Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ، ان کا عیش و آرام کے ساتھ ملکوں میں سیرو گردش کرنا تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے
کفر کی راہ چلنے والے آپ کے لیے دھوکہ کا باعث نہ ہوں : 359: یہ بات نبی اعظم و آخر ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے۔ یہ وقت وہ تھا کہ نبی رحمت ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی سب کے سب دنیوی زندگی کے اعتبار سے مالی کمزوریوں میں مبتلا تھے۔ مکی زندگی میں کار نبوت کی عظیم ذمہ داریوں کی وجہ سے تجارت تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی اور رہی سہی کسر ہجرت سے نکل گئی جو کچھ کسی کے پاس تھا وہ مکہ میں رہ گیا مدینہ پہنچنے کے بعد مہاجرین کے پاس تو پہلے ہی کچھ نہ تھا اب انصار کی باری آئی وہ اپنی طرف سے سب کچھ پیش کر رہے تھے لیکن مہاجرین میں سے قوت لا یموت اگر کسی نے کچھ لیا بھی تو اس کو واپسی کی فکر دامن گیر تھی۔ اس کے برعکس مدینہ اور مضافات مدینہ میں یہود کے سرداروں کے پاس بہت مال تھا اور دنیا کی ہر طرح کی آسائشوں اور آسانیوں سے زندگی بسر کر رہے تھے ایسی حالت میں اگرچہ صحابہ بالکل مطمئن اور پوری محنت و مشقت کی نزدگی گزار رہے تھے تاہم ان کی دلجوئی فرمائی جا رہی ہے کہ تم شکستہ خاطر نہ ہونا تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں اور رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ ان لوگوں کی مالی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے انہوں نے کمائی ہے اور کما رہے ہیں اور پھر اگر وہ اس حرام کمائی کو طرح طرح کے راستوں میں اڑا رہے ہیں تو آخرکار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔ اور یہی بات آپ ﷺ کو مکی زندگی میں بھی ارشاد فرمائی گئی تھی۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ ۔ اللہ تو اپنے قانون کے مطابق چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق کی حالت میں دیں۔ “ (التوبہ : 55:9) یعنی اس مال و دولت اور اہل و اولاد کے سبب اور اس دنیا کی ہو ہوا کی وجہ سے انہیں مرتے دم تک صدق ایمان کی توفیق نصیب نہ ہوگی اور اپنی دنیا خراب کرلینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ ان کی آخرت بھی خراب ہوچکی ہوگی کیونکہ وہاں جو کچھ ان کے حصے میں آئے گا وہ اس کا نتیجہ ہوگا جو وہ دنیا میں کرتے رہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (الحجر : 88:15) ” تم اس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے اور نہ ان کے حال پر اپنا دل کڑھاؤ ۔ انہیں چھوڑ کر ایمان والوں کی طرف جھک جاؤ ۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ وَ رِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی (طٰہٰ : 131:20) ” اور یہ جو مختلف قسم کے لوگوں کو دنیوی زندگی کی آرائشیں دے رکھی ہیں اور ان سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں تو تیری نگاہیں اس پر نہ جمیں یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالا ہے اور جو کچھ تیرے پروردگار کی بخشی ہوئی روزی ہے وہی تیرے لیے بہتر ہے اور باقی رہنے والی۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : فَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (الشوریٰ : 36" 42) ” جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ “ اس دنیا کا مال و متاع کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جائے۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہوجاتا ہے۔ پھر وہ دولت چاہے بہی کھاتوں میں کتنی بڑی دولت کیوں نہ ہو عملاً اس کا قلیل حصہ ہی آدمی کے کام آتا ہے۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنے اور اس مال و دولت کی اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُھَا وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (القصص : 60:28) ” تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ “ مزید تفصیل کے لیے دیکھو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 212 ۔
Top