Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 167
وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا١ۖۚ وَ قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوِ ادْفَعُوْا١ؕ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ١ؕ هُمْ لِلْكُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْاِیْمَانِ١ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یَكْتُمُوْنَۚ
وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ نَافَقُوْا : منافق ہوئے وَقِيْلَ : اور کہا گیا لَھُمْ : انہیں تَعَالَوْا : آؤ قَاتِلُوْا : لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اَوِ : یا اِدْفَعُوْا : دفاع کرو قَالُوْا : وہ بولے لَوْ نَعْلَمُ : اگر ہم جانتے قِتَالًا : جنگ لَّااتَّبَعْنٰكُمْ : ضرور تمہارا ساتھ دیتے ھُمْ : وہ لِلْكُفْرِ : کفر کیلئے (کفر سے) يَوْمَئِذٍ : اس دن اَقْرَبُ : زیادہ قریب مِنْھُمْ : ان سے لِلْاِيْمَانِ : بہ نسبت ایمان یَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں بِاَفْوَاهِھِمْ : اپنے منہ سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں فِيْ قُلُوْبِھِمْ : ان کے دلوں میں وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِمَا : جو يَكْتُمُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں
اور ظاہر ہوجائے کہ منافق کون ہیں ؟ جب ان سے کہا گیا کہ آؤ یا تو اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا دشمنوں کا حملہ روکو ، تو کہنے لگے اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ لڑائی ضرور ہوگی تو ہم تمہارا ساتھ دیتے ، یقین کرو جس وقت انہوں نے یہ بات کہی تو وہ کفر سے زیادہ نزدیک تھے بمقابلہ ایمان کے ، یہ لوگ زبان سے ایسی بات کہتے ہیں جو فی الحقیقت ان کے دلوں میں نہیں ہے اور جو کچھ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اللہ اس سے بیخبر نہیں
ہر نقصان سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اس طرح نقصان کا بھی تم کو فائدہ ہوا : 305: میدان احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوئے اور تقریباً اتنے ہی زخمی اور ہزیمت و پریشانی اس پر زائد تھی یہ بہت بڑا نقصان ہے لیکن اس کا ایک فائدہ بھی تم کو ہوا کہ مومن و منافق کی پہچان ہوگئی اور کمزور ایمان والوں کا بھی پتہ چل گیا۔ منافق کیا ہے ؟ اس کی پہچان نبی کریم ﷺ کے الفاظ میں پچھلے حاشیہ میں کرا دی گئی ہے اور قرآن کریم کے الفاظ سے اتنا مزید سمجھا جاسکتا ہے کہ : نافقوا جس کا اصل نق ہے اور نفق کے معنی ہیں گزر گیا اور ختم ہوا۔ اس لئے یہ مادہ نق خرچ کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اسی سے نفق ہے جس کے معنی جاری راستہ یعنی ایسا راستہ جو دوسری طرف نکل جاتا ہے۔ اس لئے سرنگ کو جو پہاڑ کی ایک طرف سے دوسری طرف نکل جائے یا زمین کے اندر سے ہوتی ہوئی دوسری طرف نکل جائے نفقاً کہا جاتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے۔ کہ جان ” استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض “ (الانعام :ـ 6:35) ” اگر تم سے ہو سکے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو۔ “ اس لحاظ سے نفاق کا مطلب یہ ہوا الدخول فی الشرع من باب والخروج عنہ من باب۔ (راغب) یعنی ایک دروازہ سے شریعت میں داخل ہونا اور دوسرے دروازہ سے نکل جانا۔ اب سمجھ میں آگیا کہ منافق کیا ہے ؟ یعنی وہ شخص جو بظاہر ایمان لاتا ہے اور ” لاَ اِلٰہَ اللہ محمدرَسُولَ اللہ “ پڑھ کر داخل ہوتا ہے اور پھر عملی نافرمانی کر کے اسلام سے نکل جاتا ہے ۔ گویا وہ جس دروازے سے داخل ہوتا ہے اسی دروازہ سے نہیں بلکہ دوسرے دروازہ سے نکل جاتا ہے اور اندر سے کافر کا کافر ہی رہتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حالت کو اس طرح بیان فرمایا ہے : اِِذَا جَآئَکَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِم وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (المنافقون : 63:1) ” اے پیغمبر اسلام ! جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ ہاں ! اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ تو بجائے خود سچی ہے لیکن چونکہ ان کا عمل وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں اس لئے وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عمل۔ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو اور شہادت دینے والے کا اپنے عمل بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہے تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہوگا اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو لیکن شہادت دینے عالا اس کو حق سمجھتا ہو تو ہم ایک لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے۔ کیونکہ وہ اس کو حق بیان کرنے میں صادق ہے اور دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کیونکہ جس بات وہ شہادت دے رہا ہے وہ بات بجائے خود غلط ہے۔ مثلاً دو اور دو چار ہوتے ہیں لیکن ایک آدمی ان کو پانچ کہتا ہے۔ اس سے کوئی پوچھے گا کہ تم نے کہا ہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں وہ کہے کہ وہاں میں نے کہا ہے تو یہ بات اس نے سچ کہی ہے۔ لیکن چونکہ دو اور دوفی الواقعہ چار ہوتے ہیں اس لئے اس پہلو سے اب بھی اس کی بات جھوٹی ہے۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنے عمل اس کے خلات ہو تو اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عمل وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اقرار کر رہا ہے۔ اور آدھے جھوٹے کو نہ سچا کہیں گے یعنی مومن اور نہ جھوٹا کہیں گے یعنی کافر بلکہ اس کا نام شریعت نے منافق رکھا ہے اس کی یہ دوہری پوزیشن اس کے لئے بلحاظ آخرت ” نفع مند نہیں ہوگی بلکہ ہر لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ “ عبد اللہ بن ابی سردار المنافقین کا مختصر حال : 211: اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے وقت کے منافقین کے سردار کا مختصر حال بیان کردیا جائے تاکہ اس کے قول و فعل اور اس کی شخصیت سے واقفیت حاصل ہوجائے اور اس طرح اپنے زمانے کے بڑے بڑے منافقین کو پہچاننے میں آسانی ہو اور اپنی کمزوریوں کو سمجھ کر ان کی اصلاح کی توفیق حاصل ہوجائے اور اس طرح اپنا تجزیہ کرنے سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ دوسروں کے وعظوں اور درسوں سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ابن اسحاق نے کہا مجھ سے عاصم بن عمر بن قتادہ نے جس طرح بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے باشندوں کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول العوفی تھا جو بنی العوف کی شاخ بن الحبلیٰ میں سے تھا۔ (ابن ہشام جلد اول ص 632 ) جب اسلام کا چرچا مدینے میں پہنچا اور ان دونوں قبیلوں یعنی اوس و خزرج کے با اثر آدمی مسلمان ہونے شروع ہوگئے اور بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد جب نبی اعظم و آخر ﷺ مدینہ پہنچے تو انصار کے ہر گھر میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کی عبداللہ بن ابی بےبس ہوگیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسلمان ہوجائے۔ چناچہ وہ اپنے ان بہت سے حامیوں کے ساتھ جن میں دونوں قبیلوں کے شیوخ اور سردار شامل تھے داخل اسلام ہوگیا۔ حالانکہ دل ان سب کے جل رہے تھے اور خاص طور پر ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور اپنی ریاست چھین جانے کا یہ غم طرح طرح کے رنگ دکھاتا رہا ایک طرف حال یہ تھا کہ ہر جمعہ کو جب رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے بیٹھتے تو عبداللہ بن ابی اٹھ کر کہتا کہ ” حضرات یہ اللہ کے رسول آپ کے درمیان موجود ہیں جن کی ذات سے اللہ نے آپ کو عزت و شرف بخشا ہے لہٰذا آپ ان کی تائید کریں۔ “ (ابن ہشام) دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ روز بروز اس کی منافقت کا پردہ چاک ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اور محض مسلمانوں پر یہ بات کھلتی جاتی تھی۔ کہ وہ اور اس کے ساتھی اسلام اور رسول اللہ ﷺ اور گروہ اہل ایمان سے سخت بغض رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کسی راستے سے گزر رہے تھے کہ ابن ابی نے آپ ﷺ کے ساتھ بدتمیزی کی آپ ﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ سے اس کی تکلیف فرمائی تو انہوں نے عرض کیا ” یارسول اللہ ! اس شخص کے ساتھی نرمی برتیے۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ہم اس کے لئے تاج شاہی تیار کر رہے تھے۔ اب یہ سمجھتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس سے بادشاہی چھین لی ہے۔ (ابن ہشام ج 2) جنگ بدر کے بعد جب یہود بنی قینقاع کی صریح بد عہدی اور بلا اشتعال سر کشی پر رسول اللہ ﷺ نے ان پر چڑھائی کی تو یہ شخص ان کی حمایت پر اٹھ کھڑا ہوا اور حضور نبی کریم ﷺ کی زرہ پکڑ کر کہنے لگا کہ ” یہ سات سو مردان جنگی جو ہر دشمن کے مقابلہ میں میرا ساتھ دیتے رہے ہیں آج ایک دن میں آپ ﷺ انہیں ختم کر ڈالنا چاہتے ہیں ؟ خدا کی قسم میں آپ ﷺ کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ ﷺ میرے حلیفوں کو معاف نہ کردیں گے۔ “ جنگ احد پر اس شخص نے صریح غداری کی اور عین وقت پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے الٹا واپس آگیا۔ جس نازک گھڑی میں اس نے یہ حرکت کی تھی اس کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قریش کے لوگ تین ہزار کا لشکر لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ ان کے مقابلہ میں صرف ایک ہزار آدمی ساتھ لے کر مدافعت کے لئے نکلے تھے۔ ان ایک ہزار میں سے بھی یہ منافق تین سو آدمی توڑ لایا اور نبی کریم ﷺ کو صرف سات سو کی جمعیت کے ساتھ تین ہزار دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اس واقعہ کے بعد مدینے کے عام مسلمانوں کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہوگیا کہ یہ شخص قطعی منافق ہے اور اس کے وہ ساتھی بھی پہچان لئے گئے جو منافقت میں اس کے شریک کار تھے۔ اسی بناء پر جنگ احد کے بعد جب پہلا جمعہ آیا اور وہ شخص نبی کریم ﷺ کے خطبہ سے پلے حسب معمول تقریر کرنے کے لئے اٹھا تو لوگوں نے اس کا دامن کھینچ کھینچ کر کہا ” بیٹھ جاؤ تم یہ باتیں کرنے کے اہل نہیں ہو۔ “ مدینے میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ علانیہ اس شخص کی تزلیل کی گئی جس پر برہم ہو کر وہ لوگوں کی گردنوں سے کو دتا ہوا مسجد سے باہر نکل گیا۔ مسجد کے دروازے پر بعض انصار نے اس سے کہا کہ ” یہ کیا حرکت کر رہے ہو واپس چلو اور رسول اللہ ﷺ سے استغفار کی درخواست کرو۔ ‘ لیکن اس نے بگڑ کر جواب دیا ” میں ان سے کوئی استغفار کرانا نہیں چاہتا۔ “ (ابن ہشام ج 3) 4 ھجری میں غزوہ بنی النضیر پیش آیا اور اس موقع پر اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اور بھی زیادہ کھل کر اسلام کے خلاف اعدائے اسلام کی حمایت کی۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے جاں کو پیغام بھیج رہے تھے کہ ڈٹے رہو ہم تمہارے ساتھی ہیں تم سے جنگ کی جائے گی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور تم کو نکالا جائے گا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اس خفہ ساز باز کا راز اللہ تعالیٰ نے خود فاش کردیا جیسا کہ اس کا ذکر سورة حشر میں کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی اور اس کے ساتھیوں کی اتنی پردہ دری ہوجانے کے باوجود نبی رحمت ﷺ اس کے ساتھ درگزر کا معاملہ فرما رہے تھے۔ ، کیوں ؟ اس لئے کہ منافقین کا ایک بڑا جتھا اس کے ساتھ تھا اور اوس و خزرج کے بہت بڑے بڑے لوگ بھی اس کے ساتھ تھے۔ جیسا کہ غزوہ احد میں اس کی ساری اصلیت واضح ہوگئی تھی۔ اس ھالت میں یہ کسی طرح مناسب نہ تھا کہ باہر کے دشمنوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ اندر کے ان دشمنوں سے بھی جنگ مول لی جاتی۔ اس بنا پر اس کی منفاقت کا حال جاننے کے باوجود نبی اعظم و آخر ﷺ ایک مدت تک ان کے ساتھ ان کے ظاہری دعوائے ایمان کے لحاظ سے معاملہ فرماتے رہے۔ دوسری طرف یہ لوگ بھی نہ اتنی طاقت رکھتے تھے۔ نہ ہمت کہ علانیہ کافر بن کر اہل ایمان سے لڑتے یا کسی کے ساتھ کھلم کھلا مل کر میدان میں نکل آتے اس لئے کہ منافقت صفت لوگوں کے اختیار کا یہ معاملہ ہی نہیں ہوتا جس طرح وہ ان کے لئے مخلص نہیں تھے بالکل اس طرح وہ دوسری طرف کے بھی مخلص نہیں رہ سکتے تھے۔ اگر آپ غور کریں گے تو ان لوگوں کی کمہ ہر زمانہ میں پائیں گے اگر وہ اس وقت موجود تھے تو آج بھی بکثرت موجود ہیں اور ہر پارٹی اور گروہ میں پائے جاتے ہیں۔ بظاہر وہ ایک جتھا بنائے ہوئے تھے۔ لیکن ان کے اندر وہ کمزوریاں موجود تھیں جن کا نقشہ رسول اللہ ﷺ نے سورة حشر میں بیان فرما دیا ہے۔ اس لئے وہ مسلمان بنے رہنے میں اپنی خیر سمجھتے تھے۔ مسجدوں میں آتے نمازیں پڑھتے تے۔ زکوٰۃ بھی ادا کرتے تھے اور زبان سے وہ لمبے چوڑے دعوے بھی کرتے تھے۔ جے کے کرنے کی مخلص مسلمانوں کو بھی کبھی ضرورت پیش نہ آئی تھی۔ ان کیا پاس اپنی ہر منافقانہ حرکت کے لئے ہزار جھوٹی تو ج ہیں موجود تھیں جن سے وہ خاص طور پر اپنے ہم قبیلہ انصار کو یہ دھوکہ دینے کی کو شس کرتے رہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہی ان تدبیروں سے وہ اپنے آپ کو نقصانات سے بھی بچا رہے تے جو انصار کی برادری سے الگ ہوجانے کی صورت میں ان کو پہنچ سکتے تھے۔ اور فتنہ پردازی کے ان مواقع سے بھی فائداہ اٹھا رہے تھے۔ جو اس بررادی میں شامل رہ رک انہیں مل سکتے تھے۔ یہیں وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی منافقین کو غزوہ بنی المصطلق کی مہم میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے کا مو قع مل گیا اور نہوں نے بیک وقت دو ایسے فتنے اٹھائے جو مسلمانوں کی جمعیت کو بالکل پارہ پارہ کرسکتے تھے۔ مگر قرآن کریم کی تعلمو اور رسول اللہ ﷺ کی محبت سے اہل ایمان کو جو بہترین تربیت ملی تھی۔ اس کی بدولت ان دونوں فتنوں کا بروقت قلع قمع ہوگیا اور یہ منافقین الٹے کود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے ایک فتنہ وہ تھا۔ جس کا ذکر سورة نور میں کیا گیا اور دوسرے فتنے کا ذکر سورة منافقون میں ہے اس کی کار ستانیوں کو سمجھنے کے لئے اس کا مختصر ذکر اس جگہ کردینا مناسب معلوم ہوتا تفصیل اپنے موقع پر آئے گی اس واقعہ کو بخاری ، مسلم ، احمد ، نسائی ، ترمذی ، بیہقی ، طبرانی ، ابن مردویہ ، عبدالرزاق ، ابن جریر ، طبر اور ابن سعد وغیرہ نے بیان کیا ہیت اور ان روایات کا خلاصہ یہ ہے۔ بنی المصطلق کو شکست دینے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھہرا ہوا تھا جو ” مریسیع “ نامی کنوئیں پر آباد تھی کہ یکایک پانیء پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہوگیا ان میں سے ایک کا نام بہجاہ بن مسعود غفاری تھا جو حضرت عمر ؓ کے ملازم تھے او ان کا گھوڑا سنبھالنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اور دوسرے صاحب سنان بن وبر الجہنی تھے جو قبیلہ خزرج کے ایک قبیلہ کے حلیف تھے۔ زبانی ترش روئی سے گزر کر اور ہاتھا پائی تک پہنچی اور جہجاہ نے سنان نے انصار کو مدد کے لئے پکارا اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی۔ ابن ابی نے اس جھگڑے کی خبر سنتے ہی اوس خزرج کے لوگوں کو بھڑکایا اور چیخنا شروع کردیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے قریب تھا۔ کہ بات بڑھ جاتی اور اس جگہ انصار اور مہاجرین آپس میں لڑ جاتے جہاں ابھی ابھی وہ مل کر ایک دشمن قبیلے سے لڑے تھے۔ اور سے شکست دے کر ابھی اس کے علاقے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن یہ شور سن کر رسول اللہ ﷺ نکل آئے اور آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟ تم لوگ کہاں اور جاہلیت کی پکار کہاں ؟ اسے چھوڑ دو یہ بڑی گندی چیز ہے۔ آپ ﷺ کے الفاظ یہ تھے۔ انھا منتنۃ اس پر دونوں طرف کے مصالح لوگ اٹھے اور معاملہ کو رفع دفع کرادیا اور سنان نے جو معاف کردیا۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں نفاق تھا وہ عبداللہ بن ابی کے پاس اکٹھے ہوئے اور انہوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ ” اب تک تو تم سے امیدیں تھیں اور تم بھی مدافعت کر رہے تھے مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلہ میں کنگلوں کے مددگار بن گئے ہو۔ “ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا ان باتوں سے اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا۔ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کات دھرا ہے تم نے ان لوگون کو اپنے ملک میں جگہ دی۔ ان پر اپنے مال تقسیم کئے یہاں تک کہ اب وہ پھل پھول کر خود ہمارے حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ ” اپنے کتے کو کھلا کر موٹا کرتا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ “ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں ، خدا کی قسم مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے۔ وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ “ اس تھوڑی سی عبارت میں آج اپنے ملک پاکستان کی ساری سیاست کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں انصار ، مہاجرین اور ان دونون فریقوں کے حامی و ناصر اور پھر ان کی نیت ان کا کام ان کی تدبیریں ، ان کی تدبیروں کا انجام سب کچھ سمجھا جاسکتا ہے لیکن سمجھانے والا بھی کوئی ہو ؟ سمجھنے والے بھی کوئی جذبہ اسلامی رکھتے ہوں ؟ وہ اپنی جہالت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار بھی تو ہوں ؟ عبداللہ بن ابی کا کردار ادا کرنے والے تو شہر ہی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ خود نہ ادھر کے ہیں اور نہ ادھر کے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ اس ملک کے باسیوں کو بھی سمجھ کی توفیق عطا فرما۔ اس مجلس میں اتفاق سے حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کیا اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے۔ جا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کردیا۔ نبی اکرم ﷺ نے زید کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے تم سے سننے میں غلط ہوئی ہو ، ممکن ہے کہ تم کو شبہ ہوگیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے جب کہ اس نے کہا نہ ہو مگر زید نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ﷺ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں نے یہ باتیں عبد اللہ بن ابی کو کرتے سنا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ بالکل صاف صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہرگز نہیں کہیں۔ انصار نے بھی کہا کہ یارسول اللہ ! اس لڑکے کی بات ہے شاید اسے وہم ہوگیا ہو اور اس طرح قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے ذید کی بھی گو شمالی کی کہ تم نے یہ کیا کیا ؟ وہ بچارے سہم کر بیٹھ گئے لیکن نبی کریم ﷺ کو بھی جانتے تھے۔ اور عبد اللہ بن ابی کو بھی۔ ان فقرات میں بھی بڑے اسباق مخفی ہیں ، لیکن کن کے لئے جن کو اللہ نے سمجھ دی ہے۔ حضرت عمر ؓ کو علم ہوا تو انہوں نے آکر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں اگر مجھ حکم دینا مناسب نہ ہو تو انصار کے سردار معاذ بن جبل ، عبادہ بن بشر ، سعد بن معاذ ، محمد بن مسلمہ جیسے لوگوں میں سے کسی کو حکم دے دیں کہ کہ وہ اسے قتل کردیں۔ “ مگر آپ ﷺ نے فرمایا ایسا کرنا درست نہیں لوگ کہیں گے کہ محمد نے اپنے لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا ہے۔ ازیں بعد آپ ﷺ نے فوراً اس جگہ سے کوچ کا حکم دے دیا۔ راستے میں انصار کے ایک سردار حضرت اسید بن حضیر آپ ﷺ سے ملے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آج آپ نے ایسے وقت کوچ کا حکم دیا جو سفر کے لئے موزوں نہ تھا۔ اور آپ ﷺ تو کبھی ایسے وقت میں سفر کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تم سنا نہیں کہ تمہارے ان صاحب نے کیا گوہر افشانی کی ہے ؟ انہوں نے پوچھا کون صاحب ؟ فرمایا عبداللہ بن ابی۔ انہوں نے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ؟ اس نے کہا کہ مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ “ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! عزت والے تو آپ ﷺ ہیں اور ذلیل وہ ہے آپ جب چاہیں اسے نکال سکتے ہیں۔ “ مختصر یہ کہ عبد اللہ بن ابی اپنی طبعی موت مرا۔ کسی نے اس کو قتل نہیں کیا لیکن ساری زندگی وہ اپنے دل ہی دل میں کڑھتا رہا لیکن اس کا داؤ کبھی کامیاب نہ ہوا۔ اس میں ہماری زندگی کے کتنے سبق پوشیدہ ہیں ؟ ہر سوچنے والے اور سمجھنے والے کو معلوم ہو سکتے ہیں ؟ ہم نے اس اسباق سے کہاں تک فائدہ حاصل کیا ہے اور کہاں کہاں ہمارے قدم ڈگمگائے ہیں کتنی بار ہم سنبھلے ہیں اور کتنی بار ہم ان حالات سے زندگی میں شکست کھاچکے ہیں ؟ شاطر و چالاک اتنے ہیں کہ سوال سننے سے پہلے جواب تیار رکھتے ہیں : 306: جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یعنی میدان جنگ کی طرف نکلو اگر جنگ ہوگئی تو جہاد کا ثواب حاصل ہوگا اور اگر دشمن ہماری جمعیت سے مرعوب ہو کر واپس ہوگیا دفاع کا مقصد پورا ہوجائے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس موقع پر لڑائی ہی نہیں ہوگی اور پھر لڑائی ہو بھی کیسے سکتی ہے ابھی کل میدان بدر میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے کیا اتنی جلدی وہ اس کو بھول جائی گے۔ نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا یہ تو ان کی گیدڑ بھیگیاں ہیں۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو ضرور ہم تمہارے ساتھ جاتے۔ یہ باتیں اس وقت کی ہیں۔ جب عبداللہ بن ابی بن سلول نے تین سو آدمیوں کی جمعیت کے ساتھ میدان احد کی کی طرف چلنے سے انکار کرتے ہوئے واپس ہوگیا۔ ان کی زبانوں پر وہ آتا ہے جس سے دل انکار کرتے ہیں : 307: ” یقین کرو جس وقت انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ اگر ہمیں یقین ہوتا کہ لڑائی ضرور ہوگی تو ہم تمہارا ساتھ دیتے “ تو اس وقت وہ کفر سے زیادہ نزدیک تھے۔ بمقابلہ ایمان کے۔ اس لئے کہ انہوں نے زبان سے وہ بات کہی جو ان کے دل میں نہیں تھی۔ اور جو کچھ ان کے دل میں چھپا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوب اچھی طرح واقف ہے اس لئے کہ وہ اس خمیر کو بھی جانتا ہے جس سے انہوں نے جنم لیا اور یہ بھی جانتا ہے کہ منافقت تو ان کو گھٹی میں پلائی گئی ہے وہ ان کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑ سکتی اس لئے کہ وہ اس سے پیچھا چھڑانا ہی نہیں چاہتے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو دلوں میں پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے : 308: ” جو کچھ ان کے دلون میں پوشیدہ ہے اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔ “ جزاء و سزا کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے بندہ سے نہیں اور یہ جو کچھ پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں وہ بندوں سے پوشیدہ رکھ سکتے ہیں اللہ سے نہیں۔ اگر یہ لوگوں سے وہ بات پوشیدہ رکھنے میں کامیاب بھی ہوگئے تو کیا لوگوں کے ہاتھوں میں جزاء و سزا ہے ؟ کہ وہ سزا پانے کی بجائے جزاء حاصل کرلیں گے۔ نہیں بلکہ ان کی یہ چرب زبانی انہی کے حق میں بری ثابت ہوگی کہ ان کو کبھی توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوگی اور جس بات کو وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے اس کو بھی یقینا ظاہر کردیا جائے گا۔ لیکن اس کا جو وقت مینید ہے اس سے پہلے نہیں اس لئے کہ اللہ کے ہاں ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہونا ممکن نہیں۔
Top