Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کاموں کے لیے سرا ہے جائیں جو انہوں نے کبھی نہیں کیے تو تم ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچے رہیں گے ، نہیں ! ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے
کچھ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہیں کہ کام لوگ کریں اور مدح سرائی ان کی ہو : 343: اس سے مراد یہود بھی ہو سکتے ہیں اور منافق بھی کیونکہ یہ بات ان دونوں گروہوں کی صفات سے ملتی جلتی ہے اور تفہیم یہ مقصود ہے کہ اگر کوئی شخص نیک عمل کرنے کے بعد اس پر مدح وثناء کا انتظار و اہتمام کرے تو نیک عمل کرنے کے بعد اس پر مدح وثناء کا انتظار و اہتمام کرے تو نیک عمل کرنے کے باوجود بھی قواعد شرعیہ کی رو سے یہ مذموم ہے اور یہ ان لوگوں کی صفت ہے جو میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے کے عادی ہوتے ہیں خواہ وہ کسی قوم سے ہوں۔ جب بھی کہیں کوئی تعریف کی بات ہو خواہ وہ کیسی ہو اس لئے کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو شرعاً اچھی نہیں لیکن لوگ ان کو اچھا سمجھتے ہیں اور ایسی بھی ہیں کہ وہ شرعاً بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن لوگ ان کو اچھا نہیں سمجھتے ۔ لیکن ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ وہ بات جو لوگ اچھی سمجھتے ہیں فی نفسہ وہ اچھی ہو یا بری بہر حال وہ اس میں اپنا نام رکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہر وہ بات جس کی لوگ تعریف کریں اس میں ہمارا نام پہلے ہونا چاہیے۔ حاصل کلام یہ کہ یہ لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف ہی سننے کی خواہش رکھتے ہیں اور جب بھی کوئی کلام کرتے ہیں تو اس میں یہ پہلو ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنے برے کو بھی اچھا کر کے بیان کریں اور دوسروں کے اچھے کا بھی ان کے سامنے ذکر نہ ہو اگر ہو تو کسی برائی کے رنگ ہی میں ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ اس کا وقع اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو طلب فرمایا اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ یہودیوں نے اصل بات چھپا لی اور کوئی دوسری بات بتائی اور رسول اللہ ﷺ پر ظاہر یہ کیا کہ آپ ﷺ نے جو کچھ دریافت کیا تھا ہم نے وہی بتایا اور اس فعل پر انہوں نے مستحق تعریف بھی بننا چاہا لیکن اپنی جگہ پر وہ اندر ہی اندر خوش تھے کہ ہم نے وہ بات چھپا لی جو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمائی پھر ابن عباس ؓ نے اس آیت کو تلاوت کیا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ غلط بیانی کر کے اس پر اپنی تعریف رسول اللہ ﷺ سے سننا چاہتے تھے۔ اگرچہ ان کو یہ بات نصیب نہ ہوئی اور ہوتی بھی کیسے کہ آپ ﷺ کے رسول تھے اور اس طرح اس واقعہ کو بیان کر کے رسول اللہ ﷺ کی امت کو یہ درس دے دیا گیا کہ وہ بھی اچھے اور برے ، کھوٹے اور کھرے ، صحیح اور غلط میں امتیاز پیدا کریں اس لئے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ وہ خود بھی ایسی بیماری میں مبتلا نہ ہوں اور دوسروں کی تعریفوں سے بھی خوشامد کے طور پر ان کی تعریفوں کے پل نہ باندھیں بلکہ ہر حال میں حقیقت کا دامن تھا میں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ کتب احادیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ” کچھ منافق ایسے تھے کہ فب رسول اللہ ﷺ کسی جہاد پر جاتے تھے وہ پیچھے رہ جاتے تھے اور جہاد میں شامل نہیں ہوتے تھے اور اس طرح اپنے بیٹھ رہنے سے خوش ہوتے تھے لیکن جب نبی اعظم و آخر ﷺ بخیریت واپس تشریف لاتے تو یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر معذرت پیش کرتے تھے اور ناکردہ نیکی پر آپ ﷺ کے منہ سے تعریف کے خواستگار ہوتے تھے اور اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ بہر حال آیت کا نزول کچھ بھی ہو۔ آیت کا حکم عام ہے اس صفت کے لوگ اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ بلکہ کثرت سے ہیں اور کسی شہر ، قصبہ یادہ میں جتنے و ڈیرے اور کھاتے پیتے لوگ ہیں ان میں تو اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے اور پھر علماء کے طبقہ میں تو یہ بات دن رات دیکھنے میں آتی ہی رہتی ہے کہ وہ اپنے علم کی ڈینگیں مارتے ہیں اور ہم چوں مادیگر سے نیت کی نعرہ بازی ان کی طبیعت ثانیہ ہوجاتی ہے۔ ان کی اس فرحت کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ (10:11) لَاتَفْر َحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (76:28) وَاْبتَغِ فِیْمَا اَتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰ خِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَا اَحَسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفِسِدِیْنَ (77:28) حَتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَفَرِحُوْا بِھَا جَآئَ تْھَا رِیْحٌ عٰصِفٌ (22:10) فَرِحُوْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِی الاٰ خِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ (26:13) بَلْ اَنْتُمْ اَذَقْنَا النَّاسَ مِنَّا رَحْمَۃً فَرِحَ بِھَا (48:46) فَلَمَّا جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِنَاتِ فَرِحُوْ بِمَا عِنْدَھُمْ (40:83) کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْن ِ (83:23) وَفَرَّقُوْ دِیْنَھُمْ وَکَانُوْ شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ (32:30) فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیُھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَئْیٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوآ (44:6) فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقُعَدِھِمْ (81:9) اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَا اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَیَتَوَلَّوْ وَھُمْ فَرِحُوْنَ (50:9) ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس لئے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اللہ سے بےنیاز اور آخرت سے بےفکر ہو کر صرف دنیا کے لئے کیا۔ دنیوی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ لیا۔ لوگوں کو راہ بتاتے رہے لیکن اپنی راہ گم ہونے کا انہوں نے کبھی نہ سوچا۔ دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصد بنایا۔ خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوئے بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اپھے آپ کو محض ایک خود مختار وغیرہ ذمہ دار حیوان عاقل و عالم سمجھتے رہے۔ جس کے لئے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کو خود ہی اچھا سمجھتے ہیں فی نفسہ و کتنا برا کیوں نہ ہو۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (الکہف : 104:18) ” یہی لوگ ہیں جن کے سارے کام اکارت گئے اور وہ اپنے کاموں میں سب سے زیادہ نامراد ہوئے ؟ وہ جن کی ساری کوششیں دنیا کی زندگی میں کھوئی گیئں۔ اور اس دھوکے میں پڑے ہیں کہ بڑا اچھا کارخانہ بنا رہے ہیں۔ “ ان کے سارے غلط صحیح کام ان کی نظر میں کیسے اچھے ہوگئے قرآن کریم کہتا ہے کہ ” الشیطٰنُ سول لھم “ شیطان نے ان کے لئے اس روش کو سہل بنا دیا ہے اور پھر شیطان کی اس روش کا ذکر قرآن کریم میں جگہ جگہ کیا گیا۔ آپ کے مطالعہ کے لئے ایک فہرست پیش خدمت ہے قرآن کریم کے ان مقامات کا مطالعہ انشاء اللہ تمہاری آنکھیں کھول دے گا۔ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ عَلٰی شَئْیٍ اَ لَا اِنَّھُمْ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ (18:58) زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَا یَھْتَدُوْنَ (4:27) وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَکَانُوْ مُسْتَبْصِرُوْنَ (38:29) وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (43:6) اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا (8:38) اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ زَیَّنَّا لَھُمْ اَعْمَالَھُمْ فَھُمْ یَعْمَھُوْنَ (4:27) زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْ مَکْرُھُمْ وَصُدُّوْعَنِ السَّبِیْلِ (33:13) وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ وَصُدَّعَنِ السَّبِیْلِ (37:40) کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَاکَانُوْ یَعْمَلُوْنَ (122:13) وَاِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَ ھُمْ فِی الْغَیِّ ثَُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ (202:7) قَالَ قَائِلٌمِّنْھُمْ اِنّی کَانَ لِیْ قَرِیْنٌ یَقُوْلُ ئَ اِنِّکَ لَمِنَ الْمُصِّدِّقِیْنَ (82:37) تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَھُوَ وَلِیُّھُم عَذَابٌاَلِیْمٌ (16:63) وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرَیْناً فَسَآئَ قَرِیْناً (4:38) قاَلَ قَرَیْنُہٗ رَبََّنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلَکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ بَعِیْدٍ (50:27) وَقَیَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَآئَ فَزَیَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ (41:25) وَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِّنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ اِِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ (الانعام 6:27) یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا (6:112) اِنَّاجَعَلْنَا الشَّیْطٰنَ اَوْلِیَآئَ لِلّلَذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ (7:27) اِنَّھُمُ اتَّخَذُوا الشَّیَاطَیْنَ اَوْلِیَآئَ مَنْ دُوْنِ اللہِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُم مُھْتَدُوْنَ (7:30) وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ (43:36) وَیَجْعَلُوْنَ لِلہِ مَا یَکْرَھُوْنَ وََتَصِفُ اَلْسِنَتُھُمُ الْیَوْمَ اَذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّکُمْ فَی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ (43:39) وَیَجْعَلُوْنَ لِلہِ مَا یَکْرَھُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِنَتُھُمُ الْکَذِبَ اِنْ لَھُمُ الْحُسْنی لَا جَرَمَ اَنَّ لَھُمُ النَّارَ وَ اَنَّھُمْ مُّفْرَطُوْنَ (16:62) یَحْلِفُوْنَ بِاللِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ وَ اللہُ وَرِسُوْلُہٗ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤمِنِیْنَ (9:62) یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللہَ لِا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ (9:96) یَحْلِفُوْنَ بِاللہِ اِنْ اَرَدِنَا اِلَّا اِحْسِاناً وَّتَوْفِقْیاً (4:26) وَلِیَحْلَفَنَّ اِنْ اَرَدْنَا اِلَّا الْحُسْنٰی وَاللہُ یَشْھَدُ اَنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ (9:107) اِنَّھُمْ اَلْفُوْ اٰبَآئَ ھُمْ ضَّآلِّیْنَ فَھُمْ عَلٰی اٰثَارِھِمْ یُھْرَعُوْنَ (37:69:70) دنیا ہی کے ہو کر رہ جانے والے رسوا کن عذاب میں پھنس کر رہ جائیں گے : 344: ذرا غور کرو کہ کتنی ہی زندگیاں ہیں جن کا ہر لمحہ طرح طرح کو کوششوں میں بسر ہوتا ہے لیکن ان کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوتی اور جب پردہ غفلت ہٹتا ہے تو صاف دیکھ لیتے ہیں کہ جدوجہد کی ساری زندگی رائیگاں گئی ! وہ ہمیشہ اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں بنائی اور فلاں فلاں کام میں کامیابی حاصل کرلی اور فلاں کارخانہ لگا لیا حالانکہ بنتا ونتا کچھ بھی نہیں بلکہ سر تا سر بگڑتا ہی جاتا ہے دنیا کی چند روز زندگی بلحاظ دنیا اچھی بین گزر گئی اور آخرت میں ناکامی کا سامنا گزرے دنوں پر پانی پھیر دے گا اور ان سے کہا جاے گا کہ تم کو معلوم ہے کہ تم نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ جو چیز حق نہ تھی اس کی تم نے پیروی کی بلکہ تم اس غیر حق پر ایسے مگن رہے کہ جب حق تمہارے سامنے پیش کیا گیا تو تم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور الٹے اپنی باطل پرستی پر اتراتے رہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : ذلِکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَفْوَحُوْنَ فَی الْاَرْضِ بِغیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تُمْرَحُوْنَ ۔ (المؤمن : 40:75) ” ان سے کہا جائے گا کہ تمہارا یہ انجام اس لئے ہوا کہ تم زمین میں غیر حق پر مگن تھے اور پھر اس پر اتراتے تھے۔ “
Top