Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
ان لوگوں سے کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیر [ وی کرو ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ تمہاری خطائیں بخش دے گا وہ بخشنے ولا رحمت والا ہے
اللہ کی محبت سچے لوگوں کی پہچان قرآن کریم کی زبان میں : 79: اہل کتاب کی دونوں جماعتوں یعنی یہودونصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ہم اللہ کے محبوب ہیں اس لیے سب کچھ معاف ہے کیونکہ ہم انبیاء کرام کی اولاد ہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ (المائدہ 5 : 18) ” او دیکھو یہودی اور عیسائی کہتے ہیں ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کریں ہمارے لیے نجات ہی نجات ہے۔ “ ان کو ایک جواب تو یہ دیا گیا کہ تمہارے لیے نجات ہی نجات ہے تو دنیوی زدنگی میں تم کو عذاب دیا جاتا ہے اور خصوصاً جب تم کو دوسری قومیں دبا لیتی ہیں اور تمہارا تہس و نہس کردیتی ہیں تو اس وقت کیا تم اللہ کے محبوب نہیں رہتے اور مرنے کے بعد فوراً تم اللہ کو محبوب ہوجاؤ گے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ 1ؕ (المائدہ 5 : 18) ” اے پیغمبر اسلام ! تم کہه دو کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اللہ تمہاری بد عملیوں کی وجہ سے تمہیں وقتاً فوقتاً عذاب کیوں دیتا رہتا ہے۔ “ جس کا تمہیں خود بھی اعتراف ہے۔ اور تمہاری کتاب بھی خدا کے سرزنشوں اور چذابوں کی سرگزشتوں سے بھری ہوئی ہے ؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیدا کردہ انسانوں میں سے تم بھی انسان ہو اور انسانوں کی بخشش و نجات کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے نہ بخشے کیونکہ اس نے نجات پانے اور عذاب دیئے جانے کے لیے قانون بنا دیا ہے۔ پھر اس قانون میں تمہارے لیے یہ گنجائش کہاں سے نکل آگی کہ تم جو کچھ بھی کرو بس نجات یافتہ ہو۔ اگر تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو وہ لے کیوں نہیں آتے اس نجات کے پٹے کی تحریر کہاں ہے ؟ چنانچہ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے اور اپنے اس زعم کی بناء پر جو توقع رکھتے ہو کہ اللہ بھی تم سے محبت کرے گا تو اس کی صرف اور صرف ایک ہی صورت ہے کہ تم میری پیروی کرو۔ کیوں ؟ اس لیے کہ تمہاری اپنی کتابوں میں میرے رسول ہونے کی بشارات موجود ہیں اور یہ بھی کہ میری پیروی کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ اس راستے سے اللہ کی محبت کسی کو حاصل ہو یا اللہ کسی کو محبت کرنے لگے اور یہ بات بھی تمہاری اپنی مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر تم یہ نہیں کرتے یا اس بات کو سچا نہیں سمجھتے تو گویا اپنی ہی الٰہی کتابوں کی تکذیب کرتے ہو ؟ تم ہی بتاؤ کہ الٰہی کتابوں کی تکذیب کرنے والے اللہ کی نظر میں محبوب ہو سکتے ہیں ؟ کھرے اور کھوٹے کا معیار محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہی ہے : 80: محمد رسول اللہ ﷺ سے اعلان کرایا جارہا ہے کہ آپ فرما دیجیے ” میری پیروی کرو “ کیوں ؟ اس لیے کہ دنیا میں اب میں ہی جامع کمالات انساین بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میری زندگی ساری ائنات انسانی کے لیے دین کے کاموں میں معیار اور نمونہ کا کام دے گی۔ محبت الٰہی کے دعویٰ کی جانچ کے لیے کیا اچھا معیار بتادیا گیا یعنی اتباع رسول جو شخص جتنا زیادہ متبع رسول ہوگا اسی قدر اس کی محبت الٰہی مسلم و معتبر ہوگی۔ اس معیار پر صرف یہودو نصاریٰ ہی کو نہیں پوری دنیا کے انسانوں کو بشمول مسلمان کہلانے والوں کو پرکھا جائے گا۔ کون اس پر پورا اترتا ہے اور کون نہیں ارتا یہ بات صرف دعویٰ سے ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے معیار اور کسوٹی رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہے۔ گویا کھرے اور کھوٹے کے لیے اس کسوٹی پر پر کھا جائے گا۔ اگر خالی دعویٰ کی بات ہو تو وہ تو یہودونصاریٰ کو بھی ہ۔ لیکن اگر اس معیار پر آج بڑے بڑے مدعیان میشخیت اور مدعیان محبت الٰہی اور عشاقان رسول کے ناموں سے یاد کیے جانے والوں کو جانچیے تو بہتوں کی کلی کھل جائے گی اور سارے دعویٰ دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ان خالی برتنوں کی طرح بولنے والوں کو اپنا اندازہ خود لگا لینا ہی بہتر ہے تاکہ وہاں رسوائی نہ جہاں ساری وپشیدہ چیزیں ظاہر ہوجائیں گی۔ رسول اللہ ﷺ کی پیروی سے اللہ کی محبت حاصل ہوگی : 81: اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا کیونکہ اس کے آگے اور کوئی درجہ کمال نہیں۔ یہ طریقہ جو پچھلوں کو بتایا گیا یعنی یہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی ہی سے اللہ کی محبت حاصل ہوگی یہی آواز اگلوں کے کان می ڈال دی ﴾گئی ہے۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے جو الفاظ اناجیل مروجہ میں نقل ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ ” اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو اور میں باپ سے درخواست کروں گا وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ “ (یوحنا 14 : 15۔ 16) یہ مددگارکا لفظ اردو انجیلوں کے متن میں ہے اور حاشیہ پر وکیل اور شافع دونوں لفظ درج ہیں گویا اصل لفظ یونانی کے یہ سب معنی ہو سکتے ہیں اور انگریزی انجیل میں لفظ ” کمفارٹر “ (Comfortar) آیا ہے جس کے معنی تسلی دہندہ کے ہیں تو چوتھا مفہوم اس لفظ کا یہ ہوا۔ بہرحال وہ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ سب کا مددگار یعنی دین الٰہی کی طرف دعوت دینے والا اور وکیل اور شافع اور تسلی دہندہ اس پیشین گوئی کرنے والے رسول یعنی مسیح (علیہ السلام) کے پانچ صدی بعد آیا اور ایک ابدی اور غیر منسوخ شریعت لے کر ابد تک من حیث النبوة ساتھ رہنے ہی کے لیے آیا۔ گویا جب تک یہ دنیا کا نظام قائم ہے رسالت محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی ہے اور آپ ﷺ ہی کی رہے گی اس لیے آپ ﷺ نبی اعظم و آخر قرار پائے۔ وہ نبی آخر الزمان تشریف لائے پر صلیب کے پرستاروں اور مسیح کو اللہ ، اللہ کا بیٹا یا اللہ کا تیسرا جزء قرار دینے والوں نے اللہ کو چھوڑ کر مسیح کی عبادت شروع کردی اور اس آخر الزمان نبی ﷺ کو جھٹلانا شروع کردیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ خود جھوٹے قرار پائے۔ ” یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ “ اللہ کی محبت بند کے ساتھ کیا ہے ؟ یہی ہے کہ اسے یعنی اپنے بندہ کے گناہ معاف فرما دے اور اسے مغفرت سے سرفراز فرما دے اور یہی بات اللہ نے ارشاد فرمائی۔ اللہ کی بخشش اور اللہ کا پیار کرنا یہی ہے کہ وہ بندہ کے گناہ معاف فرما دے : 82: اللہ ” الغفور “ بھی ہے اور ” الغفار “ بھی ” غفور “ بمعنی غفارہی ہے لیکن غفور میں ایک طرح کا مبالغہ پایا جاتا ہے۔ غفار میں بالحاظ مغفرت کے مبالغہ پایاجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار مغفرت فرماتا ہے اور غفور سے مراد نام الغفران ہے کہ انتہائی سے انتہائی مغفرت کا درجہ عطا فرماتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ کے بندوں سے ان کی بےاعتدالیوں پر عفو و درگزر کرے اور ان کی قصور معاف کردیا کرے۔ یہ اس کے حق میں بہتر ہوگا کہ جب وہ اللہ سے مفغرت طلب کرے گا تو اس کو فوراً معاف کردیاجائے گا کیونکہ اس نے اس کے بندوں سے بھی درگزر کیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” اعلان کردو کہ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں۔ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو بالیقین اللہ تعالیٰ تو سب کے گناہ بخش دیتا ہے کہ اسکی بخشش قانون عام ہے کیونکہ وہ واقعی بڑا بخشنے والابہت ہی پیار کرنے والا ہے۔ “ (الزمر 39 : 53) پھر وہ اللہ تعالیٰ ” الرحیم “ بھی ہے نہایت ہی رحم کرنے والا یعنی پیار کرنے والا۔ رحمت سے مراد یہ ہے کہ محتاجوں سے بھلائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کون ہے وہ جو محتاج نہیں۔ ساری مخلوق اللہ کے سامنے محتاج ہے اور محتاجوں سے بھلائی اس کا اپنا حکم ہے اور یہ بھی کہ اللہ کی رحمت دنیا اور آخرت کی نعمتوں پر شامل ہے اور یہ محض اس کی عنایت ہے جس میں کوئی غرض اور کسی معاوضہ کا خیال نہیں ہے۔ جب انسان کو معلوم ہوگیا کہ سری نعمتوں کا منعم حقیقی فقط وہی ہے تو اس کا فرض ہے کہ اسی پر توکل کرے کسی دوسرے سے مدد نہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر رحم کھائے جہاں تک ہو سکے محتاجوں کی حاجت روائی کرے اور اس خدمت میں سوائے نیکی کے ارادے کے کسی معاوضہ کا خیال نہ کرے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” مسلمان تو آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے الے ہوتے ہیں۔ “ (الفتح 48 : 29) ” مانگنے اور نہ مانگنے الے حاجت مندوں کے لیے اپنے مال میں سے حصہ بطور ان کے حق کے نکالتے ہیں۔ “ (ق 50 : 12) ” اللہ تعالیٰ کی محبت سے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو محض رضائے الٰہی کے لیے کھانا پیش کرتے ہیں اور ان کی طرف سے کسی قسم کا بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔ “ (الدھر 76 : 8 ، 9) زیرنظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ دونوں صفات یکجا کردیں تاکہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے والے اچھی طرح جان لیں کہ اللہ یقیناً ان کی تقصیروں کو نظر انداز کر دے گا اور ان کے مراتب قرب میں ذرا بھی کمی نہیں فرمائے گا۔
Top