Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 197
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ١۫ ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
مَتَاعٌ : فائدہ قَلِيْلٌ : تھوڑا ثُمَّ : پھر مَاْوٰىھُمْ : ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : دوزخ وَبِئْسَ : اور کتنا برا الْمِھَادُ : بچھونا ( آرام کرنا)
یہ تھوڑا سا فائدہ اٹھانا ہے بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ذرا خیال کرو کہ جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے
دنیا کا فائدہ ایک قلیل مدت کے لیے اور جہنم کا عذاب ابد الاباد ہے : 360: دنیا کی زندگی جو انسان کو ملی ہے وہ کتنی ہے ؟ فرض کرلیجئے کہ ایک سو سال پندرہ بیس سال تک انسان شعور کو پہنچتا ہے اور پچھتر اسی سال سے قبل ہی جوانی اور شعور جاتا رہتا ہے الا ما شاء اللہ اور درمیان کے پچاس ساٹھ سال ہیں کہ اگر اس کو ڈھیروں دولت مل گئی یا اس نے حاصل کرلی اور پھر جبھی آنکھیں بند ہوئیں وہ سارے خزانے گویا راکھ ہوگئے اور اب جو زندگی ملی وہ ایسی ہے جس کا کوئی آخر نہیں کیونکہ وہ خود ہی آخر ہے اور اس دنیا کو چھوڑنے والا کہاں گیا ؟ فرمایا یہ دنیا میں عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنے والا جو مال و دولت کے ان خزانوں پر ایسا مفتوں ہوچکا تھا کہ وہ عطا کرنے والے کو بالکل بھول ہی گیا تھا اس سانس کے منقطع ہوتے ہی جہنم رسید ہوگیا۔ اس لیے کہ عالم برزخ میں اس کو جو مقام نصیب ہوا وہ دوزخیوں کی جیل ہے لہٰذا اب اس کو اس جیل خانہ میں قید کردیا گیا اور اب اسے کوئی مائی کا لال نہیں دلا سکے گا اور یہ سارے ثواب کے ٹھیکیدار کتنی ہی فیسیں اس کے پچھلوں سے وصول کرلیں لیکن اس کی وکالت نہیں کرسکیں گے اور اس کو مسلسل جیل خانہ میں رکھ کر عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا اور حشر کا دن آنے تک اس قید میں سڑتا رہے گا اور پھر حشر ہوگا اور اس کو ابدی دوزخ کی سزا سنا دی جائے گی۔ اتنے بڑے عرصے کے عذاب کو اس چند روزہ زندگی کے ساتھ آخر کیا نسبت رہی ؟ اور آخر اس نے کتنا فائدہ اٹھا لیا ؟ قرآن کریم میں یہ مضمون اس تعداد میں بیان کیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی صفحہ اس سے خالی ملے۔ تاہم دو ، تین مقامات کو دیکھ لینا اس جگہ بھی مفید ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے : ” جو لوگ بدبخت و محروم ہوں گے وہ دوزخ میں ہوں گے ان کے لیے وہاں چیخنا چلانا ہوگا۔ وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ مگر ہاں ! اس صورت میں کہ تیرا پروردگار چاہے اور اس کے قانون میں ان کا وہاں رہنا ہمہشو ہمیشہ نہ ہو بلاشبہ تیرا پروردگار اپنے کاموں میں مختار ہے وہ جس طرح چاہتا ہے بالکل اسی طرح کرتا ہے۔ “ (ہود : 107 ۔ 106:11) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا تو ان کے لیے سر تا سر خوبی ہے لیکن جنہوں نے قبول نہیں کیا ان کے تمام اعمال رائیگاں جائیں گے اور اگر ان کے اعتبار میں کرہ ارض کی ساری دولت بھی آجائے اور پھر اسے دوگنا کردیا جائے تو یہ لوگ اپنے بدلہ میں ضرور اپنے فدیہ میں دے دیں کہ کسی طرح عذاب نامرادی سے بچاؤ مل جائے مگر انہیں ملنے والا نہیں یہی لوگ ہیں جن کے لیے حساب کی سختی ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جس کا ٹھکانہ جہنم ہوگیا اس کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہوا۔ “ (الرعد : 18:13) ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اصل یہ ہے کہ ان منکروں کی نگاہوں میں ان کی مکاریاں خوشنما بن گئیں اور وہ راہ حق میں قدم اٹھانے سے رک گئے اور جس پر اللہ کامیابی کی راہ بند کر دے تو کون ہے جو اسے راہ دکھانے والا ہو سکتا ہے ؟ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت میں بھی اور آخرت کا عذاب یقینا بہت ہی زیادہ سخت ہوگا اور کوئی نہیں جو انہیں اللہ کے قوانین کی اس پکڑ سے بچا سکے۔ “ (الرعد : 34 ۔ 33:13) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! کیا تم نے ان لوگوں کی حالت پر نظر نہیں کی جنہیں اللہ نے نعمت عطا فرمائی تھی مگر انہوں نے کفران نعمت سے اسے بدل ڈالا اور اپنے گروہ کو ہلاکت کے گھر میں جا اتارا ؟ یعنی دوزخ میں جا اتارا جس میں وہ داخل ہوں گے پھر جس کا ٹھکانہ دوزخ ہوا تو کیا ہی برا اس کا ٹھکانہ ہے۔ “ (ابراہیم : 29:14)
Top