Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ہمیشہ زندہ ہے وہ { القیوم } ہے
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں : 2: نادان لوگوں نے اپنی اپنی جگہ چاہے کتنے ہی الٰه اور معبود بنا رکھے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے جو کی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور صرف یہی نہیں کہ وہ بذتہ زندہ ہے بلکہ اس کے بل بوتے پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے۔ کوئی دوسرا خواہ وہ کوئی ہو ، نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے نہ اس کے اختیارات میں اور نہ ہی اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھہرا کر زمین و آسمان میں جہاں بھی کسی اور کو معبود یعنی الٰه بنایاجارہا ہے۔ سراسر ایک جھوٹ گھڑا جارہا ہے جس کا سر ہے نہ پاؤں بلکہ یہ حقیقت کے خلاف ایک جنگ لڑی جارہی ہے۔ اللہ وہ ذات ہے جس کو فنا وزوال نہی : 3: اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس کو فنا وزوال نہیں۔ ہرچیز اس سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔ اس کے حَییٌّ و قَیُّوْمٌ ہونے کا مقتضیٰ یہی تھا کہ انسان کی زندگی و قیام کی تمام احتیاجات مہیا کر دے۔ پھر ظاہر ہے کہ احتیاجات دو طرح کی ہیں۔ جسمانی اور روحانی اس نے جس طرح پہلی کا انتظام کیا اسی طرح دوسری کا بھی سروسامان کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے روحانی احتیاجات کے لیے انسان کو دو چیزیں دیں۔ ” اَلْكِتَابُ “ ” اَلْفُرْقَانُ “ ۔ ” اَلْكِتَابُ “ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو ہدایت وسعادت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ ” اَلْفُرْقَانُ “ جو ہر عقل ہے جو اسے سمجھتا اور قبول کرتا ہے۔ پہلی چیز تعلیم ہے اور دوسری کی استعداد کہا جاتا ہے۔ پہلی ہدایت کی قوت فاعلہ ہے اور دوسری قوت منفعلہ۔ ” اَلْحَییٌّ الْقَیُّوُمُ “ سے توحید کی عقلی دلیل بیان کی گئی ہے جس کی تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ عبادت نام ہے اپنے آپ کو کسی کے سامنے انتہائی عاجز و ذلیل کر کے پیش کرنے کا اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے وہ عزت و جبروت کے انتہائی مقام کا مالک ہو اور ہر اعتبار سے وہ کامل بھی ہو اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز خود اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکے اپنے وجود اور اس کی بقاء میں دوسروں کی محتاج ہو اس کا عزت و جبروت میں کیا مقام ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ جب دنیا میں جتنی چیزیں ہیں نہ خود اپنے وجود کی مالک ہیں اور نہ ہی خود اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہیں۔ وہ خواہ کون ہوں ؟ خواہ پتھر کے تراشیدہ بت ہوں یا وہ شخصیتیں جن کے یہ بت بنائے گئے۔ وہ پانی اور درخت ہوں یا فرشتے اور رسول ان میں سے کوئی ہے جو خود اپنے وجود کا مالک ہو ؟ کون ہے جو خود اپنے وجود کو قائم رکھ سکے ؟ نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر ان میں لائق عبادت بھی نہیں۔ لائق عبادت تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے زندہ اور موجود ہے اور ہمیشہ زندہ اور قائم رہے گی۔ وہ تو صرف اور صرف وہی ہے جس کو ہم ” اللہ “ کے نام سے پکارتے ہیں اور یاد کرتے ہیں۔ اس لیے اس کے سوا کوئی نہیں جو عبادت کا لائق ہو۔
Top