Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
وہ لوگ جن سے بعض آدمی کہتے تھے کہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے کیلئے دشمنوں نے بہت بڑا گروہ اکٹھا کرلیا ہے ، پس چاہیے کہ ان سے ڈرو لیکن ان کا ایمان مضبوط ہوگیا اور وہ بول اٹھے کہ ہمارے لیے اللہ کا سہارا کافی ہے اور جس کا کارساز اللہ ہو تو کیا ہی اچھا اس کا کارساز ہے
منافقین نے شرارتاً مجاہدین کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن وہ مزید رواں دواں ہوگئے : 315: منافقین نے اس خبر کو خبر گرم کیا اور مسلمانوں سے جو ابھی ابھی احد سے مدینہ پہنچے تھے اور زخموں سے چور تھے یہ کہنا شروع کردیا کہ ” تمہارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے دشمنوں نے بہت بڑا گروہ اکھٹا کرلیا ہے پس چاہئے کہ ان سے ڈرو۔ “ یہ خبر بجائے اس کے کہ ان کے اندر کسی طرح کا کوئی خوف و ہراس پیدا کرتی ان کی ایمانی قوت نے اس کو دوبالا کردیا۔ ” رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور “ فطرت ہے کہ جس کنوئیں کے سوتے زور دار ہوں اس کے اندر سے جتنا ہی پانی نکالا جائے اتنا ہی اس کے سوتے اور زیادہ جوش کے ساتھ ابلتے ہیں۔ اسی طرح آگ اگر قوت کے ساتھ جل رہی ہو تو گیلی لکڑی بھی اس میں ڈالنے سے اس کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جاتی ہے منافقین کے اس جملہ نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا جو بات ان عزم و ایمان کے پہاڑوں کو کمزور کرنے کے لیے کہی گئی تھی اس نے ان کی جولانیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ اس آزمائش سے ان کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کردیا اور یہ امتحان ہی ان کے اچھے رزلٹ کا سب بن گیا۔ دراصل ایمانی قوت شے ہی ایسی ہے کہ اس کو جتنا دبایا جائے اتنا ہی زیادہ ابھرتی ہے۔ یہی وہی ہے کہ وہ حقیقی شجاعت جو اللہ کی راہ میں موت کو دنیاوی زندگی سے بھی زیادہ عزیز و محبوب بنادیتی ہے وہ مؤمن کے اس عقیدہ سے پیدا ہوتی ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے مرتے نہیں بلکہ حقیقی زندگی اور اپنے رب کی ملاقات سے مشرف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے بھی ایسے نازل موقعہ پر جب منافقین ان کے حوصلوں کو پست کرنے میں مصروف تھے وہی بات جو انہوں نے ان کے حوصلوں کو پست کرنے کے لئے کہی تھی ان کی ایمانی قوت کو اور بڑھانے کا سبب بن گئی۔ اس کا ایک منظر آپ پیچھے سورة بقرہ کی آیت 249 میں پڑھ چکے ہیں جب طالوت کے لشکر کے کمزور دلوں نے کمزوری کا مظاہرہ کیا تھا اور ایمانی طاقت و قوت والے ” لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ “ کہنے والوں کا جواب دے رہے تھے کہ ” كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ 1ؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ 00249 “ اور بالکل یہی صورت بدر کے میدان میں مسلمانوں کو پیش آچکی تھی۔ بلاشبہ اللہ ہی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ڈٹ کر مقابلہ کرنا جانتے ہیں اور وہ میدان جنگ میں مرنا موت نہیں بلکہ زندگی سمجھتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ دار فانی سے دار البقاء کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور ان کا یہ رفع آسمان صرف ان کے لئے نہیں بلکہ ان کے بعد آنے والوں کے لئے بھی انعامات الٰہی کا مشاہدہ کرنے کا باعث ہوتا ہے اور اس طرح وہ کھجوریں پھینک کر میدان جنت میں اتر آتے ہیں کہ اب جنت کے انگور کھانے کا وقت ہے دنیا کی کھجوریں کھانے کا نہیں۔ مجاہدین کی صدا کیا ہے ؟ ” جس کا کارساز اللہ ہو کیا ہی اچھا اس کا کارساز ہے۔ “ 316: منافقین کیا صدا کیا تھی ؟ ” کہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے دشمنوں نے بہت بڑا گروہ اکٹھا کرلیا ہے پس چاہئے کہ ان سے ڈرتے رہو “ اس ” فاخشوھم “ کے جملہ نے مجاہدین اسلام کے جسموں میں بجلی کی گویا کرونٹ چھوڑ دی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سچے مسلمان کفار سے ڈریں۔ نہیں نہیں مسلمان تو کہتے ہی اس کو ہیں جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اس لئے کہ ان کو سبق ہی پڑھایا جاتا ہے کہ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ (المائدہ 5 : 44) انسانوں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو۔ اس لئے انہوں نے دو ٹوک جواب منافقین کو دیا کہ ” ہمارے لئے اللہ کا سہارا بس کرتا ہے اور جس کا کارساز اللہ ہو تو کیا ہی اچھا اس کا کارساز ہے۔ “ منافقین نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے جو الفاظ بولے تھے مسلمانوں کے حوصلے ان الفاظ سے ایسے بڑھے کہ زبان الٰہی نے اس کی شہادت اس طرح دی فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا 1ۖۗ مسلمانوں کا ایمان ان الفاظ نے بڑھا دیا اور اس طرح جو شوشہ انہوں نے مسلمانوں کو پست کرنے کے لئے چھوڑا تھا وہ مسلمانوں کے لئے شجاعت و بہادری کا سبب بن گیا اور جب ایمانی قوت بڑھ گئی تو ان کی زبانوں سے جو کچھ نکلا وہ یہ تھا کہحَسْبُنَا اللّٰهُ انہوں نے کہا ” ہمارے لئے اللہ کافی ہے۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ نِعْمَ الْوَكِیْلُ 00173 بہت اچھا وکیل ہے۔ وکیل کیا ہے ؟ وہی جس کے سپرد کوئی کام کردیا جائے۔ ہمیں اللہ اس لئے کافی ہے کہ ہم نے اپنا سارا معاملہ اس کے سپرد کردیا ہے۔ یعنی ” ہمارا کارساز اللہ ہے اور جس کا کارساز اللہ ہو تو کیا ہی اچھا اس کا کارساز ہے۔ “ سبحان اللہ ، یہی جملہ ہے یعنی حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ 00173 جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت کہا تھا جب وہ لوگوں کی بیسیوں میل سے بھی چوڑی سلگائی ہوئی آگ میں ڈالے گئے تھے۔ پھر اللہ نے کیا کیا کہ اس آگ کو آگ نہ رہنے دیا بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اس کو سلامتی ہی سلامتی بنادیا اور یہ جملہ ان مجاہدین کی زبانوں پر آیا تو اس نے منافقین کی سلگائی ہوئی آگ پر پانی پھیر دیا۔ (بخاری و مسلم عن عبداللہ بن عباس ؓ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم پر کوئی بہت بڑا کام آپڑے تو تم حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ 00173 پڑھو اور اس کام میں لگ جاؤ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی طرح فارغ ہو کر بآرام رہوں جبکہ صاحب صور نے صور منہ میں لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے حکم الٰہی کا منتظر کھڑا ہے۔ صحابہ کرام ؓ یہ سن کر ڈر گئے اور پوچھا یا رسول اللہ ﷺ جب وہ وقت آئے کہ صور پھونکا جائے تو ہم کو کیا کرنا چاہئے فرمایا : حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ عَلٰی اللّٰہِ تَوَکَّلنَا پڑھو (مسند احمد) ماحصل آپ ﷺ کے کلام کا یہ ہوا کہ موت ہر وقت انسان کا پیچھا کئے ہوئے ہے کب آمنا سامنا ہوجائے کسی کو معلوم نہیں لیکن جب وہ وقت آجائے تو اس وقت زبان سے یہ الفاظ ادا کرو اور بےخطر رفع آسمانی کی اس منزل کو رواں دواں ہوجاؤ اور فکر نہ کرو اور جس کا کارساز اللہ ہو تو کیا ہی اچھا اس کا کارساز ہے۔
Top