Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
اور بچپنے اور ادھیڑ عمر میں یکساں طور پر نبوت کا کلام کرے گا اور اس کے بندوں میں ایک صالح انسان ہو گا
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ کَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ 0046 یہ الفاظ تو اس بشارت کے ہیں جو سیدہ مریم کو دی گئی تھی اور جو حرف بہ حرف پوری بھی ہوئی اس جگہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ جو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ ” وہ لوگوں سے باتیں کریں گے گہوارہ میں بھی اور پختہ عمر میں بھی “ پھر گہوارہ سے مراد ” جھولا “ اور عمر کے لحاظ سے ایک دو دن یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شیر خوارگی میں باتیں کریں گے۔ حالانکہ صاف صاف مطلب اس کا یہی نکلتا ہے کہ وہ اس زمانہ میں جس زمانہ میں عام بچے کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں وہ اس مدت عمر میں کھیل کود میں بھی نہیں مصروف ہوں گے بلکہ بڑی عمر کے لوگوں کی طرح پختہ اور وزنی باتیں کریں گے ایسی پختہ اور وزنی باتیں جو سارے لوگ بڑی عمر میں بھی پہنچ کر نہیں کرسکتے بلکہ یوں کہوں کہ ان کے یہ بچپنے کی عمر اور پختہ عمر دونوں میں فرق نظر نہیں آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔ ویسے سارے بچے عموماً جھولے ہی میں باتیں کرنا سیکھتے ہیں۔ کیونکہ دو تین سال کی عمر تک جھولے میں ہی ان کو عموماً رکھاجاتا ہے لیکن سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں تو ان سے مراد اکثر یہ لی جاتی ہے کہ آپ کا بچپن میں باتیں کرنا معزہ تھا۔ انبیاء کرام کے معجزات کا انکار کوئی مسلمان نہیں کرسکتا کیونکہ معجزہ اور نبوت تو لازم و ملزوم ہیں کیونکہ نبوت آخر تھی هی کیا چیز ؟ جواب بالکل واضح ہے کہ معجزہ۔ کیونکہ انبیائے کرام کی زبانوں سے ان باتوں کا اظہا اور اعلان جو بعد میں ہونے والی تھیں اور پھر ان باتوں کا بالکل اس طرح ہونا جس طرح انبیاء کرام نے ان کے ہونے کا اعلان کیا سب معجزات سے بڑا معجزہ ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کا یہ کلام بھی تب ہی معجزہ ہوا جب آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کے کام کے لے چن لیے گئے۔ اگرچہ یہ زمانہ عام بچوں کی عمر کے لحاظ سے ابھی کھیل کود کا زمانہ تھا۔ اور اب تو مہد اولیٰ اور مہد ثانی کے الفاظ بھی عام ہیں جو ہر کس وناکس کی زبان پر جاری ہیں پھر اس ضد کا فائدہ ؟ قرآن کریم نے وہ کلام بھی جو آپ کے بچپنے میں کیا مختلف مقامات پر درج کیا ہے۔ وہ خود اس بات پر دلیل ہے کہ جب یہ کلام آپ نے کیا اس وقت آپ نبوت کے پیغام سے سرفراز فرمادیے گئے تھے۔ جو کلام آپ نے کیا اس کی تفصیل تو اپنے مقام پر آئے لیکن اس قدر بتا دینا ضروری ہے کہ وہ کلام کیا تھا ؟ وہ یہ تھا کہ ” میں اللہ کا بندہ ہوں۔ مجھے کتاب دی گئی ہے۔ مجھے نبی بنایا گیا ہے۔ اور مجھے بابرکت بنایا گیا ہے جہاں کہیں بھی میں جاؤں۔ مجھے نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زکوٰة ادا کروں۔ والدہ ماجدہ سے نیکی کا بھی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں نیکی کرتا رہوں۔ “ (مریم 19 : 30۔ 31) اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک بندہ ہونے کی بشارت : 110: قرآن کریم نے سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے بھی پہلے آپ کی شخصیت کے ہر پہلو کو اجاگر کردیا تاکہ مسیح (علیہ السلام) کی انسانیت کا کوئی پہلو بھی اندھیرے میں نہ رہے کیوں ؟ اس لیے کہ علم الٰہی میں موجود تھا کہ لوگ ان کی ذات میں کس کس طرف سے غلو کرنے والے ہیں۔ یہود ان میں کیا تفریط کریں گے اور عیسائی ان کے متعلق کس افراط میں مبتلا ہوں گے اور دوسری قومیں ان کو کیا کیا کہیں گی۔ اس لیے ان کی زندگی کے ہر پہلو کو پوری طرح وضاحت سے بیان کردیا گیا۔ اس آیت میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ایک ” پاکباز انسان “ ہونے کا فرمایا جارہا ہے اور یہ تو ان کی پیدائش سے بھی پہلے اعلان کیا تھا جب وہ دنیا میں تشریف لائے تو ان کی زبان سے بھی بالکل اسی طرح کا اعلان کرایا ” قَالَ اِنِّىْ عَبُدُ اللّٰهِ “ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں تو اللہ کا بندہ ہوں “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” مسیح (علیہ السلام) کور گز اس بات میں عار نہیں کہ وہ خدا کا بندہ سمجھا جائے اور نہ ہی خدا کے مقرب فرشتوں کو اس بات سے ننگ و عار ہے جو کوئی خدا کی بندگی میں ننگ و عار سمجھے اور گھمنڈ کرے تو وہ گھمنڈ کر کے آخر جائے گا کہاں ؟ وہ وقت دور نہیں کہ خدا سب کو اپنے حضور جمع کرے گا۔ “ (النساء 4 : 172) یہودیوں کی باتوں کو فی الحال چھوڑ دو کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم ہی نہ کیا لیکن جب لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول مانا اور نصاریٰ کہلائے انہوں نے جو مسیح (علیہ السلام) کے متعلق عقائد و نظریات گھڑے ان میں سے صرف ایک عقیدہ یا نظریہ کا اس جگہ جائزہ لو تم کو معلوم ہوجائے گا جب کوئی قوم کسی نظریہ کو اپنا لیتی ہے تو وہ کس طرح اس پر پختگی سے قائم ہوجاتی ہے اور پھر اس کو چاہیے جتنے دلائل پیش کرو وہ کبھی ان دلائل کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت کے متعلق ایک عقیدہ تراش لیا کہ وہ انسان یعنی بشر نہیں بلکہ بشر سے ماورا کوئی چیز ہیں۔ پھر وہ چیز کیا ہیں ؟ کچھ نے کہا کہ وہ اللہ ہیں۔ کچھ نے کہا کہ وہ تین اقنوم میں سے ایک اقنوم ہیں اور یہ تین اقنوم مل کر یعنی اتحاد ثلاثہ کا نام اللہ ہے اور کچھ نے کہا نہیں وہ اللہ کا بیٹا ہیں۔ بنی اسرائیل کا وہ گروہ جس نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” اللہ “ مانا تھا ان کی تردید قرآن کریم نے ان الفاظ میں کی۔ ارشاد الٰہی ہوا : لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ (المائدہ 5:72 ۔ 71) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا اللہ مریم کا بیٹا مسیح (علیہ السلام) ہے۔ “ پھر سورة مائدہ کی آیت سترہ کے اس نظریہ کفر کا ان کو اس طرح جواب دیا کہ : قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنْ اللّٰهِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّھْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّهٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا . (المائدہ 5 : 17) ” اے پیغمبر اسلام ! تم ان لوگوں سے کہو یہ کیسی بےعقلی کی بات ہے جو تم کہتے ہو ؟ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر جتنے انسان بستے ہیں سب کو ہلاک کردیناچا ہے تو کون ہے جو اس کو روک سکتا ہے ؟ “ اور سورة مائدہ کی آیت 72 کے اس نظریہ کفر کا ان کو مسیح (علیہ السلام) کی زبان میں اس طرح جواب دیا کہ : وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ 1ؕ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ 1ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ. (المائدہ 5 : 72) ” اور مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے ! بلاشبہ جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا تو اس پر اللہ نے جنت حرام کردی۔ اس کا ٹھکانہ آتش دوزخ ہوا اور ظلم کرنے والوں کے لیے کوئی نہیں جو مددگار ہوگا۔ “ بنی اسرائیل کا وہ گروہ جس نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” اتحاد ثلاثہ “ میں سے ایک اقنوم مانا تھا ان کی تردید قرآن کریم نے ان الفاظ میں فرمائی: لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ (المائدہ 5 : 73) ” یقیناً وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں نے کہا ” اللہ تین میں کا ایک ہے “ یعنی باپ ، بیٹا اور روح القدس “ ایک اللہ دوسرا مسیح اور تیسرا جبرئیل۔ پھر ساتھ ہی ان کو اس طرح جواب بھی دے دیا۔ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ 1ؕ وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. (المائدہ 5 : 73) ” حالانکہ کوئی معبود نہیں مگر وہی معبود یگانہ ! اور دیکھو جو کچھ یہ کہتے ہیں اگر اس سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار حق کیا ہے انہیں عذاب درد ناک پیش آئے گا۔ “ اور ایک جگہ اسی طرح ارشاد فرمایا : وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ 1ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ 1ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ 1ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ. (النساء 4 : 171 ) ” اور یہ بات نہ کہو کہ اللہ وہ تین ہے۔ دیکھو ، ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہو۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے۔ وہ اس سے بھی پاک ہے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ “ بنی اسرائیل کا وہ گروہ جس نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ مانا تھا ان کی تردید اللہ نے قرآن کریم میں فرما دی۔ وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ 1ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاہِهِمْ 1ۚ یُضَاہِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ 1ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ (التوبہ 9 : 30) ” عیسائیوں نے کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبان سے نکالی ہوئی۔ ان لوگوں نے بھی انہی کی سی بات کہی جو ان سے پہلے کفر کی راہ اختیار کرچکے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ! یہ کدھر بھٹکے جا رہے ہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا 1ۙ سُبْحٰنَهٗ 1ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 1ؕ کُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ (البقرہ 2 : 116) ” اور عیسائیوں کو دیکھو انہوں نے کہا اللہ نے مسیح کو اپنا بیٹا بنایا۔ حالانکہ ذات الٰه اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کا ہے اور سب ہی اس کے فرمان کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ “ ان کے رد میں ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ : بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنّٰى یَكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ (الانعام 6 : 101) ” وہ آسمان و زمین کا موجد ہے بغیر میٹریل کے پیدا کرنے والا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ؟ جب کہ کوئی اسکی بیوی نہیں ہے۔ “ غور کرو بنی اسرائیل کے ان تین گروہوں کے اس عقیدہ کفریہ کا اللہ تعالیٰ نے کتنے واضح اور صاف الفاظ میں رد کیا ان کے اس باطل عقیدہ پر ان سے دلیل طلب کی لیکن ان تینوں ہی نے اپنے عقیدہ کو مزید پختہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کیے تاہم وہ کوئی دلیل پیش نہ کرسکے اور نہ ہی اپنے اس عقیدہ کفریہ سے توبہ کی۔ عیسائیوں کی ان جماعتوں میں کیا کوئی علم رکھنے والا نہیں ؟ ان میں کوئی ایک بھی سمجھ دار انسان نہیں ؟ انہوں نے زمین و آسمان اور اس کی فضا میں کیا ہل چل مچا دی کیا کبھی انہوں نے اپنے ان عقائد پر نظر ثانی کرنے کی کوشش کی ؟ آخر کیوں ؟ اس لیے کہ جب کوئی قوم کسی نظریہ و عقیدہ کو مان لیتی ہے وہ خواہ کتنا ہی لچر اور بیہودہ کیوں نہ ہو اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور اس جماعت کے علماء کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کے نظریات کی ترجمانی کرتے رہیں اور ان نامعقول نظریات کو معقول بناتے رہیں جس طرح عیسائی پادریوں نے تین کو ایک اور ایک کو تین بنایا۔
Top