Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور پھر اس واقعہ کا ذکر کرو ، جب فرشتوں نے کہا تھا ، اے مریم اللہ نے تجھے اپنی قبولیت کے لیے چن لیا ہے اور ہر برائی کی آلودگی سے پاک کردیا ہے اور تجھے تمام دنیا کی عورتوں پر برگزیدگی عطا فرمائی ہے
سیدہ مریم کو اللہ کی طرف سے بزگزیدگی و قبولیت کی بشارت : 103: حضرت مریم جب کہ نہایت مرتاض ، عابد و زاہد اور تقویٰ و طہارت میں ضرب المثل تھیں اور علم الٰہی میں عن قریب ان کو ایک جلیل القدر نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہونے والا تھا تو من جانب اللہ ان کی تقدیس و تطہیر کا یہ اعلان بلاشبہ حق بحق دار رسید کا مصداق ہے۔ تاہم علمی و تاریخی اعتبار سے بلکہ خود قرآن و حدیث کے مفہوم کے لحاظ سے یہ مسئلہ قابل توجہ ہے کہ آیت وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ 0042 کی مراد کیا ہے ؟ اور کیا درحقیقت سیدہ مریمکو بغیر کسی استثناء کے کائنات کی تمام عورتوں پر برتری اور فضیلت حاصل ہے ؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ اس آیت فضیلت نے مریم کی ذات سے متعلق علمائے سلف میں چند اہم مسائل کو یر بحث بنا دیا ہے مثلاً 1 کیا عورت نبی ہو سکتی ہے ؟ 2 کیا سیدہ مریم نبی تھیں ؟ 3 اگر نبی نہیں تھیں تو زیر نظر آیت کا جملہ کیا مطلب کیا ہے ؟ كیا عورت نبی ہو سکتی ہے ؟ : مشاہیر علمائے اسلام میں اس مسئلہ میں دو رائیں رکھتے ہیں۔ کچھ کی رائے میں اس سوال کا جواب ” ہاں “ میں ہے اور کچھ کی رائے میں ” نہیں۔ “ ابن حزم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت حواء ، سارہ ، ہاجرہ ، ام موسیٰ ، آسیہ اور مریم یہ سب نبی ات تھیں اور محمد بن اسحٰق کہتے ہیں کہ اکثر فقہاء اس کے قائل ہیں کہ عورت نبیہ نہیں ہو سکتی اور قرطبی فرماتے ہیں کہ مریم نبیہ تھیں اور دوسری طرف بھی بہت سے مشاہر علمائے اسلام ہیں جن میں قاضی عیاض کا رجحان اس جانب ہے کہ عورت نبیہ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے سیدہ مریم نبیہ نہیں تھیں۔ قاضی عیاض (رح) اور ابن کثیر (رح) یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہور کا مسلک یہی ہے اور امام الحرمین تو اجماع تک کا دعویٰ کرتے ہیں کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی۔ دلائل دونوں طرف موجود ہیں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ (المال و النمل مطبوعہ مصبر 1348 ھ ج 5 ص 14 ۔ 12) كیا سیدہ مریم نبیہ تھیں ؟ پہلے سوال کے جواب کے بعد ہی اس سوال کا جواب ممکن ہے۔ ہم نے اس سلسلہ میں بحث نہیں کی اور نہ ہی مقام اس بحث کا متحمل ہے۔ ہاں ! عورتوں کی نبوت کے انکار پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں خواہ اس کو کوئی کہے کیوں ؟ اس لیے کہ دلائل دونوں طرف موجود ہیں اور جس مسئلہ میں اختلاف رائے موجود ہو اس کے متعلق جمہور کے اجماع کا لفظ صحیح نہیں۔ ہاں ! قلت و کثرت رائے کی بات کی جاسکتی ہے کہ قلت کس طرف ہے اور کثرت کس طرف اور اب اس بحث کی یوں بھی کوئی ضرورت نہیں کہ اب جب کہ نبوت ختم ہوچکی اور کوئی مرد اب نبی نہیں ہو سکتا تو عورتوں کی تو بہرحال حیثیت ثانوی ہے اور خود بخود ختم ہوجاتی ہے اور گزشتہ نظریات کی نبی اعظم و آخر ﷺ کے بعد اشاعت کی چنداں ضرورت ہی نہیں اور یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ موضوع بحث بنایا جائے۔ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ 0042 کا مطلب کیا ہے ؟ جو بزرگ عورتوں کی نبوت کے قائل ہیں اور سیدہ مریم کو نبیہ تسلیم کرتے ہیں ان کے مسلک کے مطابق تو زیر نظر آیت کے اس ٹکڑے کا صاف مطلب ہے وہ یہ کہ سیدہ مریم کی تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ جو عورتیں نبیہ نہیں ہیں ان پر بھی کیونکہ وہ یعنی مریم نبیہ ہیں اور جو عورتیں نبیہ ہیں ان پر بھی کیونکہ ان کے فضائل و کمالات قرآن و حدیث میں زیادہ تر بیان ہوئے ہیں۔ لیکن جن لوگوں عورتوں کی نبوت کا انکار کیا ہے اور مریم کو بھی نبیہ نہیں تسلیم کرتے وہ اس آیت کی مراد میں دو جدا جدا خیال رکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ زیر نظر آیت کا جملہ نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ 0042 عام ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل کی تمام عورتوں کو شامل ہے اس لیے بلاشبہ حضرت مریم کو بغیر کسی استثناء کے کائنات انسانی کی تمام عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے اور اکثر کا قول یہ ہے کہ آیت کے لفظ الْعٰلَمِیْنَ کا یہ اطلاق وہی حیثیت رکھتا ہے جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی امت بنی اسرائیل کے لیے اس آیت میں اختیار کی گئی ہے۔ وَلَقَدْ اخْتَرْنٰھُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ (الدخان 32 : 44 ) ” اور بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو ان کی حالت جانتے ہوئے دوسری قوموں پر ترجیح دی۔ “ اوریہ بات بالاتفاق تسلیم ہے کہ بنی اسرئیل کی فضیلت ” الْعٰلَمِیْنَ “ سے ان کے معاصرامم و اقوام مراد ہیں کہ ان میں سے امت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت حاصل ہے تو حضرت مریم کی فضیلت کے باب میں بھی یہی معنی مراد لینے چاہئیں۔ هاں ! یہ حقیقت بھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ باب فضیلت ایک وسیع باب ہے اور جس طرح کسی شے کی حقیقت بیان کرنے میں بلیغ اور عمدہ طریق بیان یہ ہے کہ وہ جامع و مانع ہو یعنی اس کی حقیقت پر اسی طرح حاوی ہو کہ تمام دوسری چیزوں سے ممتاز ہوجائے نہ ایسی کمی رہ جائے کہ اصل حقیقت پوری طرح بیان ہو سکے اور نہ ایسا اضافہ ہو کہ بعض دوسرے حقائے بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اس طرح اس کے برعکس بیان فضیلت کے لیے فصاحت و بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو بیان حقیقت کی طرح حدود و قبود میں نہ جکڑ دیا جائے کیونکہ اس مقام پر حقیقت شے نہیں بلکہ فضیلت شے کا اظہار ہو رہا ہے جو اگر اس طرح کے دوسرے افراد پر بھی صادق آجائے تو بیان حقیقت کی طرح اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا بلکہ اس موقع پر وسعت بیان از بس ضروری ہوتا ہے تاکہ مخاطب کے دل میں اظہار فضیلت سے جو نفسیاتی اثر پیدا کرنا ہے وہ دل نشیں اور مؤثر ہو سکے۔ اس صورت میں عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ 0042 کے معنی یہ نہیں ہو گے کہ حضرت مریم کے علاوہ دوسری کوئی مقدس عورت اس شرف کو نہیں پہنچ سکتی یا نہیں پہنچی بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ حضرت مریم کو فضائل و کمالات میں بلند سے بلند مرتبہ حاصل ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی بھی اس طرح سے تصدیق ہوی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : كمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران و اسیة امراة فرعون ، یعنی سابق امتوں میں سے مردوں نے تو بہت بڑے بڑے مقامات روحانی حاصل کیے ہیں مگر عورتوں میں سے بہت کم ہی ایسی عورتیں ہیں جن کی کمالیت ضرب المثل ہوئی ہے سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ بی بی فرعون کے۔
Top