Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 180
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَبْخَلُوْنَ : بخل کرتے ہیں بِمَآ : میں۔ جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِھٖ : اپنے فضل سے ھُوَ : وہ خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے بَلْ : بلکہ ھُوَ : وہ شَرٌّ : برا لَّھُمْ : انکے لیے سَيُطَوَّقُوْنَ : عنقریب طوق پہنایا جائے گا مَا : جو بَخِلُوْا : انہوں نے بخل کیا بِهٖ : اس میں يَوْمَ : دن الْقِيٰمَةِ : قیامت وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مِيْرَاثُ : وارث السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے خاص فضل و کرم سے مال دیا ہے اور وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخیل ہیں تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ایسا کرنا ان کیلئے کوئی بھلائی کی بات ہے ، نہیں ، وہ تو ان کیلئے بڑی ہی برائی ہے ، قریب ہے کہ قیامت کے دن یہی مال و متاع ان کی گردنوں میں طوق بنا کر پہنا دیا جائے اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اللہ کی میراث ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس کے علم سے مخفی نہیں
منافق خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیل بناتے ہیں : 326: منافقین پر جنہوں نے مصلحت وقت دیکھ کر دعوت اسلام کا ساتھ دیا تھا راہ حق میں مال و دولت کا خرچ کرنا بہت شاق گزرتا تھا۔ وہ خود بھی بخل کرتے تھے اور دوسروں کو بھی بخل کی تلقین کرتے تھے۔ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چونکہ اس جگہ بخل کی مذمت کی گئی ہے اس لئے یہ سمجھنا ہوگا کہ بخل کیا ہے ؟ بخل جود کی ضد ہے اور جود یعنی سخاوت سے سب واقف ہیں اور بخل کے معنی ہوئے مال وہاں سے روکنا جہاں سے روکنا مناسب نہیں (راغب) اور بخل کے شرعی معنی ہیں کہ جو چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کسی پر واجب و ضروری ہو اس کو خرچ نہ کرے۔ اس لئے بخل حرام ہے اور اس پر وعید بھی شدید ہے اور جن مواقع پر مال خرچ کرنا ضروری و لازم نہیں بلکہ جائز ہے وہاں بھی بخل اچھا نہیں تاہم حرام بھی نہیں لیکن عام معنی کے اعتبار سے اس کو بھی بخل کہہ دیتے ہیں اور بخل کے معنی میں ایک دوسرا لفظ بھی قرآن و حدیث میں آیا ہے یعنی ” شح “ اس کی تعریف یہ ہے کہ اپنے ذمہ جو خرچ کرنا ضروری تھا وہ خرچ نہ کرنا اور اس کے ساتھ ہی مال بڑھانے کی حرص میں مبتلا ہونا۔ اس لحاظ سے یہ بخل سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔ چونکہ ” بخل “ اور ” شح “ دونوں ہی انسانیت کے لئے سّمِ قاتل ہیں اس لئے ان کا استعمال قرآن کریم میں جہاں بھی ہوا ہے اس پر نظر دال لینا مفید ہے۔ بخل کے متعلق ارشادات الٰہی۔ فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَ 0076 (التوبہ 9 : 76) ” پھر جب اللہ نے اپنے فضل سے مالامال کردیا تو لگے کنجوسی کرنے اور اپنے عہد سے پھرگئے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے دل ہی پھرے ہوئے ہیں ۔ “ ا۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ 1ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًاۚ0037 (النساء 4 : 37) ” جو خود بھی بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کرنا سکھاتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے دے رکھا ہے اسے چھپا کر رکھتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ناشکری کرتے ہیں ہم نے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ ا۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ 1ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ 0024 (الحدید 57 : 24) ” جو لوگ خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کرنا سکھاتے ہیں اور جو منہ موڑتے ہیں بلاشبہ اللہ تو غنی ہے اور لائق حمد (و ثنا) ہے۔ “ اِنْ یَّسْـَٔلْكُمُوْهَا فَیُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَ یُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ 0037 ہٰۤاَنْتُمْ ہٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ۚ فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُ 1ۚ وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ 1ؕ وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ 1ۚ (محمد 47 : 37۔ 38) ” اگر وہ تم سے تمہارے مال طلب کرے اور تم کو تنگ کرے تو تم بخل کرنے لگو اور وہ تمہاری ناگواری ظاہر کر دے گا۔ دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ تم کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے بعض لوگ بخل کرنے لگتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے وہ خود اپنی ذات سے بخل کرتا ہے اور اللہ تو بےنیاز ہے اور تم محتاج ہو ۔ “ وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰىۙ008 وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنٰى ۙ009 فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى ؕ0010 (الیل 92 : 8۔ 10) ” اور جس نے بخل کیا اور بےنیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا اس کو ہم سخت راستے کے لئے سہولت دیں گے۔ “ ” الشُّخِ “ کے متعلق ارشادات الٰہی بھی ملاحظہ کریں : اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ 1ۖۚ فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ 1ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ 1ؕ وَ کَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا 0019 (الاحزاب : 33 : 19) ” (یہ لوگ) تمہارے بارے میں بخیل ہیں پھر جب خوف کا موقع آتا ہے تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکر کھاتی ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہوتی ہے پھر جب ڈر جاتا رہے گا تو وہ فوراً تم کو تیز تیز زبانوں سے ملیں گے (کیوں ؟ ) اس لیے کہ وہ مال (غنیمت) پر گرے پڑتے ہیں ، یہ لوگ ہرگز مؤمن نہیں ہیں اللہ نے ان کے تمام اعمال اکارت کردیئے اور اللہ کے لیے یہ بات بالکل آسان ہے۔ “ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ009 (الحشر 59 : 9) ، (64 : 16) ” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ “ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ 1ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ 1ؕ (النساء 4 : 128) ” صلح ہر حال بہتر ہے نفس تنگ دلی کی طرف جلد مائل ہوجاتے ہیں۔ “ مَنْ یُّوْقَ فرمایا یعنی جو شخص بچالیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پا سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو اللہ ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے ” شُّحَّ 1ؕ “ کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لئے آتا ہے مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے ” شح نفس “ کہا جائے تو یہ تنگ نظری ، تنگ دلی ، کم حوصلگی ، دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہوجاتا ہے جو بخل سے کہیں وسیع تر چیز ہے بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اس صفت کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کا سب کچھ اس کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروں کو خود دینا تو درکنار کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے اپنے لئے سمیٹ لے اور کسی کے لئے کچھ نہ چھوڑے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے اس برائی سے بچ جانے یا بچا لئے جانے کو فلاح کی ضمانیت قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو ان بدترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اتقوا الشح فان الشح اھلک من قبلکم حملھم علیٰ ان سفکوا دماءھم واستحلوا محارمھم ) (مسلم ، بخاری فی الادب ، مسند احمد ، بیہقی) اور حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں : ( امرھم بالظلم فظلموا وامرھم بالفجور ففجروا وامرھم بالقطیعۃ فقطعوا ) (مسند احمد ، ابوداؤد ، نسائی) شح سے بچو کیونکہ شح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا اس نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لئے حلال کرلینے پر اکسایا۔ ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا۔ اس نے ان کو فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا۔ اس نے ان کو قطع رحمی کے لئے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا : ” ایمان اور شح نفس کسی دل جمع نہیں ہوسکتے۔ “ (بیہقی فی شعب ال ایمان ، نسائی ، ابن ابی شیبہ) حضرت ابو سعید خدری ؓ کا بیان ہے کہ حضور اکرام ﷺ نے ارشاد فرمایا ” دو خصلتیں ہیم جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہوسکتیں۔ بخل اور بدخلق۔ “ یعنی ایمان اور بخل یا ایمان اور بدخلقی۔ دونوں جمع نہیں ہوسکتے کیونکہ حقیقت میں بخل کرنے والا بدخلق ہوتا ہے اور بد خلق کا بخیل ہونا بعید نہیں۔ (ابو داؤد ، ترمذی ، بخاری فی الادب) قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں۔ جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل کرنے پر اکساتے ہیں اور قرآن کے الفاظ کا گویا یہ اشارہ ہے اس سیرت کی طرف جو خود مسلم معاشرے کے منافقین میں اس وقت بھی سب کو نظر آرہی تھی۔ ظاہری اقرار ایمان کے لحاظ سے ان میں اور مخلص مسلمانوں میں کوئی فرق نہ تھا لیکن اخلاص کے فقدان کی وجہ سے وہ اس تربیت میں شامل نہ ہوتے تھے جو مخلصین و مؤمنین کو دی جارہی تھی۔ اس لئے ان کا حال یہ تھا کہ جو ذرا سی خوش حالی اور مشیخت ان کو عرب کے ایک معمولی قصبے میں میسر ہوئی تھی وہی ان کے چھوٹے سے ظرف کو پھیلائے جا رہے تھی اور اس پر ہی وہ پھٹے پڑے تھے اور اس کا پر تو دیکھنا ہو تو اب اپنی بستیوں کا چکر لگا کر دیک لو۔ ان میں دل کی تنگی اس درجہ کی تھی کہ جس اللہ پر ایمان لانے اور جس رسول کو پیرو ہونے اور جس دین کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے لئے خود ایک پیسہ تو کیا دیتے ، دوسرے دینے والوں کو بھی یہ کہہ کہہ کر روکتے تھے کہ کیوں اپنا پیشہ بھاڑ میں جھونک رہے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اگر مصائب کی بھٹی گرم نہ کی جاتی اور احد کی اس بھٹی میں مسلمانوں کو ڈالا نہ جاتا تو اس کھوٹے مال کو جو اللہ کے کسی کام کا نہ تھا زر خالص سے الگ نہ کیا جاسکتا تھا۔ اور اس کو الگ کئے بغیر سچ ہے کہ مسلمانوں کی ایک مخلوط بھیڑ کو دنیا کی امامت کا وہ منصب عظیم نہ سونپا جاسکتا تھا جس کی عظیم الشان برکات کا مشاہدہ آخر کار دنیا نے آپ ﷺ کے مختصر دور حکومت اور خلافت راشدہ میں کیا۔ قرآنی تعلیمات مسلم معاشرہ کے لوگوں کو تفہیم کراتی ہیں کہ لوگو ! یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا اور نہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمہارے پاس رہے گا کل یہ دوسرے لوگوں کے پاس تھا پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے تصرف میں دے دیا پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے اور یہ مال ان کے تصرف میں چلا جائے گا۔ اس عارضی جانشینی کی تھوڑی سی مدت میں جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حاصل ہو۔ یہی بات ہے جس کو نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا اس بکری کا کیا ہوا ؟ سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کیا ( ما بقی الا کتفھا) ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : (بقی کلھا غیر کتفھا) ایک شانے کے سوا ساری بکری بچ گئی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں صرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (ان تصدق وانت صحیح شحیح تخشی الفقر وتامل الغنی ولا تمھل حتی اذا بلغت الحلقوم قلت للان کذا و لگلان کذا وقد کا لفلان) ” یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کو تو صحیح و تندرت ہو مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کسی کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کرے کہ جب جان نکلے گی تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کا ہو ہی جانا ہے۔ “ (بخاری ومسلم) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ( یقول ابن ادم مالی مالی ، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت ، او لبست فابلیت ، او تصد قت فا مضیت وما سویٰ ذلک فذا ھب وتارک للناس) ۔ ” آدمی کہتا ہے میرا مال ، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر پرانا کردیا یا صقہ کر کے آگے بھیج دیا ؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہا تھے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے۔ “ (مسلم شریف) زیر نظر آیت میں جس کی یہاں تفسیر کی جارہی ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ” جن لوگوں کو اللہ نے اپنے خاص فضل و کرم سے مال دیا ہے اور واللہ ہی کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں یعنی وہ بخیل ہیں تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ایسا کرنا ان کے لئے کوئی بھلائی کی بات ہے نہیں وہ و ان کے لئے بڑی ہی برائی ہے۔ “ بخل کی مذمت اور صدقہ کے فوائد سمجھ میں آگئے۔ جو عم کرے گا فائدہ اس کا ہوگا خواہ میں ہوں یا آپ۔ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والوں کا مال ان کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا : 327: سَیُطَوَّقُوْنَ طوق وہ چیز ہے جو گلے میں ڈالی جائے خواہ پیدائشی لحاظ سے ہو جیسے کبتر کا طوق یا خود ڈالا جائے جیسے مالا یا ہار بخل کی سزا دنیوی زندگی میں جو ملتی ہے وہ تو ظاہر ہی ہے کہ نہ اچھا کھائیں گے اور نہ پئیں گے اور نہ ہی اچھا پہنیں گے۔ شم ، کنجوسی اور بخیل کی مثالیں بھی زبان زد خاص و عام ہیں اور مال کے حریص لوگوں کو مال جس جس طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن قیامت کے روز ان بخیلوں کو منافقوں ، کافروں زیاں کاروں کی صفوں میں کھڑا ہونا ہوگا۔ زیاں کار وہی ہوں گے جن کے نیک اعمال بھی وہاں ضائع ہوچکے ہوں گے۔ علاوہ ازیں بخیلوں کے گلے میں ان کے بخل کا ہار بھی ہوگا جو ان کی اس پہچان کو واضح کردے گا کہ یہ لوگ بخیل تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی مال عطا فرمایا پھر اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے روز یہ مال ایک سخت زہریلا سانپ بنا کر اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ وہ اس شخص کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں تیرا سرمایہ ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : اَلَّذِینَ یَبخَلُونَ الخ۔ مسلمانو ! بخل نہ کرو۔ اللہ نے جو کچھ رزق و دولت عطا فرمائی ہے اس کے بندوں کی خدمت میں خرچ کرو جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کا ہاتھ انفاق فی سبیل اللہ سے کبھی نہیں رک سکتا۔ ہاں ! جو کچھ خرچ کرو اللہ کی رضا کے لئے اور اس کے حکم کے مطابق خرچ کرو۔ نام و نمود کے لئے مت خرچ کرو۔ جو شخص نام و نمود کے لئے خرچ کرتا ہے وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔ اپنا تجزیہ خود کرتے رہو کہ کیا اللہ کی رضا میں خرچ کیا ہے اور کیا ناک و نمود کے لئے ؟ وہ کیا ہے جو خرچ کرنا چاہئے تھا لیکن خرچ نہیں کیا ؟ یہ بھی کہ جو خرچ کیا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہے یا غیر اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والوں کے لئے وعید الٰہی قرآن کریم میں۔ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ0034 یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاہُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ 1ؕ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ 0035 (التوبہ 9 : 34۔ 35) ” اور جو لوگ چاندی سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دو ۔ وہ دن جب کہ سونے چاندی کے ڈھیروں کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور ان سے ان کے ماتھے ، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کیا تھا سو جو کچھ ذخیرہ کر کے جمع کرتے رہے اس کا مزہ آج چکھ لو۔ “ اسلام نے مال کھانے اور خعو کرنے کے اصولی ضابطے قائم کردیئے ہوئے ہیں ان ضابطوں کے خلاف کمایا ہوا مال اور جتنا خرچ کرنا لازم و ضروری ہے اتنا بھی اس میں سے خرچ نہ کیا گیا تو مال ” خزانہ “ یا ” ذخیرہ “ کہلاتا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تو سونے اور چاندی کے ذخائر کی بات ہے گندم یا دوسرے غلہ جات چینی یا دوسری خوردنی اشیاء کے ذخائر سے زکوٰۃ سے بچنے کے لئے کو ٹھیاں ، زمینیں اور باغات اگر جمع کرلی جائیں تو پھر تو ایسا نہیں ہوگا اور یہ بھی کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ اگر ان سب کو دوزخ کی آگ میں ڈال ہی دیا جائے گا تو یہ سب مل کر راکھ ہوجائیں گے پھر کا ویہ کیونکر ہوگا۔ کوئی بڑا ہی بدبخر ہوگا جو ایسی بات کرے گا کیونکہ مراد اس جگہ ” کا ویہ “ کرنے سے عذاب میں مبتلا کرنا ہے اور ” کا ویہ “ کرنے کے عذاب سے انسان واقف ہے کہ وہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کی اصلی نوعیت کیا ہے ؟ علم الٰہی میں موجود ہے۔ انسانوں کو سمجھانے کے لئے ان ہی کی زبان استعمال کی جاسکتی تھ اور وہی کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ ” قریب ہے کہ قیامت کے دن یہی مال و متاع جس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے وہ بخل کرتے تھے ان کے گلوں میں طوق بنا کر پہنچایا جائے گا۔ “ وارث حقیقی ہرچیز کا اللہ تعالیٰ ہی ہے انسان کی ملکیت عارضی اور مستعار ہے : 328: ” مِیُرَاث “ ورث سے ہے وراثت اور ارث کے معنی ہیں ایک شخص کی طرف کسی وسرے سے مال کا منتقل ہونا بغیر کسی معائدہ یا اس امر کے جو قائم مقام معائدہ ہو۔ (راغب) اس لئے جو مال میت کی طرف سے منتقل ہوتا ہے اس کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں سے میں سے ایک نام ” الوارث “ بھی ہے اس لئے کہ سب کی سب اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے والی ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں بھی ہے : وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ وَ نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ 0023 (الحجر 15 : 23) ” اور یہ ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے ہیں اور موت طاری کرتے ہیں اور ہمارے ہی قبضہ میں سب کی کمائی آتی ہے۔ “ یعنی اللہ ہی کی ذات ہے جو زندہ کرتا اور موت طاری کرتا ہے اور اس کا علم رکھتا ہے کون پہلے آئے گا اور کون بعد ؟ جس طرح اللہ نے تمام چیزوں کی تقدیر کردی ہے۔ مقررہ اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔ اسی طرح موت وحیات کا بھی ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا ہے اور قوموں کے تقدم و تاخر کے لئے بھی مقررہ اندازہ ہے ہر ہستی جو پیدا ہوتی ہے اور ہر ہستی جو مرتی ہے اپنے مقررہ اندازہ کے مطابق پیدا ہوتی ہے اور مقررہ اندازہ کے مطابق مرتی ہے تقدیر اشیاء اور اجسام کا قانون عالمگیر قانون ہے۔ ہستی کا کوئی گوشہ نہیں جو اس سے باہر ہو سوائے اس کی اپنی ذات کے کہ ھُوَ الاَوَّلُ والاٰخِرُ والظَّاھِرُ وَالبَاطِنُ ۔ آسمان و زمین کی وراثت اللہ ہی کو حاصل ہے کیونکہ مخلوق کو فنا ہے اور اللہ باقی رہنا والا ہے سب مر جائیں گے اور مال چھوڑ جائیں گے۔ اللہ کی طرف ہرچیز لوٹا دی جائے گی۔ مرنے والوں کی گردن پر اس کا عذاب رہ جائے گا اور مرتے وقت مال چھوڑنے کی حسرت ہوگی پھر کیا وجہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں اور راہ خدا میں مال خرچ نہیں کرتے ؟ فرمایا ” جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب اللہ کی میراث ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس کے علم سے مخفی و پوشیدہ نہیں۔ “
Top