Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دیا باوجودیکہ زخم کھاچکے تھے ، یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کردار اور متقی ہیں یقینا ان کے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے
رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبیک کہنے والے ہی متقی ہیں : 314: پچھلی آیت میں جو اصولی بات بیان فرمائی گئی تھی اس آیت میں اس کا ایک متعین محمل بھی سامنے آگیا یعنی اس اجر عظیم کے مستحق وہ لوگ ٹھہریں گے جن کے عزم و ایمان کا حال یہ ہے کہ احد کی مصیبت کا زخم کھانے کے بعد بھی ان میں کوئی خم نہیں پیدا ہوا بلکہ وہ اس کٹھیالی سے گزر کر کندن بن گئے اس لئے جوں ہی اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے ایک تازہ مہم کی منادی ہوئی۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ احد میں مسلمانوں کو ایک طرح کی آزمائش میں مبتلا کرنے کے بعد قریش کی فوج پہلے تو واپس چلی گئی لیکن روحاء کے مقام پر پہنچنے کے بعد ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں اور احساس ہوا کہ انہوں نے اس قدر جلد واپس ہونے میں سخت غلطی کی۔ یہ سوچ کہ انہوں نے اپنی فوج کی ازسر نو تنظیم شروع کردی اور ادھر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے منافقین کے ذریعے سے یہ افواہ گرم کردی کہ قریش نئے ساز و سامان کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے ہی والے ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کو جب اس کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے بھی قریش کے دوبارہ تعاقب کے لئے پروانہ جاری فرمادیا۔ مسلمانوں نے بڑے جوش وجذبہ سے اس آواز پر لبیک کہا اور گزشتہ حالات کی ذرہ پرواہ نہیں کی۔ اس فوج میں صرف انہی لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت دی گئی جو پہلے احد کی جنگ میں شریک ہوئے تھے اس طرح نبی کریم ﷺ ان جاں نثاروں کی اس جماعت کے ساتھ ابو سفیان کے تعاقب کے لئے مدینہ سے نکلے اور حمراء الاسد تک گئے یہ مقام مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ابو سفیان نے جب دیکھا کہ ابھی مسلمانوں کے حوصلہ میں کوئی فرق نہیں آیا تو اس نے ارادہ بدل دیا اور مکہ کی طرف اپنے لشکر سمیت بھاگ گیا اور مسلمان کامیاب و با مراد واپس آگئے اور یہ معاملہ ان کے پچھلے زخموں کا کافی حد تک مداوا کرگیا۔ محمد بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ جب ہفتہ کے دن 15 تاریخ کو احد سے لوٹے تو دشمن کے لوٹ پڑنے کا اندیشہ تھا اس لئے خزرج اور اوس کے سرداروں نے مل کر رسول اللہ ﷺ کے دروازہ پر پہرہ دیا جب رات گزر گئی اور اتوار کے دن کی فجر آئی تو بلال ؓ نے صلوٰۃ الفجر کے لئے اذان پکاری اور نبی کریم ﷺ کا انتظار کرنے لگے۔ آپ ﷺ حجرہ سے تشریف لائے تو ایک مزنی شخص نے اطلاع دی کہ مشرکین جب روحاء پر پہنچے اور وہاں پڑاؤ کیا تو ابو سفیان نے کہا مدینہ کو لوٹ چلو اور روز روز کی یہ خرخش ختم کر کے واپس چلو۔ صفوان بن امیہ نے انکار کردیا اور کہنے لگا لوگو ! ایسا نہ کرو وہ لوگ شکست کھاچکے ہیں اب مجھے اندیشہ ہے کہ خزرج کے جو لوگ رہ گئے تھے وہ تمہارے خلاف جمع ہوجائیں گے اگر لوٹ کر جاؤ گے تو یہ برائے نام فتح بھی شکست میں بدل جائے گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صفوان سیدھے راستہ پر تو نہیں ہے مگر یہ رائے اس کی بالکل صحیح تھی۔ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ان لوگوں پر برسنے کے لئے تو تو پتھر نامزد کردیئے گئے تھے اگر وہ لوٹ پڑتے تو گزرے ہوئے دن کی طرح گئے گزرے ہوجائے یعنی ان کا نشان بھی باقی نہ رہتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ کو بلوایا اور یہ خبر ان کو بتائی دونوں نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ ! دشمنوں کا تعاقب کیجئے اس مشورہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ منادی کردو کہ رسول اللہ ﷺ دشمن کا تعاقب کرنے کا تم کو حکم دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ آج وہی لوگ نکلیں جو کل کی لڑائی میں حاضر تھے۔ اسیدبن حضیر جن کو احد میں بھی زخم لگے تھے اس ندا کو سن کر بولے بسرو چشم ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر حاضر ہیں۔ خاندان بنی سلمہ کے چالیس زخمی کھڑے ہوئے۔ طفیل بن نعمان ؓ کے تیرہ زخم لگے تھے۔ خراش بن صمہ ؓ کو دس۔ کعب بن مالک ؓ کو دس سے کچھ زیادہ اور عطیہ بن عامر کو بھی نو زخم لگے ہوئے تھے غرض مسلمانوں نے اپنے زخموں کے علاج کی طرف توجہ ہی نہ کی اور دوڑ کر اسلحہ سنبھال لئے۔ رسول اللہ ﷺ ان ساتھیوں کے ہمراہ مدینے سے نکل کر حمراء الاسد تک پہنچے تھے لیکن ابو سفیان اپنے لشکر کو لے کر مکہ روانہ ہوگیا تھا۔ اس موقعہ پر سعد بن عبادہ ؓ نے تیس اونٹ سواری کے لیے دیئے تھے اور کچھ جانور ذبح کرنے کے لیے بھی ساتھ رکھے تھے اس جگہ پہنچ کر سوموار کے دن 17 تاریخ کو اور منگل کے روز 18 تاریخ کو اونٹ ذبح کئے گئے اور دو دن یہاں قیام کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ دن کو لکڑیاں اکھٹی کرو چناچہ لکڑیاں اکھٹی کی گئیں شام ہوئی تو آگ جلانے کا حکم دیا پھر حسب الحکم ہر شخص نے آگ روشن کی اور کل پانچ سو جگہوں پر روشن کی گئی تاکہ دور سے دیکھ کر کفار کو مسلمانوں کی کثرت معلوم ہو اور یہ بات جنگی تدبیرات سے متعلق ہے۔
Top