Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 186
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١۫ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ
لَتُبْلَوُنَّ : تم ضرور آزمائے جاؤگے فِيْٓ : میں اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال وَاَنْفُسِكُم : اور اپنی جانیں وَلَتَسْمَعُنَّ : اور ضرور سنوگے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمِنَ : اور۔ سے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) اَذًى : دکھ دینے والی كَثِيْرًا : بہت وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے عَزْمِ : ہمت الْاُمُوْرِ : کام (جمع)
خوب یاد رکھو کہ ایسا ہونا ضروری ہے کہ تم جان و مال کی آزمائشوں میں ڈالے جاؤ یہ بھی ضروری ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین عرب سے تمہیں دکھ پہنچانے والی باتیں سننی پڑیں لیکن اگر تم نے صبر کیا اور پرہیزگاری اختیار کی تو بلاشبہ اسلام کی راہ میں یہ بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہے
جان و مال کی آزمائش میں تم بھی مبتلا ہو گے اور اہل باطل کی تلخ کلامی بھی سننا ہوگی : 339: کسی یہودی کی اس دریدہ دہنی پر کہ ” ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء “ اچھا ! بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو غصہ آگیا اور یہ بات بولنے والے کو طمانچہ رسید کردیا کہ کیسی بکواس کر رہے ہو ؟ یہودی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس میں مسلمانوں کو بتلایا گیا کہ دین کے لئے جان و مال کی قربانیوں سے اور کفار و مشرکین اور اہل کتاب کی بد زبانی کی ایزاؤں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ سب ان کی آزمائش ہے اور اس میں ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ صبر سے اور برداشت سے کام لیں اور اپنے اصل مقصد کی تکمیل میں مصروف رہیں۔ اگر تم نے قیام حق کی خدمت عظیم اپنے سر لی ہے تو ضروری ہے کہ اس راہ کی تمام آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑے۔ اہل کتاب اور مشرکین عرب دونوں تمہاری مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے ہیں وہ طرح طرح کی اذیتیں تمہیں پہنچائیں گے اور تمہیں برداشت کرنا پڑیں گی تمہاری کامیابی کے لئے اصل چیز صبر اور تقویٰ ہے۔ اگر تم نے صبر کیا تو تمہارا اجر محفوظ رہے گا اور بلاشبہ تم خود کامیابی سے ہم کنار ہو گے۔ قرآن کریم نے ان کی اس طرح کی ایزا رسانیوں کا ذکر دوسرے مقالات کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَاوَ عَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّام بِاَلْسِنَتِھِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ (النساء : 46:4) ” اے پیغمبر اسلام ! ان یہودیوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اور زبانوں کو توڑ موڑ کر مطلب کچھ کا کچھ کردیتے ہیں۔ “ یعنی جب ان کو اللہ کے احکام سنائے جاتے ہیں تو زور سے کہتے ہیں کہ سمعنا ہم نے سن لیا اور اہستہ دل میں کہتے ہیں عصینا کہ ہم نے قبول نہیں کیا یا اطعنا ہم نے قبول کیا کا تلفظ اس انداز سے زبان کو پیچ دے کر کہتے ہیں کہ وہ عصینا بن جاتا ہے۔ اس طرح دوران گفتگو جب وہ کوئی رسول اللہ ﷺ سے کہنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اسمع یعنی ہماری بات سنئے اور پھر اس کے ساتھ غیر مسمع “ بھی بڑھا دیتے ہیں جس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ خدا تمہیں بری بات نہ سنوائے اور دوسرے یہ بھی کو ” بہر ہوجاؤ “ اسی طرح ” راعینا “ بولتے جس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہماری طرف التفات کیجئے اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اے ہمارا چرواہے اس طرح وہ زبانوں کو پیچ دے دے کو سہ بات کو کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں اور پھر جب مجلس سے اٹھتے ہیں اور کہیں دوسری جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر ان حرکات پر پھبتیاں کستے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتوں سے دلی دکھ پہنچنا فطری امر ہے لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ اس کو برداشت کرو کہ عنقریب نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآئِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا (النساء : 51:4) ” اور وہ کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ “ علمائے یہود کی ہٹ دھرمی اور ضجد وعناد یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ جو لوگ نبی اعظم و آخر ﷺ پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکین عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے۔ کہ ان سے تو یہ مشرکین زیادہ راہ رست پر ہیں حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شریک کا شائبہ تک نہیں اور دوسری طرف صریح بت پرستی ہے۔ جس کی مذمت سے ساری بائبل بھری پڑی ہے۔ لیکن ستیاناس اس مخالفت کا یہ کسی پہلو چین نہیں لینے دیتی اور اپنے مخالف کی اچھی سے اچھی بات سے بھی کیڑے نکالنے پر مجبور کرتی رہتی ہے اور دوسروں کی بھلی بات بھی بری لگتی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : وَاِِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہٖ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلاَ یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ (المجادلۃ : 8:58) ” اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو ہمیں اس طریقہ سے سلام کرتے ہیں جس طریقہ سے اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا اور پھر اپنے دلوں میں یا اپنی مجلسوں میں اپنے لوگوں سے کہتے ہیں ہماری ان باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ “ مزید تفصیل کے لئے دیکھو آل عمران کی آیت 111: 118 کی تفسیر زیر نظر جلد میں۔ مشرکین اور یہود کی ایذا رسانیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو : 340: آیت کے آخر میں فرمایا کہ ” اگر رتم نے صبر کیا اور پرہیزگاری اختیار کی تو بلاشبہ اسلام کی راہ میں یہ بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہے۔ “ کیوں نہ ہو جتنا کام مشکل ہوگا اتنا ہی عزم و ارادہ پختہ کرنا ہوگا۔ مخلافین کی ایذا رسانیوں کو برداشت کرنا اور صبرو استقلال سے اپنا کام جاری رکھنا بلاشبہ بہت بڑی ہمت اور دل گردہ کی بات ہے خصوصا جب اللہ نے طاقت بھی دی ہو تو مصلحتاً طاقت کا استعمال نہ کرنا اور بھی مشکل امر ہے صبر کیا ہے ؟ آزمائشوں کے وقت بےقرار نہ ہون اور فرمانبردار رہتے ہوئے مصائب پر کسی طرح کا دھیان دیئے بغیر اپنا کام جاری رکھنا اور تقویٰ کا بھی تقاجا کچھ اس طرح کا ہے کہ کانٹوں سے بچ بچا رکر صحیح سالم منزل مقصود تک پہنچ جانا اور صبر اور تقویٰ دونوں کا امتزاج ایک راہ رو سے جو تقاضا کرتا ہے اس کا انجام بلاشبہ عزم و ہمت کی بات ہے اور پھر جس چیز کو خود اللہ تعالیٰ عزم الامور فرما رہا ہے۔ جس کو یہ میسر آجائے اس کی کیا ہی شان ہوگی ؟ قرآن کریم میں ایک جگہ لقمان (علیہ السلام) کی نصیحت جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی اس کا بیان اس طرح کیا ہے : یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (لقمان : 17:31) ” بیٹا ! نماز قائم کر ، نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتی ہے۔ اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آکر رہتا ہے۔ فرمایا کہ بیٹے ! یہ بڑے حوصلے کا کام ہے اصلاح خلق کے لئے اٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کام لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ ہاں ! ہاں ! یہ کام لوہے کے چنے چبانا ہی ہے۔
Top