Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 158
وَ لَئِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاۡاِلَى اللّٰهِ تُحْشَرُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر مُّتُّمْ : تم مرگئے اَوْ : یا قُتِلْتُمْ : تم مار دیے گئے لَاِالَى اللّٰهِ : یقیناً اللہ کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اکٹھے کیے جاؤگے
اور تم طبعی موت مرو یا مارے جاؤ ہر حال میں ہونا یہی ہے کہ اللہ کے حضور جمع کیے جاؤ گے
تم قتل کردیے جاؤ یا طبعی موت مرو انجام کار اللہ کے ہاں جمع ہوں گے : 291 : طبعی موت مرنے یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے سے دنیوی طور پر جو فرق ہے ذرا واضح کرو ؟ موت تو بہرحال دونوں کو آگئی اور مرنے والے کو آخر دنیوی لحاظ سے کیا فرق پڑا۔ اس جسد عنصری سے روح کا پرواز کر جانا موت کہلاتا ہے تو نتیجتاً موت کی صورت تو دونوں طرح واقع ہوگئی۔ ہاں ! دینی لحاظ سے یہ فرق ہوا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا بامقصد مرا اور اس طرح کی موت سے اس کو ابدی زندگی نصیب ہوگئی اور بھی ایسی جس میں کسی طرح حزن و ملال نہ رہا۔ اس لیے سچا مومن وہی ہے جو موت سے نہ ڈرے اور کبھی اس ڈر سے راہ حق سے قدم پیچھے نہ ہٹائے۔ وہ فرماتا ہے کہ موت سے تو کسی حال میں بھی مفر نہیں پھر کیوں نہ اس موت کا استقبال کیا جائے جو راہ حق میں پیش آئے اور جس کا نتیجہ اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہو ؟ لیکن جن لوگوں کے دل ایمان سے محروم ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ راہ حق میں کچھ لوگوں کو موت پیش آگئی تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ اگر ان لوگوں نے یہ راہ اختیار نہ کی ہوتی تو کیوں اس نتیجے سے دو چار ہوتے ؟ گویا موت صرف میدان جنگ ہی میں آسکتی ہے جو آدمی اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا وہ تو کبھی مرنے والا نہیں ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو پیدا ہوا ہے اس کے لیے مرنا لازم ہے۔ پھر یقینا موت وہی بہتر ہے جس موت سے آخرت کی کامیابی حاصل ہوجائے۔ اس لیے ایسی موت کو اسلام موت تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ زندگی سے تعبیر کرتا ہے لکنے یہ فلسفہ ایک منافق کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔
Top