Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
خَلْقِ
: پیدائش
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَاخْتِلَافِ
: اور آنا جانا
الَّيْلِ
: رات
وَالنَّھَارِ
: اور دن
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں ہیں
لِّاُولِي الْاَلْبَابِ
: عقل والوں کے لیے
بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب عقل و دانش کیلئے بڑی ہی نشانیاں ہیں
کائنات کے ذرہ ذرہ میں توحید الٰہی کے نشانات موجود ہیں : ذوق نے کیا ہی عجیب کہا کہ : گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں میں ہے زیب اختلاف سے چنانچہ اسی زیر نظر آیت میں قرآن کریم رات اور دن کے اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر غور کرو تو اس اختلاف میں حکمت الٰہی کی کتنی ہی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ یہ بات کہ شب و روز کی آمدورفت کی دومختلف حالتیں ٹھہرا دی گئی ہیں اور وقت کی نوعیت ہر معین مقدار کے بعد بدلتی رہتی ہے زندگی کے زندگی کے لئے بڑی ہی تسکین و دل بستگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور قوت ہمیشہ ایک ہی حلت پر برقرار رہتا تو دنیا میں زندہ رہنادشوار ہوجاتا۔ اگر قطبین کے اطراف میں جائوجہاں روز و شب کا اختلاف اپنی نمود نہیں رکھتا تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ اختلاف گزران حیات کے لئے کیسی عظیم الشان نعمت ہے اس لئے اشارہ فرمایا ” آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب عقل و دانش کیلئے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ “ رات اور دن کے اختلاف نے معیشت کو دور مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان کی روشنی ، جدوجہد کی سرگرمی پیدا کرتی ہے۔ رات کی راری کی راحت و سکون کا بستر بچھا دیتی ہے۔ ہر دن کی محنت کی بعد رات کا سکون ہوتا ہے اور ہر رات کے سکون کے بعد نئے دن کی نئی سر گرمی اور یہی وہ رحمت الٰہی ہے جس کو خود قرآن کریم نے بھی ذکر فرمایا ہے۔ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن (القصص : 28:73) ” اور دیکھو یہ اس کی رحمت کی کار سازی ہے کہ تمہارے لئے رات اور دن الگ الگ ٹھہرا دیئے گئے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو۔ “ یعنی کاروبار معیشت میں سرگرم رہو۔ پھر رات اور دن کا اختلاف صرف رات اور دن ہی کا اختلاف ہمارے احساسات کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تبدل و تجرد کی لذت و سرگرمی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ یہی بات قرآن کریم کی اس آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے : فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ موَ لَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ (الروم : 30:18) ” پس پاکیزگی ہے اللہ کے لئے اور آسمان و زمین میں اس کے لئے ستائش ہے یعنی ہر قسم کی اچھی تعریف جبکہ تم پر شام آتی ہے ، جب تم پر صبح ہوتی ہے ، جب دن کا آخر وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر آتی ہے۔ “ اسی طرح انسان خود اپنے وجود کو دیکھے اور تمام حیوانات کو دیکھے کہ فطرت نے کس طرح طرح کے اختلافات سے اس میں تنوع اور دل پذیری پیدا کردی ہے ؟ چناچہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے : وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ (فاطر : 35:28) ” اور انسان ، جانور ، چارپائے طرح طرح کی رنگتوں کے۔ “ پھر عالم نباتات میں دیکھو۔ درختوں کے مختلف ڈیل و ڈول ہیں ، مختلف رنگتیں ہیں ، مختلف خوشبوئیں ہیں ، مختلف خواص ہیں اور پھر دانہ اور پھل کھاؤ تو مختلف قسم کے ذائقے ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی اس طرح ہوا ” کیا ان لوگوں نے کبھی زمین پر نظر نہیں ڈالی اور غور نہیں کیا کہ ہم نے نباتات ہر دو دو بہتر قسموں میں سے کتنے بیشمار درخت پیدا کردیئے ہیں۔ “ (26:7) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور دیکھو اللہ نے جو پیداوار مختلف رنگتوں کی تمہارے لئے زمین میں پھیلا دی ہے سوا اس میں بھی عبرت پذیر طبعتوں کے لئے حکمت الٰہی کی بڑی ہی نشانی ہے۔ “ (16:13) ” اور وہ حکیم و قدیر جس نے طرح طرح کے باغ پیدا کردیئے۔ ٹہنیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور طرح طرح کی کھیتیاں جن کے دانے اور پھل کھانے میں مختلف ذائقے رکھتے ہیں۔ “ (6:141) پھر حیوانات اور نباتات ہی پر موقوف نہیں جمادات میں بھی یہی قانون فطرت کام کر رہا ہے۔ جس طرح ارشاد خداوندی ہے کہ ” پہاڑوں کو دیکھو ، گوناگوں رنگتوں کے ہیں کچھ سفید کچھ سرخ کچھ کالے کلوٹے۔ “ اس طرح ہر ایک چیز کے متعلق غور کرتے جاؤ تو یقینا تم کو ایک ایک ذرہ میں اللہ کی توحید و وحدانیت کے دلائل نظر آتے جائیں گے لیکن آخر عقل و فکر سے کام لینا تو تمہارا ہی کام ہے اگر تم اس پر تالا لگا دو گے تو پھر غور و فکر کس طرح کرو گے ؟ جو لوگ عقل و فکر پر تالا لگانے کا حکم صادر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ دین عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا ان سے پوچھ کر بتا دو ؟ لیکن اس کا جواب دے گا کون اور کیسے ؟ کیونکہ جواب بھی تو عقل کا تقاضا کرتا ہے اور اس پر ہے ” تالا “ ہاں ! جب ضرورت ہوئی تو تالا کھول لیا اور جب چاہا تالا بند کردیا۔ اگر بات اس طرح ہے تو ہٹ دھرمی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہر حال میں اللہ کی یاد رکھنے والے ہی صاحب عقل و دانش ہیں : 347: پچھلی آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ کی توحید و وحدانیت کے نشانات ان ہی لوگوں کو نظر آتے ہیں جو صاحب عقل و فکر ہیں اور اس آیت میں اس بات کی وضاحت فرما دی کہ صاحب عقل و دانش کون لوگ ہیں ؟ کیونکہ ساری دنیا عقل مند ہونے کی مدعی ہے کوئی بیوقوف بھی اپنے آپ کو بےعقل تسلیم نہیں کرتا اور اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دین عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اگر یہ مال لیا جاتا کہ دین عقل سے سمجھا جاتا ہے تو پھر عقل مند لوگوں اور بیوقوفوں کی پہچان ہوجاتی اور اس طرح نہ معلوم کس کس کا نقصان ہوتا اس لئے یہاں لا کر رسی کاٹ دی گئی اور دین کو ایک جھمیلا بنا کر ریکھ دیا گیا۔ بہر حال قرآن کریم نے عقل والوں کی مند علامات بتلائی ہیں جو درحقیقت عقل کا صحیح معیار ہیں۔ ان علامات میں سے پہلی علامت اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ غور کیجئے کہ محسوسات کا علم کان ، آنکھ ناک اور زبان وغیرہ جو بےعقل جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے اور عقل کا کام یہ ہے کہ وہ علامات و قرائن اور دلائل کے ذریعہ کسی ایسے نتیجہ تک پہنچ جائے جو محسوس نہیں ہے اور جس کے ذریعہ سلسلہ اسباب کی اس آخری کڑی کو تلاش کیا جاسکے اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کائنات عالم پر غور کیجئے آسمان اور زمین اور ان میں سمائی ہوئی تمام مخلوقات اور ان کی چھوٹی بڑی چیزوں کا مستحکم اور حیرت انگیز نظام عقل کو کسی ایسی ہستی کا پتہ دیتا ہے جو علم و حکمت اور قوت وقدرت کے اعتبار سے سب سے بالاتر ہے اور جس نے ان تمام چیزوں کو خاص حکمت سے بنایا ہے اور جس کے ارادہ اور مشیت سے یہ سارا نظام چل رہا ہے اور وہ ہستی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے۔ کسی نے کیا عجب کہا ہے : ہر گیا ہے کہ زمین روید وحدہ لا شریک گوید انسان ارادوں اور ندبیروں کے فیل ہونے کا ہر جگہ اور ہر وقت مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ اس کو اس نظام کا چلانے والا نہیں کہا جاسکتا اس لئے آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں پیدا ہونے والی مخلوقات کی پیدائش میں غور و فکر کرنے کا نتیجہ عقل کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت و ذکر ہے جو اس سے غافل ہے وہ عقل مند کہلانے کا مستحق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جو دوسرے حیوانوں سے جن کے پاس ظاہری لحاظ سے کان ، ناک ، آنکھ اور زبان سب کچھ ہے لیکن غور و فکر نہیں جس کو حقیقت میں عقل کہا جاتا ہے اس لئے اس جگہ عقل والوں کی یہ علامت بتائی گئی اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیِامًاوَّقُعُوْدًا وَّعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ ” یعنی عقل والے وہ لوگ ہیں جو کسی حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے کھڑے ہوں ، بیٹھے ہوں یا لیٹے ہوں جن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آسمان و زمین کی خلقت میں غور کرتے ہیں۔ ذکر کیا ہے ؟ یہی ہے کہ اللہ کی یاد سے دل کبھی خالی نہ ہو۔ اللہ کی یاد سے دل کب خالی ہوجاتا ہے ؟ جب غور و فکر اور تدبر کرنا وہ چھوڑ دے۔ غور و فکر کیا ہے ؟ یہ کہ آسمان و زمین کی خلقت اور کائنات فطرت کے حوادث و مظاہر پر نظر کر کے یہ معلوم کرنا کہ ان کا بنانے والا کون ہے ؟ اور ان میں یہ خاصیتیں کس نے بھردی ہیں ؟ اس طرح سے وہ آخری سبب یا علت العلل تک پہنچ گیا تو گویا اس کو مقصود حاصل ہوگیا کیونکہ آخری سبب اور آخری علامت اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ پر اس طرح سے ایمان لانے والے کا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوتا۔ وہ ہر اس شے سے مضبوط ہوگا جس کو اللہ نے تخلیق کیا۔ اور اس ایمان والا جو کام کرے گا ہو صحیح کرے گا غلط کے قریب بھی نہیں جائے گا اور جو کچھ کرے گا بےخوف و خطر کرے گا۔ اس لئے کہ اس کے نزدیک دنے کی کوئی شے اس سے زندگی نہیں لے سکتی جب تک اس کو اللہ نہ لینا چاہے اور جب اللہ ہی لینا چاہے تو آخر وہ اس کو رکھے گا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جان گیا ہے کہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جو سارے سیوں کا آخری سبب ہے۔ اسی بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ مثال یوں سمجھئے کہ ایک جنگل کا رہنے والا یعنی جنگلی آدمی جو کچھ بھی لکھا پڑھا نہیں کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتا ہے کہ ریل جیسی عظیم الشان سواری ایک سرخ جھنڈی کے دکھانے سے رک جاتی ہے اور سبز کے دکھانے سے چلنے لگتی ہے اس بات کو وہ مشاہدہ کرتا ہے ایک بار چاہے دس بار تو وہ یہ کہتا ہے کہ یہ سرخ جھنڈی اور سبز جھنڈی بڑی پاور رکھتی ہے کہ اتنے طاقت والے انجن کو روک دیتی ہے اور چلا دیتی ہے تو ایک علم و عقل والا ہے جو اس کو کہتا ہے کہ طاقت ان جھنڈیوں میں نہیں بلکہ اس گارڈ کے پاس ہے جس کے ہاتھ میں وہ جھنڈیاں ہیں اس کی یہ بات سن کر ایک اور علم و عقل والا اٹھتا ہے وہ اس کو کہتا ہے کہ نہیں طاقت اس کے پاس نہیں ہے جس کے ہاتھ میں جھنڈیاں ہیں بلکہ طاقتور تو وہ ہے جو انجن چلا رہا ہے کیونکہ اگر وہ گاڑی چلانا چھوڑ دے گا تو گاڑی کی جھنڈی کے کرے گی یہ بات سن کر ایک اور علم و عقل والا بولتا ہے کہ انجن ڈرائیور کو بھی پاور یا طاقت کا مالک سمجھنا جہالت ہے کیونکہ در حقیقت اس کی طاقت کو انجن میں کوئی دخل نہیں بلکہ طاقت تو ساری انجن کے اپنے کل پرزوں میں ہے اور ان کا اس طرح جوڑ جوڑ دینے میں اور وہ بہت خوش ہے کہ میں بڑا عقلمند ہوں کہ میں نے پہلواں کی غلطی ثابت کردی ہے لیکن یہ بات سن کر ایک عقل و علم والا اٹھتا ہے ہو کہتا ہے کہ نہیں تیری بات صحیح نہیں ہے بلکہ ان بےحس کل پرزوں میں تو کچھ بھی نہیں بلکہ اصل طاقت تو اس بھاپ اور اسٹیم کی ہے جو انجن کے اندر آگ اور پانی کے ذریعہ پیدا کی گئی ہے اور یہ اپنے اس بیان کی وجہ سے حکیم اور فلا سفر کہلاتا ہے اور ایک زبان میں سائنس دان لیکن حکمت و فلسفہ اس جگہ پہنچ کر تھک جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں تفکر و تدبر کرنے والے یعنی انبیائے کرام فرماتے ہیں کہ اے ظالم اس طرح بھاپ اور سٹیم کو طاقت کا مالک سمجھنا بھی تیری غلطی ہے اپنے اس فلسفہ سے ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھ کہ اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا تیرے ہاتھ آجائے اور سلسلہ اسباب کی آخری کڑی تک تیری رسائی ہوجائے کہ دراصل ان ساری طاقتوں و پاوروں کا مالک وہ ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے اور ان کا جوڑ جوڑنے والے کو عقل دی جس سے اس نے اس جوڑ کو جوڑا اور یہ اسٹیم تیار ہوئی۔ اس تفضیل سے آپ نے یقینا معلوم کرلیا ہوگا کہ عقل والے کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو صحیح معنوں میں پہچانیں اور ہر وقت اور ہر حالت میں اس کو یاد کرلیں اس لئے اولی الباب کی صفت قرآن کریم نے یہ بتائی کہ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیِامًاوَّقُعُوْدًا وَّعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ ” جو لوگ کھڑے بیٹھے اور لیٹے کسی حال میں بھی اللہ کی یاد میں غافل نہیں ہوتے اور جن کا شیوہ یہ ہے کہ وہ آسمان و زمین کی خلقت میں غور کرتے ہیں “ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰووَاتِ وَالْاَرْضِ ۔
Top