Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 160
اِنْ یَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ یَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِنْ : اگر يَّنْصُرْكُمُ : وہ مدد کرے تمہاری اللّٰهُ : اللہ فَلَا غَالِبَ : تو نہیں غالب آنے والا لَكُمْ : تم پر وَاِنْ : اور اگر يَّخْذُلْكُمْ : وہ تمہیں چھوڑ دے فَمَنْ : تو کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يَنْصُرُكُمْ : وہ تمہاری مدد کرے مِّنْۢ بَعْدِھٖ : اس کے بعد وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے کہ بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے لیکن اگر وہی تمہیں چھوڑ دے توبتلاؤ کون ہے جو تمہارا مددگار ہوسکتا ہے ؟ صرف اللہ ہی کی ذات ہے پس جو مومن ہیں وہ اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
مسلمانوں کو ہدایت کہ اگر تم اللہ کے ہو جائو اور اللہ تمہارا ہوجائے ، پھر کا ہے کا غم : اب مسلمانون کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اے مسلمانو ! اگر تم اللہ کے ہوگئے تو اللہ یقینا تمہاری مدد کرے گا اور اگر وہ تمہارا مدد گار ہو تو پھر تم پر کون غلبہ پانے والا ہے ؟ یعنی کوئی بھی تم پر غلبہ نہیں پا سکے گا کیونکہ جو مدد الٰہی کو حاصل کرلے وہ کسی سے مغلوب ہو ہی نہیں سکتا ورنہ اللہ کا واجز اور کمزور ہونا لازم آئے گا اور یہ قطعاََ محال ہے۔ آج فی زماننا مسلمانوں کو اپنا تجزیہ کرنا ضروری اور لازمی ہے کہ وہ دنیا میں کس پہلوپر غالب ہے اور کس پر مغلوب۔ اور مغلوب ہے تو کیسے ؟ اور کیوں ؟ اور پھر اس سے کیا لازم آتا ہے کیا ہم وہ نہیں رہے جو ہم کو ہنا چایئے تھا یا اللہ وہ نہیں رہا ۔ فیصلہ خود کرلیں۔ لیکن یقینافیصلہ آپ کا بھی یہی ہوگا کہ ہم ہی وہ نہیں رہے جو ہم کو نا چاہئے تھا ورنہ وعدئہ الٰہی کبھی غلط اور خلاف واقعہ نہیں ہوتا۔ اور پھر فرمایا کہ اللہ ہی تم کو بےمدد چھڑ دے اور اپنی مدد کو تم سے روک لے تو پھر کون تمہاری مدد کرسکتا ہے یعنی کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکتا کیونکہ بندوں کے تمام افعال اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں اس لئے اگر وہ بےمدد چھوڑ دے تو پھر کسی سے مدد کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ مِنْ بَعْدِہٖ یعنی اس کی مدد کے بعد یا یہ مطلب ہے کہ جب تم نے اللہ سے مدد کی طلب چھوڑ دی تو کسی دوسرے سے مدد کا تصور ممکن ہی نہیں گویا اس آیت کریمہ میں توکل کے عقلی وجوب کو دلیل سے ثابت کیا ہے پھر فرمایا کہ اگر توکل کے معیھ سمجھ لیے ہیں تو پھر اہل ایمان کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ وہ جانتے ہیں اور یقین بھی رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مدد گا نہیں۔ اس آیت کے مضمون پر محیط قرآن کریم میں بیشمار آیات اور بھی موجود ہیں جو مسلمانوں کو پکار پکار کر کہ رہی ہیں کہ غیر اللہ پر بھروسہ ترک کر کے اللہ اور صرف اللہ پر بھروسہ کرو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اور صرف اس کو سمجھو۔ ان راہوں پر چلو جو اس نے تمہارے لئے مقرر کردی ہیں اور ان راہوں کو بالکل ختم کر دو جن راہوں پر چلنے سے اس نے منع فرمایا ہے اگر تم اللہ کے ہوگئے تو وہ تقیناََ تمہارا ہوجائے گا اور جس کا اللہ ہو گایا اس کو کس کا ڈر اور کس کا خوف ہے ؟ اس لئے کہ اللہ کا ڈر اختیار کرنے والا دنیا ومافیہا سے نڈر ہوجاتا ہے جنانچہ قرآن کریم میں دورسری جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : قُلْ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ (الزمر : 38:39) ” اے پغیمبر اسلام ! آپ ان سے پوچھئے کہ بھلا بتائو کہ جن کی تم اللہ کے سوا پر ستش کرتے ہو اگر اللہ مجھے تکلیف دینا چاہے۔ یعنی اپنے قانون مشیت کے مطابق تو کیا وہ اسی کی دی ہوئی تکلیف دور کرسکتے ہیں یا اللہ مجھ پر اپنے قانون مشیت کے مطابق مہر بانی فرمانا چاہے تو کیا اس کی عنایت کو وہ روک سکتے ہیں ۔ پھر ان سے کہ دیجیئے کہ میرے لئے تو بس اللہ کافی ہے اور اس پر بھروسہ کرنے والے بھروسہ کرتے ہیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ مومن متوکل نہ کافروں سے ڈرتے ہیں اور نہ ان کے معبودان باطل سے خواہ وہ کوئی ہوں۔ ایک جگہ ارشادالٰہی ہے کہ : مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْم بَعْدِہٖ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (فاطر : 2:35) ” اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لئے کھول دے اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں وہ زبر دست ہے حکمت والا ہے۔ “ اس کا مقصود کیا ہے ؟ یہی کہ مشرکین کی یہ غلطی دور کردی جائے اور اس غلط فہمی کو دفع کردیا جائے کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی انہیں روز گار دلانے والا اور کوئی ان کو اولا دینے والا اور کوئی ان کے بیماروں کو صحت دینے والا ہے۔ شرک کے یہ تمام تصورات بالکل بےبناغد ہیں اور خالص حقیقت صرف یہ ہے کہ جس قسم کی رحمت بھی بندوں کو پہنچتی ہے محض اللہ عزوجل کے فضل سے ہی پہنچتی ہے کوئی دوسرا نہ اس کے عطا کرنے پر قادر ہے اور نہ روک دینے کی طاقت رکھتا ہے اور یہ مضمون قرآن کریم اور احادیث پاک میں بکثرت مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان در در کی بھیک مانگنے اور ہر آستانے پر ہاتھ پھیلانے سے بچے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے اور اللہ ہی کی وہ ذات ہے جو سب سے زیادہ زبردست ، سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا اور اس کے ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے جو فیصلہ بھی وہ کرتا ہے سراسر حکمت کی بناء پر کرتا ہے کسی کو دیتا ہے تو اس کے لئے قانون مشیت میں کوئی حکمت اس کی متقضی ہوتی ہے اور کسی کو نہیں دیتا تو اس لئے نہیں دیتا کہ قانون مشیت میں اسے دینا حکمت کے خلاف ہے۔ ایک جگہ ارشارد الٰہی ہے کہ : قُلْ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْصِمُکُمْ مِّنَ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَبِکُمْ سُوْٓئً ا اَوْ اَرَادَبِکُمْ رَحْمَۃًوَ لَا یَجِدُوْنَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا (الاحزاب : 17:33) ” اے پیغمبر اسلام ! آپ کہہ دیجئے کہ کون ہے جو تم کو اللہ سے بچا لے اگر وہ تمہیں اپنے قانون کے مطابق نقصان پہنچانا چاہے ؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر اپنے قانون کے مطابق مہر بانی کرنا چاہے ؟ اللہ کے مقابلہ میں تو یہ لوگ یقینا کوئی حامی و مدد گار نہیں پا سکتے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ لَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِِنْ اَرَادَ بِکُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ نَفْعًابَلْ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا (الفتح : 11:48) ” اے پیغمبر ! ان سے پوچھو کہ وہ کون ہے جو تمہارے معاملے میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ کی اختیار رکھتا ہے اگر ہو تمہیں کوئی نقصان پہنچا ناچا ہے یا نفع بخشنا چاہئے ؟ تمہارے اعمال سے توا للہ بلاشبہ پوری طرح باخبر ہے۔ “ مختصر یہ کہ اس آیت میں 160 میں مسلمانوں کی جماعت سے خطاب ہے کہ جب پیغمبر اسلام کا طریق کار یہ ہے کہ ہر معاملے میں تم سے مشورہ کرلیا کریں تو تمہارا فرض یہ ہے کہ ان کے تمام احکام و عزائم کی بےچون و چارا اطاعت کرو وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ اپنے رسول کی نصرت اور مدد نہ کرے۔ ہاں میرے قانون مشیت کے مطابق جہاں جیسا عمل ہوگا ویسا ہی اس کا نتیجہ بھی مرتب ہوتا ہے اور یاد رکھو کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ کا رسول خلق اللہ کی اطاعت و پیشوائی کے فرائض میں کسی طرح کی کوتاہی برتے یا کسی طرح کی خیانت کا مرتکب ہو۔
Top