Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 153
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا مَاۤ اَصَابَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اِذْ : جب تُصْعِدُوْنَ : تم چڑھتے تھے وَلَا تَلْوٗنَ : اور مڑ کر نہ دیکھتے تھے عَلٰٓي اَحَدٍ : کسی کو وَّالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : تمہیں پکارتے تھے فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ : تمہارے پیچھے سے فَاَثَابَكُمْ : پھر تمہیں پہنچایا غَمًّۢا بِغَمٍّ : غم کے عوض غم لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَحْزَنُوْا : تم غم کرو عَلٰي : پر مَا فَاتَكُمْ : جو تم سے نکل گیا وَلَا : اور نہ مَآ : جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پیش آئے وَاللّٰهُ : اور اللہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
جب تم میدان سے بھاگ رہے تھے اور ایک ، دوسرے کی طرف مڑ کر دیکھتا تک نہ تھا اور اللہ کا رسول ﷺ تھا کہ پیچھے سے تم کو بلا رہا تھا سو جب تمہارا یہ حال ہوا تو اللہ نے بھی تمہیں رنج پر رنج دیا تاکہ آئندہ نہ تو اس چیز کے لیے غم کرو جو ہاتھ سے جاتی رہی ہے نہ اس پر غمگین ہو جو سر پر آپڑے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے
غزوہ احد کا تیسرا مرحلہ جس میں لشکر اسلام کو ہزیمت کا سامنا ہوا : 279: ہ وہ وقت ہے جب خالد بن ولید کی معیت میں لشکر کفار نے جبل عینین پر رہ گئے صحابہ کرام کی چھوٹی سی جماعت کو شہید کرتے ہوئے لشکر اسلام پر پیچھے سے حملہ کردیا تھا۔ ایسی حالت میں جب مسلمان فتح کے زعم میں ایک طرف سے لشکر کفار کو دبائے چلے جا رہے تھے۔ دوسری طرف سے ان پر اچانک حملہ نے ان کے اوسان خطا کردیئے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا ہوا ؟ وہ چھوٹی سی جماعت جس کے ختم ہونے کا امکان بدر کے دن بھی تھا اور جو اللہ کے فضل و کرم اور اپنے استقلال کے نتیجہ میں میدان کار زار فتح و کامرانی کے ساتھ لوٹی تھی۔ آج پھر بہت بڑے امتحان سے گزر رہی تھی۔ اور آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے لئے شوال 3 ھ کو دوپہر سے غروب آفتاب کے تقریباً پانچ گھنٹے مکہ کے تیرہ سالوں سے بھی زیادہ صبر آزما تھے۔ غزوہ احد کے اس تیسرے دور کا نقشہ کھینچنا آساں بھی ہے اور مشکل بھی۔ اس لئے کہ ہزیمت اٹھانے والے لشکر کے متعلق بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے لیکن مشکل اس لئے کہ ایسے نازک و وقت میں کسی لشکر کا دوبارہ تیار ہو کر مخالفین کو نئے سرے سے شکست سے دوچار کردینا کیسے ہوا ؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ جب مسلمان دشمن کی زد میں آکر بھاگ اٹھے اور رسول اللہ ﷺ ان کو اجتماع کے لئے بلا رہے تھے۔ اور بآواز بلند فرما رہے تھے۔ ” اِلی عباد اللہ الی عباد اللہ انارسول اللہ “ اے اللہ کے بندو میری طرف آجاؤ ۔ اے اللہ کے بندوں میری طرف آجاؤ ۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ایسے خطرناک موقعہ پر اپنے آپ کو آگے بڑھانا اور دشمن کے حملہ کا خطرہ دل میں ہرگز نہ لانا نبی کریم ﷺ کی کمال شجاعت کو دکھاتا ہے۔ اور ظاہر کرتا ہے۔ کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کس قدر بھروسہ تھا کہ میدان جنگ میں دشمن کے غلبہ کے وقت آپ چھپے نہیں بلکہ مزید ظاہر ہوتے ہیں اور بےخطر اپنے ساتھیوں کو پکارتے ہیں کہ بھاگو نہیں ادھر آؤ ۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی اس آواز ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے آپ ﷺ کے گرد جمع ہونا شروع کردیا اور ایک چھوٹی سی جماعت نے آپ ﷺ کے ارد گرد ایک حلقہ سا بنا لیا یہ چودہ سر فروش مجاہدین تھے۔ جن کی قیادت صدیق اکبر ؓ کے سپرد تھی اور صدیق اکبر ؓ کی راہنمائی آپ ﷺ خود فرما رہے تھے۔ اس طرح لشکر اسلام کے سپ سالار اعظم ﷺ کے ہمرکاب صرف چودہ محافظوں کا دستہ ہے اور آپ ﷺ پر دو سو گھوڑ سواروں کا عقب کی جانب سے حملہ ہوتا ہے۔ یہ گھوڑا سوار چندہی لمحے قبل تیر اندازوں کی ایک جماعت کو روندتے ہوئے حملہ آور ہوئے ہیں مگر ان چودہ پندرہ پاپیادہ مجاہدوں نے جس پامردی ، جس ہمت ، جس استقلال اور جس اولو العزمی سے اس لشکر کے حملہ کو روکا اس کی مثال عالمی عسکری تاریخ پیش کرنے سے یقینا قاصر ہے اور ان کے اس کامیاب دفاع کی تفصیل یا اس ناممکن تصور کار کردگی کا نقشہ کھینچا اس قلم کے بس کی بات نہیں۔ ان چودہ جلیل القدر اصحاب رسول ﷺ میں وہ کو اکب شامل تھے جن کے کارناموں کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ ان میں سرفہرست سیدنا ابوبکر صدیق ؓ رفیق سفر ہجرت اور یار غار موجود ہیں۔ عام زندگی میں صدیق اکبر ؓ بیشک نرم گفتار ، نرم رفتا ، غریبوں اور یتیموں کے مونس و غمگسار تھے مگر میدان کر زار میں اپنے ہادی و رہبر کے بعد سب سے زیادہ دلیر اور شجاع معروف تھے۔ انہوں نے اس لشکر کفار کے حملہ کور روکنے کے لئے وہ جوہر دکھائے جن کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے اپنے باقی ساتھیوں سے مل کر آپ ﷺ کے گرد ناقابل تسخیر دیوار قائم کرنے میں پورا پوراکردار ادا کیا۔ اس موقع پر صدیق اکبر ؓ نے ان چودہ نامور دلیروں کے حلقہ کو اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ ﷺ کے گرد قائم رکھنے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کیا اور پورے میدان کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے والے اس دستہ میں فاروق اعظم ؓ علی المرتضیٰ ؓ زبیر بن عوام ؓ ، ابوعبیدہ ؓ بن الجراح اور عبدالرحمٰن بن عوف ؓ ، مہاجرین میں عاصم بن ثابت ؓ ، حارث بن اسمہ ؓ ، سہل بن حنیف ؓ ، سعد بن معاذ ؓ اور عبید بن حضیر ؓ انصار میں سے شامل تھے۔ اس طرح جوں جوں لڑائی ہوتی رہی لشکر اسلام کے سپاہی جو بکھر چکے تھے دوبارہ جمع ہونا شروع ہوگئے۔
Top