Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 32
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ١ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَطِيْعُوا : تم اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں دوست رکھتا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
تم کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پھر اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کفر کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
نبی اعظم و آخر ﷺ کی اہمیت : 83: رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے عامة الناس کو مخاطب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو کیونکہ اللہ ہی کی اطاعت اصامة اور بطور مقصود ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرو جو تبعاً ” ونیابتہ “ بطورآلہ و واسطہ کے ہے۔ یعنی اس حیثیت سے کہ پیغمبر ﷺ اللہ ہی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اس سے یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہو گئی کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی شخصیت کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ” مقرون “ کردیا ہے یعنی خدا کی اطاعت اور رسول کریم ﷺ کی اطاعت کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اہمیت کو بڑھانے کی غرض سے ہے۔ کیا اس اہمیت پر زور دینے کا مقصد صرف اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیا کریں تو تم ان کی اطاعت کرلیا کرو ؟ کیوں کہ اس کے لیے تو صرف ” اطیعوا اللہ “ ہی کافی تھا اور اس کے ساتھ ” اطیعوا الرسول “ کے الفاظ کو بڑھا دینا لا حاصل تکرار ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے ” اطیعوا اللہ و اطیعوالرسول “ کے الفاظ قرآن کریم اور حدیث رسول ﷺ میں بار بار دہرائے گئے ہیں۔ نہیں بلکہ خود قرآن کریم نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی اطاعت کرنا ہی اللہ کی اطاعت کرنا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : ” مَنْ یُّطْعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه ‘ ‘ ” جس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ ہی کی اطاعت کی۔ “ اللہ کی اطاعت تب ہی ممکن ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی جائے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مثال پر غور کرو بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے گی۔ انشاء اللہ۔ نبی اعظم و آخر ﷺ حدیبیہ کے مقام پر مؤمنین کو مخاطب کر کے ارشاد فرماتے ہیں کہ حالات ایسے پیدا ہوگئے ہیں کہهم کو مر مٹنے کے لیے آمادہ ہوجانا چاہیے یعنی ہم سب کو یہاں مرنا چاہیے یا کامیاب ہو کر واپس لوٹنا چاہیے۔ اس غرض کے لیے صحابہ کرام ] نے رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق آپ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت علی الموت کی جس سے آپ ﷺ کا دل باغ باغ ہوگیا اور صحابہ ؓ کی اس اطاعت رسول ﷺ اور اس بیعت الی الموت پر اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوا اور فرمایا : لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (الفتح 48 : 18) ” بلاشبہ اللہ ان مؤمنوں سے راضی ہوگیا جو درخت کے نیچے آپ ﷺ سے بیعت کر رہے تھے۔ “ اللہ رب العزت ان مؤمنین کو اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے بیعت علی الموت کی۔ اللہ نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور اس پر اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے۔ بس یہی معنی ہیں ” اطیعوا الرسول “ کے۔ اس جگہ ان لوگوں کو مزید غور کرنا چاہیے جو ” حدیث رسول “ کو کوئی مقام دینے کے لیے تیار نہیں کہ اگر حدیث رسول خاکم بدہن کوئی چیز نہیں تو پھر قرآن کریم کیا ہے ؟ اور یہ کہ اگر کھرا اور کھوٹا مل جائے تو کھرے کو بھی چھوڑ دینا عقل مندی کی دلیل ہے ؟ اگر نہیں تو پھر تم بھی علم کی بات کرو جہالت کی کیوں کرتے ہو ؟ یاد رکھو کہ اللہ کی اطاعت کرنا اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنا دو علیحدہ علیحدہ احکام الٰہی ہیں اگر ان کو اکٹھا کریں گے تو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار دی جاسکتی ہے کیوں ؟ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت ممکن ہی نہیں جب تک رسول کی اطاعت کا پٹا گلے میں نہ لٹکایا جائے۔ اس اجلال کی مزید تائید ذیل کے حکم سے ہوتی ہے فرمایا : ” وَتُعِزِّرُوْهُ وَتَوَقِّرُوْهُ “ نبی کریم ﷺ کی اطاعت کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ کی تعظیم و تکریم کو مدنظر رکھنا بھی ازبس ضروری ہے یہ نص صریح ہے جس کا رد کرنا قرآن کریم کے رد کرنے اور قرآن کریم جیسی کتاب نازل کرنے والے کے رد کردینے کے مترادف ہے۔ اس نص صریح کے خلاف یہ عقیدہ رکھنا کہ رسول کریم نعوذ باللہ محض ایک ڈاکیہ کی حیثیت رکھتے ہیں مستلزم کفر ہوگا۔ جب ڈاکیہ یا اردلی کوئی مراسلہ یا کوئی حکم لے کر آتا ہے تو اس ڈاکیہ یا اردلی کا اکرام ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ وہ مراسلہ جو پہنچایا جاتا ہے قابل احترام اور قابل توجہ ہوتا ہے اور اگر ڈاکیہ یا اردلی کا کوئی اکرام کیا بھی جائے تو وہ اس پیغام یا پروانہ سے کیا جائے گا۔ ہاں ! اگر اس طرح کا کوئی نام رکھنا ہی ہے تو آپ سفیر کہه سکتے ہیں ڈاکیہ یا اردلی نہیں۔ آج کون ہے جو سفیر کے مفہوم اور سفارت کے عہدہ کو نہ جانتا ہو ؟ اطاعت رسول ﷺ کی مزید وضاحت : 84: اس ہدایت کے باوجود اگر وہ روگرداں رہیں تو اللہ کافروں سے ذرا محبت نہیں رکھتا اور یہ لوگ کافر ہی تو ہیں جو اطاعت رسول ﷺ سے منہ موڑے ہوئے ہیں خواہ محبت الٰہی کے وعدے کیسے ہی ان کی زبانوں پر ہوں۔ اس کی مزید وضاحت قرآن کریم نے ایک تیسری اطاعت کا حکم دے کر فرما دی جیسا کہ ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ 1ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ 1ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا . (النسا 4 : 59) ” مسلمانو ! اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں حکم اور اختیاررکھتے ہوں ان کی اطاعت کرو۔ پھر اگر ایسا ہو کہ کسی معاملہ میں اس تیسری اطاعت میں باہم جھگڑا پڑجائے یعنی اختلاف و نزاع پیدا ہوجائے تو چاہیے کہ اسکو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اور جو کچھ وہاں سے فیصلہ ملے اسے تسلیم کرلو۔ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو تمہارے لیے راہ عمل یہی ہے اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اور اس میں انجام کار کی خوبی۔ “ جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اصل دین یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کریں ، اللہ کے رسول کی اطاعت کریں اور جو لوگ ان میں سے صاحب حکم و اختیار ہوں ان کی اطاعت کریں۔ پھر اگر ایسا ہو کہ کسی معاملہ میں اولیٰ الامر اور دوسرے مسلمانوں میں نزاع پیدا ہوجائے تو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی طرف رجوع کریں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں اختلاف و نزاع ایمان و اسلام سے خارج کردیتا ہے ان کی اطاعت مستقل اطاعت ہے اور پھر وہاں سے جو فیصلہ ملے اس کے آگے حاکم و محکوم سر تسلیم خم کردیں۔ اس حکم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اپنے تمام مذہبی اختلافات کے لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے نہ کہ عام انسانوں کے اقوال و آراء کی طرف خواہ وہ انسان کتنے ہی مکرم و معظم ہوں۔ یہی حیثیت رسول کو دوسرے تمام انسانوں سے خواہ وہ کتنے ہی زیرک اور پاکباز کیوں نہ ہوں لگ کردیتی ہے اور رسول کا درجہ اتنا بلند وبالا ہوجاتا ہے کہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ کا کام دیتا ہے اور اسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر كاش کہ آج اگر مسلمانوں نے اس حکم قرآنی پر عمل کیا ہوتا تو مذہبی اختلاف و تفرقہ سے محفوظ ہوگئے ہوتے اور ان کی ایک اور صرف ایک ہی جماعت ہوتی بہت سی جماعتوں اور مذہبوں میں متفرق ہو کر شرک کی اس لعنت سے بھی بچ جاتے۔ تفصیل و تشریح اس کی اپنے مقام پر ملے گی اور خصوصاً سورة انساء میں۔ زیر نظر آیت یعنی اس سورة کی آیت 32 کی تفسیر کی جارہی ہے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ.“ ” یعنی اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کفر کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ “ یہ روگردانی کس سے کرنا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے۔ پھر یہ بات پہلے ثابت ہوچکی ہے کہ اطاعت وہی ہے جو رسول کی اطاعت ہے۔ بال بالکل صاف ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے روگردانی کرنے والا کافر ہے اگرچہ اس کا نام مسلمانوں والا ہے۔ اگرچہ اس کا مذہب کے خانہ میں اسلام درج ہو۔ اگرچہ وہ زبان سے کلمہ اسلام بھی پڑھتا ہو اور مسلمانوں کے معاشرہ میں مسلمان ہونے سے متعارف بھی ہو اور لوگ اس کو مسلمان ہی سمجھیں لیکن عند اللہ وہ کافر ٹھہرے گا۔ اس پوری آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جو کوئی اللہ سے محبت رکھنے کا دعویدار ہے خو واہ وہ کوئی ہو اسے چاہیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی پیروی کرے۔ اللہ کی محبت کا دعویٰ اور اس کی راہ بتلانے والے کی پیروی سے انکار ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ قانون الٰہی یہ ہے کہ ہدایت خلق کے لیے اپنے رسولوں کو معبوث کرتا رہا ہے اور جس سلسلہ کے خاتمہ پر اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا اب جو ان کی پیروی اور اطاعت کریں گے وہ کامیاب ہوں گے اور جو انکار و سرکشی سے مقابلہ کریں گے وہ اللہ کی نصرت سے محروم رہیں گے اور جو اللہ کی نصرت سے محروم کردیایا وہ مسلمان کیسے ہوا ؟
Top