Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 189
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کیلئے ہے اور اس کے اندازہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے
آسمانوں اور زمین کی اصل بادشاہی تو اللہ ہی کی ہے باقی سب بکھیڑے ہیں : آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے یعنی اللہ کے زیر فرمان ہے۔ پس اگر وہ تمہیں کا مییابی و کمرانی اور سر بلندی عطا فرمانا چاہے تو تمہاری راہکو کون روک سکتا ہے ؟ لیکن ہاں ! شرط کامیابی یہ ہے کہ ہم راہ حق پر استوار رہو۔ لیکن کفر و شرک حماقت میں جو لوگ مبتلا ہیں وہ اگر سمجھانے سے نہیں مانتے تو نہ مانیں حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے کسی کے ماننے نہ ماننے سے حقیقت کبھی بدل نہیں جاتی زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں ، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کردی گئی ہے نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ ہی ہے اس سے بغاوت کرنے والا ہے اپنے بل بوتے پر جیت سکتا ہے نہ ان ہوستیوں میں سے کوئی آکر اسے بچا سکتی ہے جنہیں لوگوں نے اپنی حماقت دبے وقوفی سے خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رکھا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوا : لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْد (لقمان : 31:26) ــ” آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ بیشک بےنیاز ہے اور آپ سے آپ محمود ہے۔ “ وہ آپ سے آپ محمود ہے کا مطلب ؟ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا بےنیاز ہے کہ وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں اور نہ کسی کے کفر سے اس کا کوئی نقصان ہے۔ جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفر اس کے اپنے لئے نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کاینات کا ذرہ ذرہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبان حال سے اس کی حمد بجالا رہی ہے ایک انسان ہی ایسا ناکارہ ہے جو اس سے سر پھیر جائے تو پھیر جائے لیکن اس سے سر پھیر کر وہ کس کا نقصان کرے گا ؟ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ (الشوریٰ : 46:49:50) ” اللہ ہی زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے وہ جو کچھ چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑ کیا ملا جلا کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز کا اندازہ مقرر کرنے والا ہے۔ “ گویا اللہ تعالیٰ کے مطابق العنان ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت۔ ہوں ۔ کوئی انسان خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بنا پھرتا ہو یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو کبھی اس پر قادر نہیں ہوسکا ہے کہ دوسروں کو دلواناتو درکنار خواہ اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کرسکے۔ جسے اللہ نے بانجھ کردیا وہ کسی دوار اور کسی علاج اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد والانہ بن سکا۔ جسے اللہ نے لڑکیاں ہی لڑکیاں دیں وہ ایک بیٹا بھی کسی تدبیر سے نہ کرسکا اور جسے اللہ نے لڑکے ہی لڑکے دیئے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پاسکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بےبس رہا ہے بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے کوئی یہ حتمی بات معلوم نہ کرسکا کہ رحم مادر میں لڑکا پرورش پا رہا ہے یا لڑکی اور اس مشینی دور میں کسی آلہ کے ذریعہ معلوم ہو بھی جائے تو کیا وہ لڑکے کو لڑکی یا لڑکی کو لڑکا بنا دے گا تو پھر ایسا علم مفید کیا رہا ؟ یہ سب کچھ کر بھی اگر کوئی خدا کی خدائی میں مختار کل ہونے کا زعم کرے یا کسی دوسری ہستی کو اس کے اختیارات میں دخیل سمجھے تو ظاہر ہے کہ یہ اس کی اپنی ہی بےبصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ بھر بھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔
Top