Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 182
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۚ
ذٰلِكَ : یہ بِمَا : بدلہ۔ جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : بندوں پر
تم جو کچھ اپنے ہاتھوں اپنے لیے مہیا کرچکے ہو یہ اسی کا نتیجہ ہے ورنہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ اپنے بندوں کیلئے ظلم کرنے والا ہو
ان کو اپنے کئے کی اور تم کو اپنے کئے کی سزا بھگتنا ہوگی ، اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا : 332: قرآن کریم کے الفاظ بالکل صاف صاف بتا رہے ہیں کہ یہود کو جس سزا دیئے جانے کا ذکر ہے وہ ان کے اپنے کئے کے نتیجہ میں ہے نہ کہ ان کے پہلوں کے کئے ہوئے گناہوں کی پاداش میں اور اس میں ذلک بما قدمت ایدیکم کے الفاظ اس بات کو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تم جو کچھ اپنے ہاتھوں اپنے لئے مہیا کرچکے ہو یہ اس کا نتیجہ ہے پھر جو کچھ انہوں نے کیا تھا اس کی پوری تفصیل تفسیر ، سیرۃ ، تاریخ اور احادیث کی کتابوں میں موجود ہے اور پیچھے تفصیل سے پڑھ چکے ہیں کہ یہود نے رسول اللہ ﷺ سے معاہدے کر کے ان معاہدوں کا کیا اور ایک بدعہدی نہیں کی بلکہ باربار بد عہدیاں کیں عہد کرنا اور اس سے پھرنا ان کا معمول زندگی تھا اور پھر ان ساری چیزوں سے بڑھ کر جو رسول اللہ ﷺ کے قتل کی سازش انہوں نے کی تھی کیا یہ سب کچھ انہوں نے خود نہیں کیا تھا ؟ ہاں یہ سب کچھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سر انجام دیا اور بڑی ترکیب اور ترتیب سے سر انجام دیا لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے ” ایدیکم “ سے مراد وہ اشخاص اور نفوس لئے جو قتل انبیاء کے مرتکب ہوئے تھے اور یہ لکھا کہ ” ید “ کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ اکثر حسی افعال ہاتھوں ہی سے ہوتے ہیں۔ اس لئے پہلے انسانوں کو جنہوں نے صحیح معنوں میں انبیاء کرام کو قتل کیا تھا۔ ان یہود کے ہاتھ قرار دیا گیا اور کون پوچھے کہ آخر اس طرح کی توجیہات اور دور از کار بحثوں کی ضرورت ؟ پھر یہ کہ پیچھے آنے والے پہلوں کے ہاتھ قرار دیئے جاسکتے ہیں پہلے ہونے والے پچھلوں کے ہاتھ کس طرح ہوگئے ؟ تعجب ہے کہ کچھ لوگوں نے کیا کیا مغز ماریاں کیں اور کیوں کیں ؟ اس سے رسول اللہ ﷺ کی امت کو کیا فائدہ ہوا ؟ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اللہ کے لیے تو یہ بات کبھی نہیں ہو دسکتی کہ اپنے بندوں کے لئے ظلم کرنے والا ہو۔ “ اللہ ظالم نہیں اور نفی ظلم کے لئے عدل لازم ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ نیک کو ثواب اور بد کو عذاب دیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ظالم نہ ہونے کا تقاجا ہے کہ کافروں کو عذاب دیا جئھ۔ پھر اس پر بحث چھیڑ دی کہ یہ مفہوم مسلک اشاعرہ کے خلاف ہے کیونکہ یہ معتزلہ کا مسلک ہے۔ معتزکہتے ہیں کہ ظلم کی نفی اللہ کی ذات کو مستلزم ہے اور عدل کے لئے لازم ہے کہ نیک کو ثواب اور گنہگار کو عذاب دیا جائے۔ پس فرمانبردار کو ثابت اور نافرمان کو عذاب دینا اللہ پر لازم قرار پادیا اور یہ شاعرہ کے مسلک کے خالف ہے کیونکہ وہ اللہ پر کسی چیز کو لازم قرار نہیں دیتے اور اس طرح بیان کرنے سے ظلم نہ کرنا لازم آتا ہے۔ پھر اس بحث کو اتنا طول دیا کہ صفحات کے صفحات تحریر کئے گئے اور انجام کار یہ ثابت کیا کہ ” اس جگہ لفظ ظلم حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ نفی ظلم سے مراد یہ ہے کہ جو فعل بندوں کے باہمی معاملات میں ظلم کہلاتا ہے اگرچہ اللہ سے اس کا صدور ظلم نہیں۔ “ اور دوسرا مطلب اس کا بیان کیا گیا ہے کہ ” آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ کافر عذاب کے اتنے مستحق ہیں کہ اگر اللہ ان کو عذاب نہ دے تو ان پر ظلم اور ان کی حق تلفی ہوگی پس گویا اس طرز کلام سے کافروں پر عذاب ہونے کو موکد طور پر ظاہر کردیا۔ “ اس طرح کی سر دردیاں پڑھ کر فی الواقع درد سر شروع ہوجاتا ہے اور پھر بھی جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو دوست کہتے ہیں کہ ہاں ! حقیقت تسلیم کرلو کہ سمجھ کر پڑھنا گناہ عظیم ہے اور جو سمجھ میں نہیں آتا اس پر اجر عظیم ہے۔ زیرِ نظر آیت میں ارشاد الٰہی ہے کہ ” ان اللہ لیس بظلام للعبید “ اور ظلام مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت ظلم کرنے والا۔ یعنی ” اللہ بہت ظلم کرنے والا نہیں “ اور تھوڑا سا ظلم ۔۔۔ ؟ جواب غور سے سن لو کہ قرآن کریم نے کئی دفعہ یہ جملہ بیان کیا ہے کہ ” لا یظلمون فتیلاً “ (النساء : 50:4) ” ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ “ پھر اس طرح بھی ارشاد فرمایا کہ ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ (النساء : 40:4) ” اللہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ “ اس لئے مجھے کہہ لینے دو کہ ” اللہ اپنے بندوں کے لئے مطلق ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ “ ہاں ! لوگ جو کرتے ہیں خود اپنے ہاتھوں کرتے ہیں اور اللہ نے اپنے قانون کے مطابق عمل کے ساتھ نتیجہ لازم کردیا ہے جو کبھی خطا نہیں کرتا۔
Top