے شہادت پا جاتے اور دوسرے موت کی تمنا یہ ہے کہ ایک آدمی قرآن و سنت سے اپنے مخالف کو دلائل دے اور اپنا موقف ثابت کر دے لیکن مخالف بضد ہو کر نہ تو اس کے دلائل کو تسلیم کرے اور نہ ہی اس کے دلائل کا شافی جواب دے۔ پھر اس طرح بات ختم ہونے کی طرف نہ آئے تو وہ اپنے مخالف کو دعوت مباہلہ دے دے جس میں اللہ تعالیٰ سے دعا طلب کی جائے کہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہے اس کو موت دے دے تو یہ دونوں صورتیں جائز ہیں حالانکہ ان میں موت کی تمنا کی گئی اور باقی کسی صورت میں بھی موت کی تمنا جائز نہیں خواہ انسان کسی دکھ اور مصیبت میں مبتلا ہوجائے۔ یہ لوگ بھی راہ حق میں شہادت پانے کے لیے دعائیں کرتے تھے یہ لوگ کون تھے ؟ ایک تو وہ تھے جو بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور بدر کی فتح کو دیکھ کر ان کو خیال آتا تھا کہ اگر ہم بھی شریک جنگ ہوتے تو ان فوائد کثیرہ سے تمتع ہوتے اس لیے وہ اکثر اس کی خواہش کرتے تھے کہ اب اگر جنگ ہوئی تو ہم جہاد کے لیے ضرور نکلیں گے حالات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔ دوسرے وہ نوجوان تھے جو مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے پر راضی نہ تھے بلکہ کھلے میدان میں لڑنا چاہتے تھے تاکہ مریں تو شہادت کی موت داد شہادت لیتے ہوئے ورنہ اپنے جوہر دکھائیں گے اور اس کے لیے میدان ہی بہتر مقام ہے۔ یہ دونوں طرح کے مسلمان جنگ احد میں شریک تھے۔ اس لیے ارشاد الٰہی ہوا کہ ” جب تک موت یعنی جہاد کا سامنا نہیں ہوا تھا تم راہ حق میں مرنے کی یعنی شہادت پانے کی آرزوئیں کیا کرتے تھے یعنی جہاد میں شریک ہونے کی آرزو رکھتے تھے اور یہ تمنا موت کی ایسی ہے جیسے ایک حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احییٰ ثم اقتل ثم احییٰ ثم قتل ” میں اس بات سے محبت رکھتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں۔ “ اس اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کی آرزو ساری آرزوؤں سے بہتر اور اچھی آرزو ہے۔ پھر جب وہ وقت آگیا کہ جہاد میں نکلنے کا بگل بجنے لگا تو تم میں سے کچھ لوگ ششدر رہ گئے : 261: پھر ایسا ہوا کہ جب تم نے یعنی تم میں سے بعض نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یعنی جہاد سر پر آگیا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ موت دکھائی دینے کی چیز نہیں اور نہ ہی آج تک کسی کو دکھائی دی۔ ہاں ! اسباب موت نظر آنے والی چیز ہیں اور وہ ہر ایک کو نظر آتے ہیں۔ جہاد بھی ایک موت کا سبب بہرحال ہے اس لیے موت کا سبب نظر آنا گویا موت ہی کا نظر آنا ہے اور پھر جب تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ وقت آگیا تو گویا تم دیکھتے ہی رہ گئے مکہ میں جس موت کے تم طلبگار تھے وہ تمہیں آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور تم ششدر ہو کر رہ گئے اور اس حالت کو قرآن کریم میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ : اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْ لَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ وَ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا (النساء : 77:4) ” اے پیغمبر اسلام ! کیا تم نے ان لوگوں کی حالت پر نظر نہیں کی جنہیں حکم دیا گیا کہ جنگ و خونریزی سے ہاتھ روک لو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر جب ایسا ہوا کہ ان پر لڑنا فرض کردیا گیا تو یکایک ایک گروہ نے انسانوں کے ڈر سے لگا اس طرح ڈرنے جیسے کوئی خدا سے ڈر رہا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ! اب بھی وہ کہتے ہیں کہ خدا ! تو نے ہم پر جنگ کرن کرنا کیوں فرض کردیا ؟ کیوں نہ ہمیں تھوڑے دنوں کی اور مہلت دے دی۔ اے پیغمبر اسلام ! تم ان سے کہہ دو کہ تم موت سے بھاگ رہے ہو اور دنیا کا سرمایہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرا تو اس کے لیے تو آخرت ہی کا سرمایہ بہت ہوا وہاں ذرا بھر بھی کسی کی حق تلفی ہونے والی نہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلاَ نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ فَاِِذَآ اُنزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْہَا الْقِتَالُ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاَوْلٰی لَہُمْ (محمد : 20:47) ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی جس میں جنگ کرنے کا حکم دیا جائے مگر ایک محکم سورت نازل کردی گئی جس میں جنگ کی فرضیت کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو۔ افسوس ان کے حال پر۔ “
Top