Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 184
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ
فَاِنْ : پھر اگر كَذَّبُوْكَ : وہ جھٹلائیں آپ کو فَقَدْ : تو البتہ كُذِّبَ : جھٹلائے گئے رُسُلٌ : بہت سے رسول مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے جَآءُوْ : وہ آئے بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ وَالزُّبُرِ : اور صحیفے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب الْمُنِيْرِ : روشن
یہ لوگ آج تمہیں جھٹلا رہے ہیں تو تم سے پہلے کتنے رسول جھٹلائے گئے باوجود اس کے کہ سچائی کی دلیلیں ، صحیفے اور روشن کتاب ان کے ساتھ تھی
پیغمبرِ اسلام ﷺ سے خطاب کہ یہود نے آپ ﷺ کو جھٹلا کر کوئی نیا کام نہیں کیا : 335: اس آیت میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر یہ تمہاری تکذیب کر رہے ہیں تو تم اس کا غم نہ کرو۔ نہ یہ باتن تمہاری کسی کوتاہی کے سبب ہے اور نہ اس وجہ سے کہ تم کو ان کے حسب منشاء معجزہ نہیں دیا جا رہا کیونکہ آپ ﷺ نے ان کے سامنے کوئی ایسا دعویٰ پیش نہیں کیا بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ یہ لوگ آپ ﷺ پر ایمان لانا ہی نہیں چاہتے اور جب کوئی ایک بات پہلے ہی ٹھان لے کہ مجھے یہ نہیں کرنا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں پھر یہ معاملہ خاص تمہیں کو پیش نہیں آیا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کی تکذیب ہوچکی ہے حالانکہ وہ روشن دلائل ، صحیفے اور اللہ کی طرف سے کتاب بھی لے کر آئے تھے۔ اس آیت میں تین لفظ استعمال ہوئے ہیں بینات ، زبر ، کتاب منیر۔ بینات کے معنی واضح اور روشن کے ہیں۔ یہ لفظ آیات کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ لفظ تنہا بغیر موصوف کے استعمال ہوا ہے دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک واضح اور مسکت دلائل کے معنی میں دوسرا حسی معجزات کے معنی میں اور معجزہ کی تعریف اصول تفسیر میں بیان کردی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔ زبر۔ زبور کی جمع ہے۔ اس کے معنی ٹکڑے ، قطعے اور صحیفے کے ہیں۔ مزامیرداؤد کے لئے اس کا استعمال معروف ہے اس جگہ بھی اس سے مراد انبیاء کرام کے وہ صحائف ہیں جو تورات کے مجموعہ میں شامل ہیں۔ کتاب منیر سے مراد تورات ہے۔ قرآن کریم سے پہلے کی نازل شدہ چیزوں میں تورات ہی ہے جس پر اس لفظ کا استعمال ہو سکتا ہے اور قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ دوسری قوموں کے دعویٰ بھی آسانی کتب کے موجود ہیں۔
Top