Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 178
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْ١ؕ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز نہ گمان کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا اَنَّمَا : یہ کہ نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں خَيْرٌ : بہتر لِّاَنْفُسِھِمْ : ان کے لیے اِنَّمَا : درحقیقت نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھ جائیں اِثْمًا : گناہ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
اور یہ جو ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ہم مہلت پر مہلت دیتے جا رہے ہیں تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مہلت ان کے حق میں بہتر ہے ، ہم انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ وہ گناہوں میں اور زیادہ ہوجائیں اور انجام کار ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے
کفار کی راہ اختیار کرنے والوں کو جو مہلت دی جارہی ہے یہ ان کے لئے کبھی مفید نہیں ہوگی : 322: جنگ احد میں کفار کو جب قرار واقعی سزا نہ ملی تو وہ یہ سمجھے بیٹھے کہ اب بس ہم کامیاب ہوگئے فرمایا یہ ایک مہلت ہے اور پھر ساتھ ہی فرما دیا کہ ہاں ! یہ مہلت ان کے لئے کبھی مفید نہیں ہو سکتی کیوں ؟ اس لئے کہ اس مہلت سے وہ کوئی فائدہ اٹھانے کے لئے تیار نظر نہیں آتے مہلت مفید تب ہوتی جب اس کو اپنی بھلائی کے لئے استعمال کرتے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں رسول اللہ ﷺ جو سراسر رحمت ہی رحمت ہے جو ہماری خیر خواہی چاہتا ہے۔ جس کو کسی قسم کا کوئی لالچ نہیں ۔ حکومت وہ نہیں چاہتا۔ مال کا طلبگار وہ نہیں ہے ، کسی کا وہ ملازم بھی نہیں ہے کہ اس کو تنخواہ مل رہی ہے۔ پھر ہم اس کو خواہ کیوں تنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا ان کو مہلت ملی ہے تو وہ اس کو شرارتوں میں مزید اضافہ بندیوں میں صرف کر رہے ہیں اس لئے اس مہلت کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنی شرارتوں میں مزید اضافہ کر کے اپنے نامہ اعمال بھی سیاہ کریں اور دنیا میں بھی ان کا منہ کا لاہو۔ اور اس طرح وہ ” خَسِرَ الدُّنیَا وَالا خرَۃَ “ کے مصداق ہوجائیں نہ ان کی دنیا رہے اور نہ دین پھر انجام کار ان پر گرفت کا متعین وقت آجائے اور ان کو رسوا کرنے والے عذاب میں پھینک دیا جائے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ ان کی دنیا یوں برباد ہوئی کہ چند سالوں کے بعد ان کو ذلیل و خوار کر کے محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے مغلوب اور مفتوح کی حیثیت میں پیش کیا گیا اور آخر میں بھی بلاشبہ و عذاب مہین میں مبتلا ہوں گے۔ اس آیت میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ ” یہ جو ہم مہلت پر مہلت دیتے جا رہے ہیں تو وہ نہ سمجھیں کہ یہ مہلت ان کے حق میں بہتر ہے نہیں ! یہ ہمارا قانون ہے یعنی گرفت کا ایک وقت مقرر ہے جب تک وہ وقت آ نہیں جاتا ہم ان کو ابھی مزید مہلت دیں گے۔ جس کے نتیجہ میں ان کے گناہوں نے مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور یہ روز بروز اس میعاد کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ان کے لئے مقرر کردی گئی ہے وقت آئے گا تو یہ اچانک اس عذاب میں پھنس کر رہ جائیں گے جس سے پھر نکلنا محال ہے۔ اس مضمون کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ00182 وَ اُمْلِیْ لَهُمْ 1۫ؕ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ 00183 اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْاٚ مَا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ 1ؕ اِنْ ہُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ 00184 (الاعراف 7 : 183۔ 184) ” اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں ہم انہیں درجہ بدرجہ آخری نتیجہ تک لے جائیں گے۔ اس طرح کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی۔ ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں اور ہماری مخفی تدبیر بڑی ہی مضبوط ہے۔ “ اس آیت میں قانون امہال کی طرف اشارہ ہے اور مشرکین مکہ کی نسبت خبر دی ہے کہ جزائے عمل کا قانون ان کی طرف سے غافل نہیں ہے وہ بتدریج اس نتیجہ تک پہنچ کر رہیں گے جو انکارو سرکش کا لازمی نتیجہ ہے۔ چناچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ چند ہی برسوں کے اندر قریش مکہ کی ساری طاقت نابود ہوگئی۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا : ” جس پر راہ اللہ گم کردے یعنی اپنے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق تو پھر اس کے لئے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ اللہ کے قانون نے ایک وقت تک انہیں چھوڑدیا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ “ ” ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں یعنی ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون کے مطابق وہ سمجھ سوچ اور بصارت سے کام لینا چھوڑ دیں جس طرح پہلی مرتبہ وہ اس قرآن پر ایمان ہی نہیں لائے تھے تو پھر ہم ان کو ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ “ ( الانعام 6 : 110) مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر ابھی وہی ذہنیت کام لئے جا رہی رہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت سن کر اسے ماننے سے انکار کردیا تھدا۔ ان کے نقطہ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے وہی عقل کا پھیر اور وہ نظری کا مرض آج بھی ان میں موجود ہے جو انہیں اس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا اور آج بھی ان پر اسی طرح مسلط ہے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور دیکھو جس طرح انسان فائدے کے لئے جلد باز ہوتا ہے اگر اس طرح اللہ اسے نقصان پہنچانے میں جلد باز ہوتا تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا۔ پس جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔ ( یونس 10 : 11) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم مال و اولاد سے ان کی امداد کر رہے ہیں کہ وہ بھلائی پہنچانے میں سرگرمی دکھائیں ؟ نہیں وہ شعور نہیں رکھتے “ ۔ (المؤمنون 23 : 55۔ 56) مطلب یہ ہے کہ اس دارفانی میں مہلت سب کے لئے ہے اچھوں کے لئے بھی اور بروں کے لئے بھی پس افر مفسدوں کو دنیوی زندگی کی خوش حالیاں مل رہی ہیں تو یہ اس لئے نہیں ہے کہ ہمارا قانون مجازات معطل ہوگیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بد عملیوں پر بھی انہیں فوائد سے بہرہ اندوز کریں بلکہ محض اس لئے کہ مقررہ وقت ابھی آیا نہیں اور یہاں ہر نتیجہ کے لئے اجل مسمی کا قانون کام کر رہا ہے۔
Top