Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 43
یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
يٰمَرْيَمُ : اے مریم اقْنُتِىْ : تو فرمانبرداری کر لِرَبِّكِ : اپنے رب کی وَاسْجُدِيْ : اور سجدہ کر وَارْكَعِيْ : اور رکوع کر مَعَ : ساتھ الرّٰكِعِيْنَ : رکوع کرنے والے
اے مریم ! اب تو اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں مزید سرگرم ہوجا اور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ تو بھی رکوع و سجود کرتی رہ
سیدہ مریم کو مزید سرگرم عمل رہنے کی ہدایت : 104: سیدہ مریم بھی ان شخصیات میں سے ایک ہیں جن کے متعلق لوگ مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ یہود مریم کے متعلق ان کے بچپنے کے متعلق تو بہت اچھے خیالات رکھتے تھے لیکن جب مریم جوان ہوئیں تو یہود کے خیالات میں تبدیلی آگئی اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو تسلیم نہ کی جاسکتی ہو کیونکہ سارے انبیاء کرام کے متعلق ان کی اپنی اپنی اقوام کے لوگ اچھے خیالات رکھتے تھے لیکن نبوت مل جانے کے بعد وہ لوگ جو نہایت اچھے خیالات رکھنے والے ہوتے تھے اتنے ہی مخالفت ہوجاتے تھے۔ خود رسول اللہ ﷺ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی۔ آپ ﷺ کی نبوت سے پہلے برادری اور خاندان ہی کے لوگ نہیں بلکہ مکہ کے تمام لوگ آپ ﷺ کو ” الامین “ اور ” الصادق “ کے نام سے یاد کرتے تھے لیکن نبوت کے بعد کیا ہوا ؟ سب کو معلوم ہے اور اس طرح آپ ﷺ کے صحابہ ؓ و جانثاروں کا حال بھی یہی ہے بالکل اسی طرح جب سیدہ مریم جوان ہو کر یہود کی عملی اور علمی خرابیوں کی اصلاح کرنے لگیں تو وہ وہ ایسے مخالف ہوئے کہ طرح طرح کے الزامات لگانے لگے۔ دوسری طرف جن لوگوں یعنی نصاریٰ نے آپ کو برگزیدہ اور پاکباز سمجھا انہوں نے خدا کی ماں اور بعض نے اللہ کا ایک حصہ اور جز تک تسلیم کرلیا گویا یہود کی تفریط کی تو نصاریٰ نے بھی افراط میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ چنانچہ اس آیت بلکہ گزشتہ آیت میں بھی ان دونوں گروہوں کا ایک طریقہ سے رد کیا گیا۔ یہود کو صاف صاف بتا دیا کہ مریم اللہ کی نیک کردار بندی اور اس کے منتخب شدہ انسانوں میں سے ایک انسان تھیں۔ لہٰذا تمہارے سارے الزامات و اتہامات خود تراشیدہ ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ تم خود بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو۔ جہاں یہود کو یہ بتایا گیا کہ آپ نہایت حد تک عبادت گزار اور اطاعت شعار خاتون تھیں وہاں نصرانیوں کو بھی یہ جتلا دیا گیا کہ مریم نعوذ باللہ نہ خدا کی ماں تھیں اور نہ ہی کوئی دیوی کہ ان کی پرستش کی جائے یا انہیں اللہ کے ساتھ شریک عبادت کیا جائے بلکہ ان کی ساری بزرگی و برگزیدگی تو بس یہ تھی کہ وہ اپنے مالک و مولیٰ کی نہایت ہی مخلص پرستار ، فرمانبردار اور نہایت درجہ عبادت گزار وطاعت شعار تھیں۔ وہ ایک بندہ تھیں اور ایک بندہ کی ماں تھیں تم نے ان کو دیوی اور اوتار کیسے سمجھ لیا ؟ فرمایا گیا اے مریم ! تم اللہ کی فرمانبرداری میں مزید سرگرم عمل ہوجاؤ اس لیے کہ نیکی اور اچھائی کی کوئی حد مقرر نہیں کہ اس سے آگے نیکی نہ کی جاسکتی ہو۔ بھلائی میں جتنی زیادہ سعی و کوشش کی جائے اتنی ہی کم ہے کیونکہ اس زندگی کی مدت متعین ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر ۔ کہ بانگ بر آید کہ فلاں نہ ماند یہ فرمانبرداری جس کی تم کو ہدایت کی جارہی ہے یہ صرف اور صرف اپنے رب کی ہونی چاہیے اور یاد رکھو کہ سجدہ و رکوع کرو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کیا کرو یعنی نماز باجماتع ادا کیا کرو۔ اور نماز میں لمبا قیام کیا کرو خصوصاً جب تم اکیلی نماز میں مصروف ہو اور اشارةً یہ بات بھی سمجھا دی کہ کسی نیکی کا حکم صرف ان ہی لوگوں کو نہیں دیا جاتا جو پہلے نیکی نہ کرتے ہوں بلکہ نیکو کاروں کو مزید نیکی کا حکم کرتے رہنا بھی تبلیغ ہے۔ اس سے عیسائیوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جو نبی اکرم ﷺ کو کوئی حکم ہوتا ہے تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کے خلاف کیا تھا اس لیے یہ حکم ہوا کہ ایسا کرو۔ اس موقعہ پر ان کو اس طرح غور کرنا چاہیے کہ کیا مریم پہلے اللہ کی فرمانبردار اور عبادت گزار نہ تھیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے رب کی فرمانبردار رہو ؟ حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ بعض اوقات مشکلات کے لحاظ سے ایک بات کی بار بار تاکید کی جاتی ہے جس سے مشکلات کا سامنا کرنے والے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا دل بڑھتا ہے اور ان مشکلات کا مزید ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے مریم بھی بڑے ابتلاؤں کا وقت آنے والا تھا جو علم الٰہی میں موجود تھا اور اس طرح ہدایت فرما کر گویا اس وقت کے لیے ان کو تیار کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری میں مزید آگے بڑھو اور جب دل تنگ ہو تو اپنے مالک حقیقی کے سامنے گڑگڑاؤ کہ سارے دکھوں کا مداوا اسی میں ہے۔
Top