Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 185
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
كُلُّ : ہر نَفْسٍ : جان ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَاِنَّمَا : اور بیشک تُوَفَّوْنَ : پورے پورے ملیں گے اُجُوْرَكُمْ : تمہارے اجر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن فَمَنْ : پھر جو زُحْزِحَ : دور کیا گیا عَنِ : سے النَّارِ : دوزخ وَاُدْخِلَ : اور داخل کیا گیا الْجَنَّةَ : جنت فَقَدْ فَازَ : پس مراد کو پہنچا وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَآ : دنیا اِلَّا : سوائے مَتَاعُ : سودا لْغُرُوْرِ : دھوکہ
ہر جان کے لیے موت کا مزہ چکھنا ضروری ہے اور جو کچھ تمہارے اعمال کا بدلہ ملنا ہے وہ قیامت کے دن پورا پورا ملے گا اس دن جو شخص آتش دوزخ سے ہٹا لیا گیا اور جنت میں داخل کرلیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ خواہشوں اور ولولوں کا کارخانہ فریب ہے
دنیوی زندگی کا حجاب اٹھے گا تو اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا : 236: گزشتہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو انبیاء (علیہ السلام) کی معاندانہ مخالفت کرتے رہے۔ اس جگہ وضاحت فرما دی کہ ہر مخالفت فرما دی کہ ہر مخالفت کا فوراً بدلہ دیا جائے۔ یہ تو قانون الٰہی کے خلاف ہے کیونکہ یہ دارالعمل ہے اور ہر مخالفت کا اگر اسی وقت بدلا مل جائے تو پھر دنیا کا ہے کو رہی اور آخرت ہے تو وہ اس لئے ہے کہ اس میں اعمال کی جزاء دی جائے۔ پھر آخر ان کی مخالفت سے ہمارا کیا بگڑ رہا ہے۔ جو کچھ بگڑ رہا ہے۔ وہ ان کا اپنا ہی تو ہے اور یہ جو انبیاء کرام اور نیک لوگوں کی مخالفت سے ان کو دکھ پہنچ رہا اس کے بدلہ کے لئے بھی دارالجزاء ہی ہے اس لئے فرمایا کہ ہر عمل کا کھلا کھلا بدلہ تو اس زندگی میں نہیں ملتا اس کے لئے ہر شخص پر موت آنے والی ہے۔ اور کھلے کھلے اور کامل اجر کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت یعنی قیامت کا دن مقرر کیا ہوا ہے اس لئے قانون الٰہی میں جو کچھ یہاں ملنا ان کا مقدر ہے وہ بھی ملتا ہے اور ملتا رہے گا لیکن اعمال کی پوری پوری جزاء و سزا تو تم قیامت کے دن ہی پاؤ گے۔ اس طرح آیت زیر نظر میں تہدید اور تسکین دونوں کے پہلو موجود ہیں۔ منافقین و معاندین کے لئے کہ تہدید ہے اور اہل ایمان کے لئے پیغام تسکین ، مطلب صاف ہے کہ تم کو اور تمہارے مخالفوں کو سب کو موت کی منزل سے گزرنا ہے اور بالآخر اللہ کے پاس حاضر ہونا ہے اور پوری پوری جزاء و سزاء کے لئے قیامت کا دن مقرر ہے ہاں ! یاد رہے کہ جو شخص اٹھا لیا گیا گویا اس کی قیامت آگئی۔ اس لئے کہ اس کو دوبارہ دارالعمل میں نہیں آنا ہے۔ اس لئے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کب قیامت آئے گی اور کب جزاء و سزاء ملے گی ؟ تمہاری قیامت بس آئی کہ آئی۔ جو آتش دوزخ سے ہٹا لیا گیا گویا کامیابی اس کا مقدر ہوگئی : 337: وہاں بازی کون جیتا اور کون ہارا۔ فرمایا بس جو بازی جیت گیا وہ صحیح معنوں میں کامیاب ہوگیا اور اس کی کامیابی کا نشان ؟ جنت میں داخلہ اور وہاں وہ کچھ ملے گا۔ ” مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا حضر علیٰ قلب بشر “ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کی اصل حقیقت آسکتی ہے کیونکہ وتصور میں سمانے والی چیز نہیں ہے۔ صحیح بخاری ، مسلم ، ترمز ، مسند احمد میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد موجود ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان جس کی یہ تفسیر ہے وہ اس طرح ہے : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْن (السجدہ :17:16) ” پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لئے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔ “ اور یہ کامیابی جن کے حصے میں آئے گی ان کا ذکر اس طرح فرمایا : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْن (التوبہ :20:9) ” اللہ کے ہاں تو انہیں لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَیُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوا بِمَفَازَتِہِمْ لاَ یَمَسُّہُمُ السُّوٓئُ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (الزمر :61:39) ” جن لوگوں نے یہاں تقویٰ اختیار کیا ہے ان کے اسباب کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گی اور نہ وہ غم گین ہوں گے۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : وَمَنْ تَقِ السَّیِاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (ال مومن : 40:9) ” اے اللہ ! جس کو تو نے قیامت کی برائیوں سے بچا دیا اس پر تو بڑا رحم کیا اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ “ روز قیامت کی برائیوں سے مراد میدان حشر کا ہول ، سائے اور ہر قسم کی آسائشوں سے محروم ، محاسبے کی سختی ، تمام مخلوق کیا سامنے زندگی کے راز فاش ہونے کی رسوائی اور دوسری وہ تمام ذلتیں اور سختیاں ہی جن سے وہاں مجرمین کو سابقہ پڑنے ولال ہے۔ ظاہر ہے کہ جو ان سارے مواقع کی سختیوں سے بچالیا گیا کامیابی اس کا مقدر بن گئی اور اس سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہوگا اور ایسا رزلٹ جس کے حصے میں آئے گا یقینا وہ پکار پکار کر کہے گا کہ آؤ میری سند کامیابی کو پڑھ کر دیکھو ھاؤم اقرئُ و اکتابیہ۔ دنیا کیا ہے ؟ خواہشوں اور ولولوں کا کارخانہ فریب ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں : 338: ” اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ خواہشوں اور ولولوں کا کارخانہ فریب ہے “ غرور غار کی جمع ہے جس کے معنی ہیں دھوکہ دینے ولاے۔ یعنی اس کے سارے عارضی فائدے دھوکہ ہی دھوکہ ہیں جن کی حقیقت پانی کے حباب کی طرح کچھ بھی نہیں کہ دکھائی بہت کچھ دیتا ہے لیکن حقیقت اس کی ایک آہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ دنیا ایک ایسا سامان ہے جو دوسروں کو چھوڑا ہوا ہے اور پھر چھوٹ جانے والا ہے۔ عنقریب دنیا اور دنیا دار سب مٹ جائیں گے لہٰذا اس سامان میں سے تم اللہ کی فرنبرداری کے ساتھ حسب توفیق لے لو لیکن اس پر انحصار کر کے بیٹھ مت رہو۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌم بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَّفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌم (الحدید :20:57) ” خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دلی لگی اور ظاہر ٹیپ ظاپ اور تمہارآپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثالی ایسی ہے جیسے بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی اور انجام کار وہ پھس بن کر عہ جاتی ہے اور اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہے : مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ (ھود : 11:15) ” جو لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں۔ حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ مَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھْوٌ وَّ لَعِبٌ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (العنکبوت : 69:64) ” اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے۔ “ مختصر یہ کہ اس دنیائے دوں کی حقیقت بس اتنی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لئے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو دھا ریں یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں بن گیا ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈرامہ کر رہا ہے۔ ایک وقت جب اس کا یہ کھیل ختم ہوجاتا ہے اور اس بےسرو سامانی کے ساتھ وہ تخت شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنیا میں آیا تھا۔ اس طرح زندگی کی کوئی مشکل بھی یہاں مستقل اور پائیدار نہیں ہے جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود ملت کے لئے ہے۔ اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مرمٹتے ہیں اور نہیں کے لئے ضمیر و ایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ شوکت و حشمت کے ٹھاٹھ فراہم کرلیتے ہیں ان کی یہ ساری حرکتیں دل کے بہلاوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ان کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلا لیں اور پھر موت کے دروازے کے خالی ہاتھ گزر کر اس عالم میں پہنچیں گے جہاں کوئی دائمی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بےدرماں ثابت ہو تو آخر اس طفل تسلی کا فائدہ کیا ؟ ہاں اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی موجودہ زندگی صرف ایک مہلت امتحان ہے اور انسان کے لئے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے وہ آخرت کی زندگی ہے تو وہ اس جگہ امتحان کی مدت کو اس لہو ولعب میں ضائع نہیں کرتے اور اس کے بجائے اس کا ایک ایک لمحہ ان کاموں میں استعمال کرتے جو اس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کرنے والے ہوں۔ جس کی سمجھ میں یہ بات آجائے اس کا اپنا فائدہ ہے اور گزرا ہوا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 155 کی تفسیر کو دیکھیں۔
Top