Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 16
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَآ : بیشک ہم اٰمَنَّا : ایمان لائے فَاغْفِرْ : سو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : دوزخ
جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم تجھ پر ایمان لائے پس ہمارے گناہ بخش دے اور عذاب جہنم سے ہمیں بچا لے
جن لوگوں کی پکار ایک اور صرف ایک ہی ہے : 41: اے ہمارے رب ! ہم تجھ پر ایمان لائے ہیں پس ہمارے گناہ بخش دے اور عذاب جہنم سے ہمیں بچا لے۔ یہ کہنے والے کون ہیں ؟ وہی ہیں جن کا ذکر الَّذِیْنَ اتَّقَوْا کے ماتحت چل رہا ہے۔ یہ اپنے اعمال و احوال پر نازاں ہونا تو الگ رہا الٹے فرط خشیت وہیبت سے اپنی مغفرت اور حسن خاتمہ کے لیے مناجات کرتے رہتے ہیں اور منجات میں سب سے پہلے اقراری ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول اور اس کی شریعت پر ایمان لائے ہیں اور پھر ایمان پر معاً طلب مغفرت کو مرتب کرتے ہیں اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ مغفرت میں اصل حائل عدم ایمان ہی ہوتا ہے۔ جب یہ مانع نہ رہا بلکہ رفع ہوگیا تو اب کیا ہے ؟ اب ہماری انسانی اور فطری خطائیں ہیں اور لغزشیں ہیں جو عزم و ارادہ نہ ہونے کے باوجود سرزد ہو ہی جاتی ہیں اور یہ بھی ہمارے ایمان ہی کا جزو ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا معاف کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ ایمان بہت بڑی نعمت ہے او اس کی انتہائی اہمیت اس آیت سے ظاہر ہو رہی ہے۔ نیک بندوں کی یہاں ایک پکار ہے کہ ان کو جب بھی دیکھو وہ اللہ ہی کی پکار میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو جو کچھ طلب کرنا ہے سب اس سے طلب کرنا ہے اور غیر کی طرف ان کا کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ تفصیل کے لیے تفسیر کبیر کو دیکھو کہ امام رازی (رح) نے اس آیت کے تحت بہت بڑی شاندار تقریر کی ہے۔
Top