Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 192
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو مَنْ : جو۔ جس تُدْخِلِ : داخل کیا النَّارَ : آگ (دوزخ) فَقَدْ : تو ضرور اَخْزَيْتَهٗ : تونے اس کو رسوا کیا وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ : کوئی اَنْصَارٍ : مددگار
اے ہمارے رب ! جو ایسا ہو ، کہ تو اسے دوزخ میں ڈالے تو بلاشبہ تو نے اسے رسوائی میں ڈالا اور ظلم کرنے والوں کیلئے کوئی مددگار نہیں ہو گا
اے ہمارے رب دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا جو دوزخ میں گیا وہ رسوا ہوگیا : 350: اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو آگ سے بچنے کی دعا سکھائی کیونکیہ آگ ہی قیامت کا بدترین عذاب ہے جس سے زیادہ بڑا اور زیادہ برا اور کوئی عذاب نہیں ہو سکتا۔ اور اگر غور کیا جائے تو آگ ہی اس دنیا میں انسان کے سارے امن اور اطمینان کو برباد کردیتی ہے۔ آخرت کی کامیابی بھی یہی ہے کہ انسان آگ سے بچے اور دنیا کی کامیابی بھی یہ ہے کہ انسان آگ سے بچے۔ وہ کتنے ہیں جو اس دنیا کی آگ میں جل رہے ہیں۔ اور پھر نکلنے کی صورت نظر نہیں آتی اور کتنے ہیں جو آخرت میں جلنے کے لئے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسوائی سے بچائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن منکرین کے لئے عذاب ہی عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” وہ ہماری کا انکار ہی کرتے رہے آخر کار ہم نے چند منحوص دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کا مز چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے وہاں کوئی ان کا مدد کرنے والا نہ ہوگا۔ “ (فصلت : 16:41) یہ ذلت و رسوائی کا عذاب ان کے اس کبر اور غرور کا جواب تھا جس کی بناء پر وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے۔ اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے ؟ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حلقے کو ہلاک کردیا اور ان کے قرن کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا اور ان کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا وہ دنیا کی انہی قوموں کے آگے ذلیل و خوار ہوا جن پر کبھی یہ لوگ اپنا زور جتاتے تھے۔ اور پھر یہ تو دنیا کی رسوائی تھی۔ لیکن آخرت کی رسوائی وہ اس سے بہت بڑی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا : ” اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف لے جانے کے لئے گھیر لئے جائیں گے اور ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا۔ پھر جب وہ سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ “ (فصلت : 20:41) اس لئے ایک سچے مسلمان کو اللہ سے یہ دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ ” اے ہمارے رب ! جس کے لئے ایسا ہو کہ تو اسے دوزخ میں ڈالے تو بلاشبہ تو نے اسے بڑی ہی رسوائی میں ڈالا اور یہ اس دن ہوگا جس روز ظلم کرنے والوں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ “ اس طرح گویا پہلی درخواست جہنم کے عذاب سے بچنے کے لئے ہے جو اس سے پہلی آیت میں کی گئی اور اس آیت میں یہ دوسری درخواست ہے کہ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے کیونکہ جن کو تو نے جہنم میں داخل کردیا اس کو سارے جہان کے سامنے رسوا کردیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دعا میدان حشر کے عذاب سے بچنے کے لئے تعلیم کی گئی ہو کیونکہ حشر کے اندر رسوائی ایک عذاب ہوگا کہ آدمی کو اہش کرے گا کہ کاش ! اسے جہنم میں ڈال دیا جائے اور اس کی بدکاریوں کا چرچا اہل محشر کے سامنے نہ وہ۔ اللہ کی پناہ۔
Top