Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 161
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ١ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھا۔ ہے لِنَبِيٍّ : نبی کے لیے اَنْ يَّغُلَّ : کہ چھپائے وَمَنْ : اور جو يَّغْلُلْ : چھپائے گا يَاْتِ : لائے گا بِمَا غَلَّ : جو اس نے چھپایا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ثُمَّ : پھر تُوَفّٰي : پورا پائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اللہ کا نبی یہ کبھی نہیں کرسکتا کہ وہ کسی طرح کی خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرتا ہے تو جو کچھ اس نے خیانت کی ہے قیامت کے روز چھپا نہیں سکے گا وہ اس کے ساتھ آئے گی پھر ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق پورا پورا بدلہ ملنا ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کے ساتھ ناانصافی کی جائے
نبی اور خیانت ، عقل کے ناخن لو تم کون ہو اور کیا کہہ رہے ہو ؟ 297: ” غل “ یغل کے معنی نقل کئے گئے ہیں اذا خان یعنی غل جس کا مضارع یغل آتا ہے اس کے معنی ہیں خیانت کرنا۔ لفظ ” غل “ جو قرآن کریم میں متعدد جگہ پر استعمال ہوا ہے وہ خیانت ‘ غشی ‘ عداوت ‘ کینہ ‘ حسد کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ ساری چیزیں ہی نبوت کے منصب کے خلاف ہیں اور ان میں سے ہر ایک نبوت کے منافی ہے اس لئے کسی ایک کا بھی نبی مرتکب نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگوں نے اس کو غنیمت کی خیانت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ لیکن چونکہ الفاظ عام ہیں اور قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر استعمال کئے گئے ہیں اور کسی جگہ بھی ان کو غنیمت کے مال کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا بلکہ عام خیانت ہی میں استعمال ہوئے ہیں اور اس جگہ بھی یہی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” دیکھو اللہ “ دونوں اکٹھی ہونے والی باتیں نہیں۔ اس میں خود بخود ہر طرح کی خیانت آگئی کیونکہ خیانت خیانت ہی ہے خواہ مال غنیمت ہو یا کوئی اور مال۔ جس طرح مال میں خیانت ہو سکتی ہے قول میں بھی خیانت ہو سکتی ہے اور عمل میں بھی۔ اس نبوت سے کسی طرح کی خیانت بھی ممکن نہیں نہ مالی ، نہ قولی اور نہ عملی۔ اس آیت کے شان نزول میں بھی بہت کشھ لکھا گیا ہے۔ کہیں بدر میں کسی چادر کے گم ہونے کے متعلق اور کہیں نزول وحی میں کیا نت کے متعلق کہیں تقسیم مال میں طاقتوروں کے درمیان مال تقسیم کردینے کے متعلق اور علاوہ ازیں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ لیکن حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے۔ ہاں اھد میں کیا کچھ ہوا ؟ کسی سے مخفی نہیں۔ پھر جو کچھ ہوا اس کا تجزیہ کیا جائے تو جو بات متعین کیا تھا اور یہ بھی ارشاد فرمایا تھا۔ کہ حالات کچھ ہوجائیں تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اور اس طرف سے حملہ نہ ہونے دینا لیکن جب فتح فتح کی آوازیں بلند ہوئیں مکی لشکر فرار ہوا اور مدنیء لشکر نے ان کا تعاقب کیا تو ان تیر اندازوں کی جماعت میں اختلاف رونما ہوگیا۔ اور ان کی کثیر تعداد نے جگہ کو چھوڑ دیا اور مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں مکی لشکر کے کمانڈر نے پیچھے ہٹ کر اس طرف مدنی لشکر پر سے حملہ کردیا اور پھر ججو کچھ ہوا وہ آپ پڑھ چکے انجام کر جانثار صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوبارہ جمع کر ہو اس زور سے جنگ لڑی کہ مکی لشکر کے چھکے چھڑا دیئے اور ان کو دوبارہ بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بلاشبہ رسول اکرم ﷺ جب احد سے واپس مدینہ تشریف لے گئے ان لوگوں سے پوچھ گچھ کی کہ آخر تم نے یہ حکم عدولی کیوں کی ؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے بہت سے تو میدان احد میں شہید ہوگئے تھے۔ باقی لوگوں نے کچھ عذرات پیش کئے لیکن وہ یقینا بہت کمزور تھے کوئی معقول عذر نہیں تھا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ” بل ظنتم انا نغل ولا نقسم لکم “ کیا تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا۔ کہ ہم تم کو باقاعدہ حصہ دار بنائیں گے۔ تمہیں اس بات کا گمان تھا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے۔ اس آیت کو اشارہ اس طرف ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ کیا تم کو یہ خیال ہے کہ یہ کسی ہماری کوتاہی کا نتیجہ ہے ؟ ہم کسی خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں ؟ گویا لشکر اسلام کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ ایسی کوتاہی نہ ہو اور نبی کریم ﷺ کے متعلق تمہارے خیال میں کبھی یہ بات نہ گزرے کہ نین ﷺ کو موجودگی میں ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ جو کچھ ہوا وہ تمہاری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے اور اس کا صحیح اور واحد حل یہ ہے کہ آئندہ تم ایسی کوتاہی نہ کرو تاکہ ایسے نتیجہ سے تم دوچار نہ ہو۔ نبی ﷺ کے آنے کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ تم کو تمہای کوتاہیوں سے آگاہ کریں اور تمہارا فرض یہ ہے کہ تم ان کوتاہیوں سے باز آؤ ۔ خائن اپنی خیانت کو کب تک چھپا سکتا ہے : 298: انبیاء کرام تو معصوم ہوتے ہیں ان سے کسی طرح کی خیانت کا ارتکاب ممکن ہی نہیں اور نبوت اور خیانت دونوں چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں اس لئے کسی نبی کے متعلق تو ایسا خیال ہی مردود ہے۔ اگر کوئی ایسا خیال رکھے تو یقینا وہ نبوت کا منکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوا اس کی خیانت آنے والے روز میں ظاہر کردی جائے گی اور وہ اپنی خیانت کو چاہیے کتنا ہی چھپائے نہیں چھپا سکے گا اس لئے کہ میدان حشر میں جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی۔ سب کے سامنے اس کو اس طرح رسوا کیا جائے گا کہ ججو مال چوری کیا تھا۔ وہ اس کی گردن پر دھرا ہوا ہوگا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو ایسا نہ ہو کہ قیامت میں میں کسی کو اس طرح دیکھوں کہ اس کی گردین پر ایک اونٹ لدا ہوا ہو۔ وہ شخص اگر مجھ سے شفاعت کا طالب ہوگا تو میں اس کو صاف صاف جواب دے دوں گا کہ میں نے حکم الٰہی پہنچا دیا تھا اب میں کچھ نہیں کر دسکتا ایک اونٹ والے کے لئے تو آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے جو اوپر آپ نے پڑھ لیا۔ لیکن جن لوگوں کے کندھوں پر پوری پورے بنک ، خزانے ، سکول ، مدارس اور خصوصاً اسلامی درسگاہیں ، مسجدیں ، خانقائیں اور پورے کے پورے قبرستان رکھے ہوں گے وہ بھی اس حدیث کو اپنی نگاہ میں رکھیں کہ ان کا کیا حشر ہوگا ؟ اور کیا گت بنے گی۔ اس لئے کہ ان میں تو پورے ملک کے باشندوں کا حق ہے جو ان میں خیانت کرے اس نے تو سارے مالک کے باشندوں کی خیانت کی۔ چنون کہ یہی اموال ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی ایک شخص مالک نہیں ہوتا۔ آج کل فی زماننا دنیا میں سب سے زیادہ خیانت انہی اموال میں ہو رہی ہے اور لوگ اس کے انجام بد اور وبال عظیم سے غافل ہیں۔ پھر ان ساری چیزوں کے نگران بھی ملک کے و ڈیرے ، سیاستدان ، علمائے کرام ، مفتیان عظام ، ناظمین ، گدی نشین اور سجادہ ہوتے ہیں ان کو پوچھے تو کون ؟ یقینا یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں اور ان کی خیانتیں یقینا ظاہر ہو کر رہیں گی۔ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ (المائدہ : 5:64) ” یہودیوں نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھ گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی کے ہاتھ بندھ گئے ہیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اس کی وجہ سے ان پر لعنت پڑی ہے۔ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق خرچ کرتا ہے۔ “ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا (بنی اسرائیل : 17:29) ” اور دیکھو نہ تو اپنا ہاتھ اتنا سکیڑ لو کہ گردن میں بندھ جائے اور نہ بالکل ہی پھیلا دو ۔ دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر طرف سے ملامت پڑے گی اور درماندہ ہو کر رہ جاؤ گے۔ “ غور کرلو فرمایا جا رہا ہے کہ مال و دولت خرچ کرنے میں اور ہر بات میں اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ کسی ایک ہر طرف جھ نہ پڑو مثلاً خرچ کرنے پر آئے تو سب کچھ اڑا دیا۔ احتیاط کرنی چاہی تو کنجوسی پر اتر آئے۔ در اصل تمام محاسن و فضائل کی بنیادی حقیقت توسط و اعتدال ہے اور جتنی برائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ افراط وتفریط سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا کہ : وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِم (الاعراف : 7:157) وہ رسول اللہ ﷺ ان کو اس بوجھ سے نجات دلائے گا۔ جس کے نیچے وہ دبے ہوں گے اور پھندوں سے نکالے گا جن میں وہ گرفتار ہوں گے۔ “ یہ پوری آیت نبی اعظم وآخر ﷺ کے مناقب اور آپ ﷺ کے کارہائے نمایا اور آپ ﷺ کی ذمہ داریوں کے متعلق ہے جن کو آپ ﷺ نے بحکم الٰہی احسن طریق سے انجام دیا اور قوم کو سائی قومی بیماریوں سے نکال کر سیدھی راہ پر گامزن کیا لیکن افسوس کہ آج کی اکثریت انہی بیماریوں میں مبتلا نظر آتی ہے۔ العیاذ باللہ۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ : وَالَّذِیْنَ جَآئُوْا مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ (الحشر : 59:10) ” وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اح ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کیلئے کوئی بغض نہ رکھ۔ اے ہمارے رب ! تو بڑا مہربان اور بہت ہی پیار کرنے والا ہے۔ “ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : اِِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَلٰسِلاَ وَ اَغْلٰلًا وَّسَعِیْرًا (الدھر : 74:4) ” بلا شبہ ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں ‘ طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ “ زیر نظر آیت نمبر 161 کے اختتام پر ارشاد فرمایا ہے ” پھر ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق پورا پورا بدلہ ملنا ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کے ساتھ ناانصافی کی جائے اس میں بھی اس طرح اشارہ فرما دیا کہ جس قدر کوتاہی کسی نے فرائض و حقوق کی ادائیگی میں کی ہوگی اس قدر اس پر ذمہ داری ہوگی اور کسی پر کسی طرح کی زیادتی نہیں کی جائے گی۔
Top