Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب عقل و دانش کیلئے بڑی ہی نشانیاں ہیں
کائنات کے ذرہ ذرہ میں توحید الٰہی کے نشانات موجود ہیں : ذوق نے کیا ہی عجیب کہا کہ : گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں میں ہے زیب اختلاف سے چنانچہ اسی زیر نظر آیت میں قرآن کریم رات اور دن کے اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر غور کرو تو اس اختلاف میں حکمت الٰہی کی کتنی ہی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ یہ بات کہ شب و روز کی آمدورفت کی دومختلف حالتیں ٹھہرا دی گئی ہیں اور وقت کی نوعیت ہر معین مقدار کے بعد بدلتی رہتی ہے زندگی کے زندگی کے لئے بڑی ہی تسکین و دل بستگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور قوت ہمیشہ ایک ہی حلت پر برقرار رہتا تو دنیا میں زندہ رہنادشوار ہوجاتا۔ اگر قطبین کے اطراف میں جائوجہاں روز و شب کا اختلاف اپنی نمود نہیں رکھتا تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ اختلاف گزران حیات کے لئے کیسی عظیم الشان نعمت ہے اس لئے اشارہ فرمایا ” آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب عقل و دانش کیلئے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ “ رات اور دن کے اختلاف نے معیشت کو دور مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان کی روشنی ، جدوجہد کی سرگرمی پیدا کرتی ہے۔ رات کی راری کی راحت و سکون کا بستر بچھا دیتی ہے۔ ہر دن کی محنت کی بعد رات کا سکون ہوتا ہے اور ہر رات کے سکون کے بعد نئے دن کی نئی سر گرمی اور یہی وہ رحمت الٰہی ہے جس کو خود قرآن کریم نے بھی ذکر فرمایا ہے۔ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن (القصص : 28:73) ” اور دیکھو یہ اس کی رحمت کی کار سازی ہے کہ تمہارے لئے رات اور دن الگ الگ ٹھہرا دیئے گئے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو۔ “ یعنی کاروبار معیشت میں سرگرم رہو۔ پھر رات اور دن کا اختلاف صرف رات اور دن ہی کا اختلاف ہمارے احساسات کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تبدل و تجرد کی لذت و سرگرمی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ یہی بات قرآن کریم کی اس آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے : فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ موَ لَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ (الروم : 30:18) ” پس پاکیزگی ہے اللہ کے لئے اور آسمان و زمین میں اس کے لئے ستائش ہے یعنی ہر قسم کی اچھی تعریف جبکہ تم پر شام آتی ہے ، جب تم پر صبح ہوتی ہے ، جب دن کا آخر وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر آتی ہے۔ “ اسی طرح انسان خود اپنے وجود کو دیکھے اور تمام حیوانات کو دیکھے کہ فطرت نے کس طرح طرح کے اختلافات سے اس میں تنوع اور دل پذیری پیدا کردی ہے ؟ چناچہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے : وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ (فاطر : 35:28) ” اور انسان ، جانور ، چارپائے طرح طرح کی رنگتوں کے۔ “ پھر عالم نباتات میں دیکھو۔ درختوں کے مختلف ڈیل و ڈول ہیں ، مختلف رنگتیں ہیں ، مختلف خوشبوئیں ہیں ، مختلف خواص ہیں اور پھر دانہ اور پھل کھاؤ تو مختلف قسم کے ذائقے ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی اس طرح ہوا ” کیا ان لوگوں نے کبھی زمین پر نظر نہیں ڈالی اور غور نہیں کیا کہ ہم نے نباتات ہر دو دو بہتر قسموں میں سے کتنے بیشمار درخت پیدا کردیئے ہیں۔ “ (26:7) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور دیکھو اللہ نے جو پیداوار مختلف رنگتوں کی تمہارے لئے زمین میں پھیلا دی ہے سوا اس میں بھی عبرت پذیر طبعتوں کے لئے حکمت الٰہی کی بڑی ہی نشانی ہے۔ “ (16:13) ” اور وہ حکیم و قدیر جس نے طرح طرح کے باغ پیدا کردیئے۔ ٹہنیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور طرح طرح کی کھیتیاں جن کے دانے اور پھل کھانے میں مختلف ذائقے رکھتے ہیں۔ “ (6:141) پھر حیوانات اور نباتات ہی پر موقوف نہیں جمادات میں بھی یہی قانون فطرت کام کر رہا ہے۔ جس طرح ارشاد خداوندی ہے کہ ” پہاڑوں کو دیکھو ، گوناگوں رنگتوں کے ہیں کچھ سفید کچھ سرخ کچھ کالے کلوٹے۔ “ اس طرح ہر ایک چیز کے متعلق غور کرتے جاؤ تو یقینا تم کو ایک ایک ذرہ میں اللہ کی توحید و وحدانیت کے دلائل نظر آتے جائیں گے لیکن آخر عقل و فکر سے کام لینا تو تمہارا ہی کام ہے اگر تم اس پر تالا لگا دو گے تو پھر غور و فکر کس طرح کرو گے ؟ جو لوگ عقل و فکر پر تالا لگانے کا حکم صادر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ دین عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا ان سے پوچھ کر بتا دو ؟ لیکن اس کا جواب دے گا کون اور کیسے ؟ کیونکہ جواب بھی تو عقل کا تقاضا کرتا ہے اور اس پر ہے ” تالا “ ہاں ! جب ضرورت ہوئی تو تالا کھول لیا اور جب چاہا تالا بند کردیا۔ اگر بات اس طرح ہے تو ہٹ دھرمی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہر حال میں اللہ کی یاد رکھنے والے ہی صاحب عقل و دانش ہیں : 347: پچھلی آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ کی توحید و وحدانیت کے نشانات ان ہی لوگوں کو نظر آتے ہیں جو صاحب عقل و فکر ہیں اور اس آیت میں اس بات کی وضاحت فرما دی کہ صاحب عقل و دانش کون لوگ ہیں ؟ کیونکہ ساری دنیا عقل مند ہونے کی مدعی ہے کوئی بیوقوف بھی اپنے آپ کو بےعقل تسلیم نہیں کرتا اور اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دین عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اگر یہ مال لیا جاتا کہ دین عقل سے سمجھا جاتا ہے تو پھر عقل مند لوگوں اور بیوقوفوں کی پہچان ہوجاتی اور اس طرح نہ معلوم کس کس کا نقصان ہوتا اس لئے یہاں لا کر رسی کاٹ دی گئی اور دین کو ایک جھمیلا بنا کر ریکھ دیا گیا۔ بہر حال قرآن کریم نے عقل والوں کی مند علامات بتلائی ہیں جو درحقیقت عقل کا صحیح معیار ہیں۔ ان علامات میں سے پہلی علامت اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ غور کیجئے کہ محسوسات کا علم کان ، آنکھ ناک اور زبان وغیرہ جو بےعقل جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے اور عقل کا کام یہ ہے کہ وہ علامات و قرائن اور دلائل کے ذریعہ کسی ایسے نتیجہ تک پہنچ جائے جو محسوس نہیں ہے اور جس کے ذریعہ سلسلہ اسباب کی اس آخری کڑی کو تلاش کیا جاسکے اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کائنات عالم پر غور کیجئے آسمان اور زمین اور ان میں سمائی ہوئی تمام مخلوقات اور ان کی چھوٹی بڑی چیزوں کا مستحکم اور حیرت انگیز نظام عقل کو کسی ایسی ہستی کا پتہ دیتا ہے جو علم و حکمت اور قوت وقدرت کے اعتبار سے سب سے بالاتر ہے اور جس نے ان تمام چیزوں کو خاص حکمت سے بنایا ہے اور جس کے ارادہ اور مشیت سے یہ سارا نظام چل رہا ہے اور وہ ہستی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے۔ کسی نے کیا عجب کہا ہے : ہر گیا ہے کہ زمین روید وحدہ لا شریک گوید انسان ارادوں اور ندبیروں کے فیل ہونے کا ہر جگہ اور ہر وقت مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ اس کو اس نظام کا چلانے والا نہیں کہا جاسکتا اس لئے آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں پیدا ہونے والی مخلوقات کی پیدائش میں غور و فکر کرنے کا نتیجہ عقل کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت و ذکر ہے جو اس سے غافل ہے وہ عقل مند کہلانے کا مستحق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جو دوسرے حیوانوں سے جن کے پاس ظاہری لحاظ سے کان ، ناک ، آنکھ اور زبان سب کچھ ہے لیکن غور و فکر نہیں جس کو حقیقت میں عقل کہا جاتا ہے اس لئے اس جگہ عقل والوں کی یہ علامت بتائی گئی اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیِامًاوَّقُعُوْدًا وَّعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ ” یعنی عقل والے وہ لوگ ہیں جو کسی حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے کھڑے ہوں ، بیٹھے ہوں یا لیٹے ہوں جن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آسمان و زمین کی خلقت میں غور کرتے ہیں۔ ذکر کیا ہے ؟ یہی ہے کہ اللہ کی یاد سے دل کبھی خالی نہ ہو۔ اللہ کی یاد سے دل کب خالی ہوجاتا ہے ؟ جب غور و فکر اور تدبر کرنا وہ چھوڑ دے۔ غور و فکر کیا ہے ؟ یہ کہ آسمان و زمین کی خلقت اور کائنات فطرت کے حوادث و مظاہر پر نظر کر کے یہ معلوم کرنا کہ ان کا بنانے والا کون ہے ؟ اور ان میں یہ خاصیتیں کس نے بھردی ہیں ؟ اس طرح سے وہ آخری سبب یا علت العلل تک پہنچ گیا تو گویا اس کو مقصود حاصل ہوگیا کیونکہ آخری سبب اور آخری علامت اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ پر اس طرح سے ایمان لانے والے کا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوتا۔ وہ ہر اس شے سے مضبوط ہوگا جس کو اللہ نے تخلیق کیا۔ اور اس ایمان والا جو کام کرے گا ہو صحیح کرے گا غلط کے قریب بھی نہیں جائے گا اور جو کچھ کرے گا بےخوف و خطر کرے گا۔ اس لئے کہ اس کے نزدیک دنے کی کوئی شے اس سے زندگی نہیں لے سکتی جب تک اس کو اللہ نہ لینا چاہے اور جب اللہ ہی لینا چاہے تو آخر وہ اس کو رکھے گا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جان گیا ہے کہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جو سارے سیوں کا آخری سبب ہے۔ اسی بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ مثال یوں سمجھئے کہ ایک جنگل کا رہنے والا یعنی جنگلی آدمی جو کچھ بھی لکھا پڑھا نہیں کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتا ہے کہ ریل جیسی عظیم الشان سواری ایک سرخ جھنڈی کے دکھانے سے رک جاتی ہے اور سبز کے دکھانے سے چلنے لگتی ہے اس بات کو وہ مشاہدہ کرتا ہے ایک بار چاہے دس بار تو وہ یہ کہتا ہے کہ یہ سرخ جھنڈی اور سبز جھنڈی بڑی پاور رکھتی ہے کہ اتنے طاقت والے انجن کو روک دیتی ہے اور چلا دیتی ہے تو ایک علم و عقل والا ہے جو اس کو کہتا ہے کہ طاقت ان جھنڈیوں میں نہیں بلکہ اس گارڈ کے پاس ہے جس کے ہاتھ میں وہ جھنڈیاں ہیں اس کی یہ بات سن کر ایک اور علم و عقل والا اٹھتا ہے وہ اس کو کہتا ہے کہ نہیں طاقت اس کے پاس نہیں ہے جس کے ہاتھ میں جھنڈیاں ہیں بلکہ طاقتور تو وہ ہے جو انجن چلا رہا ہے کیونکہ اگر وہ گاڑی چلانا چھوڑ دے گا تو گاڑی کی جھنڈی کے کرے گی یہ بات سن کر ایک اور علم و عقل والا بولتا ہے کہ انجن ڈرائیور کو بھی پاور یا طاقت کا مالک سمجھنا جہالت ہے کیونکہ در حقیقت اس کی طاقت کو انجن میں کوئی دخل نہیں بلکہ طاقت تو ساری انجن کے اپنے کل پرزوں میں ہے اور ان کا اس طرح جوڑ جوڑ دینے میں اور وہ بہت خوش ہے کہ میں بڑا عقلمند ہوں کہ میں نے پہلواں کی غلطی ثابت کردی ہے لیکن یہ بات سن کر ایک عقل و علم والا اٹھتا ہے ہو کہتا ہے کہ نہیں تیری بات صحیح نہیں ہے بلکہ ان بےحس کل پرزوں میں تو کچھ بھی نہیں بلکہ اصل طاقت تو اس بھاپ اور اسٹیم کی ہے جو انجن کے اندر آگ اور پانی کے ذریعہ پیدا کی گئی ہے اور یہ اپنے اس بیان کی وجہ سے حکیم اور فلا سفر کہلاتا ہے اور ایک زبان میں سائنس دان لیکن حکمت و فلسفہ اس جگہ پہنچ کر تھک جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں تفکر و تدبر کرنے والے یعنی انبیائے کرام فرماتے ہیں کہ اے ظالم اس طرح بھاپ اور سٹیم کو طاقت کا مالک سمجھنا بھی تیری غلطی ہے اپنے اس فلسفہ سے ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھ کہ اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا تیرے ہاتھ آجائے اور سلسلہ اسباب کی آخری کڑی تک تیری رسائی ہوجائے کہ دراصل ان ساری طاقتوں و پاوروں کا مالک وہ ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے اور ان کا جوڑ جوڑنے والے کو عقل دی جس سے اس نے اس جوڑ کو جوڑا اور یہ اسٹیم تیار ہوئی۔ اس تفضیل سے آپ نے یقینا معلوم کرلیا ہوگا کہ عقل والے کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو صحیح معنوں میں پہچانیں اور ہر وقت اور ہر حالت میں اس کو یاد کرلیں اس لئے اولی الباب کی صفت قرآن کریم نے یہ بتائی کہ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیِامًاوَّقُعُوْدًا وَّعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ ” جو لوگ کھڑے بیٹھے اور لیٹے کسی حال میں بھی اللہ کی یاد میں غافل نہیں ہوتے اور جن کا شیوہ یہ ہے کہ وہ آسمان و زمین کی خلقت میں غور کرتے ہیں “ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰووَاتِ وَالْاَرْضِ ۔
Top