Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 47
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ لِيْ : ہوگا میرے ہاں وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ : اور نہیں يَمْسَسْنِىْ : ہاتھ لگایا مجھے بَشَرٌ : کوئی مرد قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے اِذَا : جب قَضٰٓى : وہ ارادہ کرتا ہے اَمْرًا : کوئی کام فَاِنَّمَا : تو يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوجاتا ہے
مریم نے کہا اے میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا ؟ جب کہ خاوند نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا ، ارشاد الٰہی ہوا یہ بات اسی طرح ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو حکم دیتا ہے کہ ہوجا پھر جیسا کچھ وہ چاہتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے
سیدہ مریم نے اس موعود لڑکے کی بشارت پر تعجب کیا ، آخر کیوں ؟ : 111: قبل اس کے کہ اس بات کا جواب دیا جائے کہ سیدہ مریم بیٹے کی بشارت سن کر متعجب کیوں ہوئیں ؟ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا سیدہ مریم (علیہ السلام) بیٹے کی بشارت سن کر ملول خاطر ہوئیں ؟ ہرگز نہیں اس بات کی نفی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبین میں کردی۔ کیونکہ یہ صرف بیٹا دیئے جانے کی خبر نہیں تھی بلکہ بشارت یا خوشخبری تھی۔ ظاہر ہے کہ خوشخبری اور بشارت کسی انسان کو بھی ملول خاطر نہیں کرتی۔ بلکہ جس بات کو سن کر آدمی کا چہرہ کھل جاتا ہے اور دل خوش ہوتا ہے لطف و سرور روئیں روئیں میں دوڑ جاتا ہے اس کو بشارت یا خوشخبری کا نام دیا جاتا ہے۔ آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے اور وہ بھی صالح بیٹے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ ان کی دعا کبھی رد نہ ہوگی۔ پھر زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری ملی اگرچہ وہ چند سالوں کے بعد ملی ہوگی تاہم اس وقت آپ کا خیال اس طرف گیا کہ اس قدر رکاوٹ کے باوجود کہ میں بوڑھا ہوا جارہا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے بچہ کب ہوگا یا کس طرح ہوگا ؟ بالکل اسی طرح سیدہ مریم (علیہ السلام) کو جب بیٹے کی بشارت ملتی ہے تو وہ تعجب کرتی ہیں کہ بچہ کب ہوگا یا کس طرح ہوگا ؟ کہ ابھی تک مرد یعنی خاوند کے ساتھ تو تعلق پیدا ہی نہیں ہوا۔ دیکھو ، اللہ نے دونوں کو ایک ہی جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے یا جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے پھر فرمایا ” اللہ تعالیٰ جس بات کا فیصلہ کرلیتا ہے تو حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ پھر جیسا کہ وہ چاہتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔ “ اس ایک ہی جملہ سے سیدہ مریم کا تعجب دور ہوگیا۔ اور بالکل یہ ہوا کہ جو روک سیدنا زکریا (علیہ السلام) کو حائل تھی وہ دور کردی گئی اور اسی طرح جو روک سیدہ مریم کو تھی وہ بھی اللہ نے دور فرما دی۔ اور اس کا ثبوت یہی ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کے ہاں یحییٰ تولد ہوگئے اور سیدہ مریم کے ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوگئی۔ مبارک ہیں زکریا (علیہ السلام) جن کو یحییٰ (علیہ السلام) جیسا فرزند ارجمند نصیب ہوا اور اس طرح مبارک ہیں مریم جن کو عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا کیا گیا اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا اور دونوں ہی میں یہ خصوصیت بھی رکھ دی کہ دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی عمروں کے مقابلہ میں ان کو پہلے ہی نبوت سے نوازا گیا۔ گویا کم عمری کی فضیلت دوسرے انبیاء کرام کی نسبت ان میں زیادہ تھی اور مجموعی طور پر سارے انبیاء کرام پر بنی اعظم و آخر ﷺ کی فضیلت اعلیٰ وارفع ہے۔ قوم بنی اسرائیل میں عیسائی سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش ” بن باپ “ مانتے ہیں اور ہم مسلمان بھی عموماً ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہاں ! عیسائیوں کا بن باپ ماننا بھی بڑے عجیب طریقہ سے ہے جس کا ذکر ابھی آئے گا لیکن بعض عیسائی بن باپ تسلیم نہیں کرتے اور اس طرح مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایسا نہیں مانتے۔ ہاں ! فی الواقع اگر مسیح بن باپ پیدا نہیں ہوئے تو مسلمانوں کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی عقائد کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے لیکن اگر ایسا مان لیا جائے مسیح بن باپ پیدا نہیں ہوئے تو عیسائیت کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے کیوں ؟ اس لیے کہ موجودہ عیسائیت کے بنیادی عقائد ہی یہ ہیں : ! مسیح بن باپ اس لیے ہیں کہ مریم روح القدس سے حاملہ ہوئی تھیں۔ " مسیح بن باپ پیدا ہونے میں حکمت الٰہی یہ تھی کہ وہ گنہگار انسانوں کی آمیزش سے پاک اور بےگناہ ہوں۔ # مسیح بن باپ پیدا ہو کر گناہوں سے پاک و صاف ہوگئے اور اس طرح وہ گناہ گار انسانوں کی طرف سے کفارہ ہوگئے گویا جس نے صلیب کو مان لیا جس پر مسیح لٹکائے گئے تھے تو صلیب کے مانتے ہی انسان گناہوں سے پاک و صاف ہوگیا۔ $ مسیح بن باپ پیدا ہوئے تھے اس لیے وہ اللہ کے بیٹے کہلائے اور جس طرح بیٹا باپ کا وارث ہوتا ہے مسیح اللہ کے وارث ہو کر الوہیت میں داخل ہوگئے۔ کیونکہ باپ بیٹے کا جزو ہوتا ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ لیکن مسلمان ان ساری باتوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں مانتے اور نہ ہی یہ باتیں اپنی کوئی اصل رکھتی ہیں بلکہ یہ سب کی سب فرض کرلی گئی ہیں اور ان فرضی مفروضوں پر عیسائَت بحیثیت مذہب قائم ہے۔ جس کا وجود نہ تورات میں ہے اور نہ ہی انجیل میں ہے۔ عیسائیوں کا مسیح (علیہ السلام) کو بن باپ ماننا کس طرح ہے ؟ : سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق اناجیل میں اس طرح تحریر ہے۔ ” اب سیوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہو ﴾گئی تو ان کے اکٹھا ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔ پس اس کے شوہر نے جو راست باز تھا اور اسے بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔ وہ ان باتوں کو سوچ رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا اے یوسف ابن داؤد ! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔ اس کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا۔ “ (متی باب اول 20 ۔ 18) ” جبرئیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرہ تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔ جس یک منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نام سے ہوئی تھی اور اسی کنواری کا نام مریم تھا۔ “ (لوقا باب اول درس 27 , 26) ” فرشتہ نے اس سے کہا اے مریم ! خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا اور دیکھ تو حاملہ ہو گئی اور تیرے بیٹا ہوگا اور اس کا نام یسوع رکھنا۔ “ (لوقا باب اول ورس 31 , 30) مریم نے فرشتہ سے کہا یہ کیونکر ہوگا کہ میں مرد کو نہیں جانتی ؟ اور فرشتے نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی ، اس سبب سے وہ مولود مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ “ (لوقا باب اول ورس 36 , 35) انجیل کی اس طرح کی عبارات سے عیسائیوں نے وہ عقائد اخذ کیے جن کا ذکر پیچھے کیا گیا ہے اور انہیں عبارات کے انحصار پر وہ مسیح کو ” بن باپ “ مانتے ہیں۔ عقیدہ کا اظہار اس طرح کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسیح (علیہ السلام) کے نسب نامہ یوسف بن ہیلی سے چلا کر ذریت داؤد اور پھر ان سے آگے ذریت ابراہیم میں داخل کرتے ہیں۔ اناجیل میں یوسف کو مسیح کا باپ بار بار بیان کیا جاتا ہے ملاحظہ ہوں چند حوالہ جات۔ ! ” کیا یہ یسوع یوسف کا بیٹا جس کے ماں باپ کو ہم پہچانتے ہی نہیں ہیں۔ “ (یوحنا باب 6 درس 42) " ” کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں ؟ کیا اس کی ماں مریم نہیں کہلاتی ؟ “ (متی باب 13 درس 55) # ” دیکھ تیرا باپ اور میں غمگین ہو کر تجھے ڈھونڈتے تھے۔ “ (لوقا باب 2 و درس 48) $ ” خدا نے اس سے (یعنی دائود سے) قسم کھا کر کہا کہ میں تیرے تخت پر بیٹھنے کے لیے جسم کے طور پر پر تیری کمر سے مسیح کو پیدا کروں گا۔ “ (اعمال باب 2 درس 30) % ” پس یوسف اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آیا اور اس کونہ جانا جب تک وہ بیٹا نہ جنی۔ “ (متی 25 , 24:1) ^ ” جب وہ بھیڑ سے یہ کہه رہا تھا کہ دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے باتیں کرنی چاہتے تھے کسی نے اس سے کہا کہ دیکھو تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں۔ “ (متی 47 , 46:12) ” کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں ؟ اور اس کی ماں کا پورا نام مریم اور اس کے بھائی یعقوب ، شمعون اور یہوداہ نہیں ؟ اور کیا اس کی بہنیں ہمارے ہاں نہیں۔ “ (متی 55:13) ایسا کیوں ہوا ؟ اس لیے کہ عیسائیوں نے جب اپنے عقائد میں یہ عقیدہ بنیادی طور پر داخل کرلیا کہ یوسف اور مریم کی منگنی ہو گئی تھی لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی تھی کہ مریم حاملہ پائی گئی اور یہ حمل اس کو روح القدس کی قدرت سے قرار پایا۔ جب یوسف کو یہ معلوم ہوا تو اس نے مریم کو گھر لانے کا ارادہ ترک کردیا لیکن خواب میں اس فرشتہ نے یوسف سے کہا کہ دیکھ مریم کو اپنے گھر لے آ کیونکہ وہ تیری پاکباز بیوی ہے اور جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے لہٰذا یہ خواب دیکھنے کے بعد یوسف مریم کو لے آیا اور وہ دونوں میاں بیوی کی طرح رہنے لگے اس طرح مسیح یوسف کا کہلایا چونکہ وہ درحقیقت اس کا بیٹا نہ تھا لہٰذا وہ روح القدس کی قدرت کے ہونے کے سبب اللہ کا بیٹا کہلایا۔ اس طرح عیسائیوں نے مسیح کو عرف عام کے طور پر ” مسیح بن یوسف “ کہا اور حقیقت کے طور پر وہ ” ابن اللہ “ کہتے تھے۔ اور اپنی خاص مجلسوں میں ” بن باپ “ کہتے تھے۔ عیسائیوں کے اس گورکھ دھندا کو سمجھنے کے لیے عمر نوح درکار ہے۔ اناجیل کے مطالعہ اور پھر ان کے اختراعی عقیدوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل مسیح (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے بعد عیسائی علماء نے اپنے اپنے خیال کے مطابق جو چاہا اور جیسے چاہا کہتے رہے اور ان سب کے ہاں اصل عقیدہ صرف یہ تھا کہ مسیح ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوچکا ہے اور اب ہم جو کچھ بھی کریں ہمیں گرفت نہیں کی جاسکتی ہاں ! جو گناہ کسی سے سرزد ہوتا ہے وہ پوپ کو اس کا معاوضہ جو پوپ کی طرف سے ہر گناہ کی نشاندہی کے ساتھ بنا دیا گیا ہے وہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی پکڑ ہو گئی تو صرف اس معاوضہ کے نہ ادا کرنے کی ہوگی۔ من حیث القوم ہمارا کوئی گناہ ہمیں متاثر نہیں کرسکتا۔ بس عقیدہ کی وضاحت کے لیے وہ نئے نئے عقائد اور نئی نئی تشریحات اپنے اپنے وقت میں کرتے رہے اور جوں جوں وقت گزرتا رہا اس کی کئی صورتیں بدلتی رہیں اور یہ صورتحال اب تک ان کے ہاں جاری وساری ہے۔ هم مسلمانوں نے ان کے باقی عقائد کا تو خوب مذاق اڑایا ہے لیکن ایک بات اسلامی نظریات میں داخل کرلی گئی کہ مسیح ” بن باپ “ پیدا ہوئے لیکن وہ تشریح جو عیسائیوں نے کی تھی اس کا سمجھنا سمجھانا چونکہ مشکل تھا لہٰذا علماء کی سطح پر تو اس کو من و عن تسلیم کرلیا گیا کہ مسیح روح القدس کی قدرت کے اظہار سے جو اس نے سیدہ مریم میں پھونکی تھی مریم حاملہ ہوئیں اور اس طرح گویا روح القدس بمنزلہ والد مسیح ٹھہرے لیکن چونکہ مریم مس انسانی سے پاک رہیں لہٰذا مسیح ” بن باپ “ ہوئے لیکن عوام میں زیادہ تر یہی مشہور و معروف کیا گیا کہ مسیح کی پیدائش معجزانہ رنگ میں ہوئی اور اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہے جو اس نے اپنی قدرت کے اظہار کے لیے صادر فرمایا۔ اور اگر کسی نے پوچھ لیا کہ جناب عالیٰ معجزہ تو نبوت کے ساتھ خاص ہے اور یہ پیدائش عیسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ ہے لہٰذا ان کا تو معجزہ ہو نہیں سکتا پھر اتنا تو بتا دیا جائے کہ آخر یہ معجزہ کس نبی کا ہے ؟ پھر معجزہ کے لیے تحدی یعنی چیلنج لازم و ضروری قرار دیا گیا ہے اور سارے اہل اسلام کے ہاں یہ شرط بنیادی طور پر تسلیم ہے صرف یہ بات فرما دیں کہ مسیح (علیہ السلام) کی اس طرح پیدائش کا چیلنج کس نے کیا ؟ اور کہاں کیا ؟ پھر غور کرو کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) نے بیٹے کی بشارت بن کر کیا کہا ؟ : سورة مریم مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی ہجرت حبشہ کے موقع پر اس کی آیات کریمات دربار نجاشی میں پڑھی گئی تھیں۔ اس سورة مبارکہ میں سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ سورة مریم کے شروح میں سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی دعا اور بیٹے کی درخواست بارگاہ رب کریم کا ذکر ہے دعا کی قبولیت اور سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ پھر یحییٰ (علیہ السلام) کے لڑکپن ہی میں نبوت عطا کردینے کی اطلاع ہے اور اس کے بعد سیدہ مریم کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ ابتدائی زمانہ کا ذکر کیے بغیر سیدہ مریم کا پہلی کفالت سے نکل کر کفالت ثانی کا ذکر شروع ہوتا ہے اور اپنے اہل سے الگ ہونے کے معاً بعد اس بشارت دینے والے فرشتہ یعنی فسرتادہ کا بیان آتا ہے اور فرشتہ اللہ تعالیٰ کا پیغام سیدہ مریم کو ان الفاظ میں سناتا ہے۔ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ 1ۖۗ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا 0019 (مریم 19 : 19 ) ” میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور اس لیے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند کی بشارت دے دوں۔ “ سیدہ مریم نے فرستادہ کی یہ بشارت سن کر اس کو جواباً فرمایا کہ : اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّا 0020 (مریم 19 : 191) ” میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ مرد یعنی خاوند نے مجھے چھوا تک نہیں اور میں بد چلن بھی نہیں۔ “ غور کرو کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) نے فرستادہ سے بیٹے کی خبر پا کر دو باتوں کی نفی کی ہے۔ ایک ” مِسّ بشر “ کی اور دوسری ” بدچلنی “ کی۔ مِسّ بشر کیا ہے ؟ ازدواجی زندگی میں حلال فعل یا تعلق خاص کو ” مسّ “ سے تعبیر کرتے ہیں اور حرام فعل یا تعلق خاص اگر کسی مرد سے ہوجائے تو اس کو ” بغٰى“ کہتے ہیں بات بالکل صاف ہے کہ ازدواجی زندگی میں تعلق خاص پیدا کرنے والا ” بشر “ موجود ہے لیکن ” مس “ نہیں ہوا اور ” بغٰى“ کسی صورت میں بھی سیدہ مریم سے اس کا صدور ممکن نہیں ہے کہ لوگ اس کی پاک دامنی کی قسمیں کھاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی پاکدامنی کا بیان دیتا ہے اور اس کو خود بھی اعتراف ہے کہ میں ” بدچلن “ نہیں۔ اب غور کرو کہ ایک عورت سے تعلق خاص جس کو ازدواجی تعلق سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ اولاد جیسی نعمت عطا فرماتا ہے جس ” بشر “ سے یہ تعلق قائم ہوتا ہے وہ ” بشر “ کون ہوتا ہے۔ کیا اس کو زوج یا خاوند نہیں کہتے ؟ ویسے تو بشر ہر انسان کو کہا جاتا ہے۔ وہ مرد ہو یا عورت جس طرح انسان کا لفظ دونوں پر بولا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح بشر کا لفظ بھی عورت اور مرد دونوں پر بولا جاتا ہے۔ لیکن جب ” بشر “ کے ساتھ ” مس “ کا لفظ بھی لگ گیا اور اس طرح وہ بھی ” بس بشر “ ہوگیا اور ” مس “ کا تعلق خاص پر استعمال ہونے کی وجہ سے معرفہ ہوا اور اس نے ” بشر “ کو بھی معرفہ کردیا۔ ” مس بشر “ خاوند ہی کے تعلق زنا شوئی قائم کرنے کو کہتے ہیں۔ جس کو عرف میں جماع بھی کہا جاتا ہے۔ بغیر نکاح کے اگر کسی مرد عورت کا تعلق خاص قائم ہو تو اس کا نام ” بغٰى“ یعنی زنا ہے۔ اور یہ بات اتنی عام ہے کہ ہر انسان اس کو سمجھتا ہے وہ مسلم ہو یا کافر۔ مرد ہو یا عورت۔ بڑا ہو یا چھوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مفسرین نے جنہوں نے عربی زبان میں تفاسیر لکھیں اس بات کی ایک حد تک وضاحت کردی چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔ مشاہیر علمائے کرام کی تفسیر مع حوالہ جات : ! قَالَت مریم اَنّٰى من این یَكُوْنُ لِىْ غُلَامٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ لم یقربنی زوج وَلَمْ اَكُ بَغِیًّا . فاجة ترید ان الولد انما یکون من حلال او حرا من نکاح او سفاح ولم یکن ھذا واحد منھا (معالم التنزیل ج 3 ص 567) " قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنَ لِیْ غُلَامٌ وَالحلال اننی لَمْ یَمْسَسْنِىْ لم یقربنی بشیرٌ زوج بنکاح وَلَمْ اَكُ یَغِیًّا ای فاجرة فجعلت المس عبارة من انلکاح الحلال لا نہ کنایة عنہ والزنا لیس کذلک وانما یقال فیہ فجربھا و خبث بھا وما اشبہ ذلک وابغی ھی الزانیة التی تبغی الرجال (فتح البیان سید محمد صدیق حسن خاں ج 1 ص 11 سورة مریم) # قَالَتْ اَنّٰى یَكبوْنُ لِىْ غُلیامٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِىْ لَم یبا شونی بَشَرٌ من الحلال وَلَمْ اَكُ بَغِیًّا لست بزانیة (جامع البیان ص 266) $ قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِىْ ُ لَامٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ یتزوج وَلَمْ اَكُ بَغِیًّا زانیة (جلالین سورة مریم ص 6 , 5) قولہ یتزوج الشارة الی ان المس کنایة عن الوضی الجلال و اما الزنا فانما یقال خبث بھا اوفجرا وزنی کما فی زوح البیان (جلالین سورة مریم ص 6 , 5) % قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكْوْنُ لِىْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِىْ بَشیرٌ رجل حلال ولا حراما فاذا لم یکن احد الا مرین موجوداً فکیف الدازا زاک بعید اجدا او محال عادة (آیات للسائین سورة آل عمران ص 134) ان حوالہ جات پر بغور نظر ڈالیں ان سب عبارات میں مفسرین اسلام نے ” بشر “ سے مراد ” زوج “ ہی لیا ہے اور پھر اس کی تشریح ” من حلال “ کردی ہے جب یہ بات طے ہو گئی اور دلائل سے ثابت بھی ہو گئی کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کی نسبت فعل حرام محال ہے اور اس کی نسبت سیدہ کی طرف ممکن ہی نہیں تو پیچھے کیا بات رہ گئی؟ یہی کہ سیدہ مریم کو روک یہ ہے کہ ” بس بشر “ نہیں۔ بس اسی رکاوٹ کے اٹھانے کے لیے فرشتہ نے سیدہ مریم (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ : کَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ “ ، ” اس طرح ہوگا اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ “ اس طرح ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کے ہونے کا کہه دیا یعنی جس طرح جو بشارت آپ کو دی گئی وہ اسی طرح پوری ہوگی یہ بات اللہ تعالیٰ کے قانون میں طے ہے اور آپ کی روک یقیناً دور ہور جائے گی اللہ جس کو پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا پیدا ہونا رک نہیں سکتا۔ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہونے کا جو اعلان کیا جارہا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ بچہ کوئی مبارک بچہ ہی ہو سکتا ہے اور مبارک وہی ہوتا ہے جو حلال عمل سے ہو اور خوشی بھی اسی کی کی جاتی ہے ورنہ جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ پھر بات کو یہاں ختم نہیں کیا بلکہ مزید فرمایا : اِذَا قَضٰى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیکُوْنُ ” جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ پھر جیسا کہ کچھ وہ چاہتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔ “ جس رکاوٹ کو اللہ دور کردینا چاہے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دورنہ ہو ؟ دیکھ تیرے سے بہت پہلے ہمارے پیغمبر ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ اپنے ہی مکان کے دروازہ میں کھڑی ہوئی تھی کہ ہم نے اس کو اسحٰق کی اور اس کے بعد (اسحاق کے بیٹے) یعقوب کی بشارت اس کو دے دی لیکن وہ بشارت سن کر کہنے لگی : قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ہٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا 1ؕ اِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ 0072 (ھود 11 : 72 ) ” تعجب مجھ پر ! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میرے اولاد ہو حالانکہ میں بڑھیا ہو گئی ہوں اور یہ میرا شوہر بھی بوڑھا ہوچکا ہے ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے ! “ لیکن ہمارے فرستادوں نے اس کو اس طرح جواب دیا تھا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے جب اللہ نے اس کے ہونے کی اطلاع دی تو پھر تعجب کیوں ؟ کیا پیغام بھجوانے والا تمہاری اس رکاوٹ کو نہیں جانتا ؟ اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ 1ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ 0073 (ھود 11 : 73) ” کیا تو اللہ کے کاموں پر تعجب کرتی ہے ؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تجھ پر ہوں ، اے اہل خانہ ابراہیم ! بلاشبہ اس کی ذات ہے جس کی ستائش کی جاتی ہے اور وہی ہے جس کے لیے ہر طرح کی بڑائیاں ہیں۔ “ دوسری جگہ اسی واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا : فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِىْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْھَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ (الذاریات 29 : 51 ) ” ابراہیم کی بیوی سامنے آئی اور اس نے اپنے چہرہ پر تعجب سے ہاتھ مارا اور کہنے لگی میں تو بڑھیا بانجھ ہوں۔ “ اور ہمارے فرستادوں نے اس کو اس طرح جواب دیا : كَذٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ اِنَّهٗ ھُوَالْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ (الذاریات 51 : 30) ” تیرے رب نے اسی طرح فرمایا ہے بلاشبہ و حکیم وعلیم ہے۔ “ یہ تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی بی بی کا حال تھا۔ ذرا خود سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی حال ملاحظہ فرمائیں۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے : قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ 0053 (الحجر 15 : 33) ” انہوں نے کہا اے ابراہیم ! ڈر مت ہم تو تمہیں ایک علم و الے فرزند کی پیدائش کی خوشخبری سناتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی یہ خبر سن کر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی نہ رہا گیا اور ان کو اس طرح کہنے لگے : اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ 0054 (الحجر 15 : 54) ” تم مجھے اس بات کی خوشخبری دیتے ہو حالانکہ مجھ پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے۔ کون سی امید اب رہ گئی ہے کہ یہ خوشخبری مجھے سناتے ہو۔ “ فرستادگان الٰہی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب دیتے ہیں۔ قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ 0055 (الحجر 15 : 55 ) ” ہم نے تمہیں سچائی کے ساتھ خوشخبری سنائی ہے پس تمہیں ناامید نہیں ہوناچاہیے۔ “ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کا ذکر پیچھے گزر چکا۔ انہوں نے اللہ سے اولاد طلب کی اور وہ اس وقت بھی اپنا بڑھاپا اللہ کو دکھاتے رہے یعنی اس کا ذکر کرتے رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب قبولیت دعا کا وقت آیا اور آپ کو خوشخبری دی گئی کہ بس اب بیٹا آیا کہ آیا یعنی آپ کی بیوی حاملہ ہو گئی اور بیٹا جنے گی اس کا نام یحییٰ رکھنا۔ بیٹے کی خوشخبری سن کر تعجب ہوا کیوں ؟ اس لیے کہ ” بڑھاپے “ کی رکاوٹ پیش نظر تھی۔ ارشاد الٰہی ہوا کہ جس اللہ نے تجھے بیٹے جیسی نعمت کی خوشخبری بھجوائی ہے وہ تیری حالت اور تیری رکاوٹ سے خوب واقف ہے اور اس کو کوئی رکاوٹ بھی دور کرتے کوئی دیر نہیں لگتی تو تعجب میں کیوں ہے ؟ چناچہ ارشاد ہوا۔ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَیْـًٔا 009 (مریم 19 : 9 ) میں نے اس سے پہلے خود تجھے پیدا کیا حالانکہ تیری ہستی کا نام و نشان بھی موجود نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم نے تجھ کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا تو اب تو بڑھاپے پر کیوں تعجب کرتا ہے۔ بلکہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے ظاہری تعجب کا جواب دیا ہے کہ ماں باپ کیا ہیں ایک ضابطہ الٰہی کی نشانی ہی تو ہیں ورنہ ماں باپ کا کام اولاد پیدا کرلینا کب ہے ؟ کیونک اولاد کیا ہے ؟ ایک تخلیق الٰہی ہے۔ اور اس تخلیق الٰہی کے لیے ماں باپ ایک ضابطہ الٰہی ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آجائے تو تعجب کیوں ہو ؟ ہاں ! جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب کوئی تعجب نہ رہا۔ یہی بات سیدہ مریم کو پیش آئی جب ان کے بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی تو وہ کہنے لگیں : رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِىْ وَلَدٌ “ خدایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے لڑکا پیدا ہو ؟ “ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ 1ؕ” زوج نے مجھے چھوا نہیں “ اور سورة مریم میں اس کی مزید تشریح اس طرح کردی ہو ئی تھی کہ وَلَمْ اَكُ بَغِیًّا ” اور بد چلن میں نہیں “ فرمایا اللہ جانتا ہے کہ تو بدچلن نہیں تو بد چال چلنے والوں کو بشارت ہی کب ہوتی ہے ؟ رہی وہ بات جو رکاوٹ کا باعث ہے تو ہم جانتے ہیں جب بشارت ہماری طرف سے دی جارہی ہے تو کیا ہم تیری رکاوٹ ور نہیں کرسکتے ؟ کَذٰلِكِ اللّٰهُ ” اس طرح اللہ نے چاہا ہے کہ اس کے حکم کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ “ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ” وہ جس کو پیدا کرنا چاہتا ہے پیدا کر رہی دیتا ہے۔ “ اِذَا قَضٰى اَمْرًا ” وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ “ فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَكُوْنُ ” تو حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ پھر جیسا کچھ اس نے چاہا ہوتا ہے ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔ “ مشیت ایزدی کے فیصلے اپنی ہی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ غور کرو کہ سیدہ مریم کی پیدائش کن حالات میں ہوئی والدہ ماجدہ مریم کی کیا خواہش تھی انہوں نے کیسے ندر مانی لیکن قانون الٰہی کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن ہو وہی جو اللہ کے ہاں ہونا تھا۔ ماں کی خواہش لڑکے کی تھی لیکن اللہ کے قانون کے مطابق لڑکی تھی۔ لڑکی پیدا ہوئی تو ماں نے اپنی خواہش کا اظہار اسی تعجب کے طور پر کیا کہ : رَبِّ اِنِّىْ وَضَعْتُھَا اُنْثٰى ” خدایا میرے تو لڑکی ہوئی ہے اب میں کیا کروں ؟ “ کیا یہ تعجب نہیں ؟ ہاں تعجب تو ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ کو تعجب کیوں ہے : وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ” حالانکہ جو وجود پیدا ہوا تھا اللہ اسے بہتر جاننے والا تھا۔ “ فرمایا مریم کی ماں تو نہیں جانتی۔ ایسا کیوں ہوا ؟ یاد رکھ تو نے جس لڑکے کی خواہش کی تھی : لَیْسَ الذَّكَرَّ کَالْاُنْثٰى ” وہ لڑکا اس لڑکی کا مثل نہ ہوتا۔ “ انجام کار مریم کو ہیکل کی نذر کردیا گیا اور وہاں بڑی لے دے کے بعد سیدنا زکریا (علیہ السلام) سیدہ مریم کے کفیل اول مقرر ہوئے۔ وہاں کیا قانون الٰہی کی کرشمہ سازیاں دکھائی گئیں اور سیدہ مریم کی پاکبازی اور طہارت ظاہری و باطنی کا اعتراف کن کن شخصیتوں کو کرنا پڑا۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) اللہ کا نبی ہونے کے باوجود آپ کی خدادا صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے خصوصاً جب طرح طرح کے پھلوں اور مختلف قسم کے غلبہ جات اور کھانے پینے کی فروانی مریم (علیہ السلام) کے پاس دیکھی حالانکہ وہ آپ ہی کی کفالت میں تھیں تو امتحاناً پوچھ لیا : یَا مَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا ” اے مریم ! یہ چیزیں تجھے کہاں سے مل گئیں ؟ “ مریم (علیہ السلام) نے زکریا (علیہ السلام) کے اس سوال کا فی البدیع جواب دیا اور کتنا شاندار جواب دیا۔ فرمایا : ھُوَ مِنْ عِنْدِاللّٰهِ ” اللہ سے “ سبحان اللہ جواب کتنا مختصر اور کتنا جامع اور ہر پہلو سے واضح ہے۔ پھر انکساری کرتے ہوئے کہ کہیں اس کا مطلب یہ نہ لیا جاسکے کہ یہ احسان میرے ساتھ کوئی مخصوص قسم کا ہے جو کسی دوسرے پر نہیں کیا جاسکتا اور کوئی اس کا مطلب غرور کا نہ لے لے مزید فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ” اللہ جسے چاہتا ہے اپنے خاص قانون کے مطابق بغیر حساب کے رزق دے دیتا ہے۔ “ اس جملہ کا سننا تھا کہ زکریا (علیہ السلام) کے دل میں ایک ہل چل مچ گئی اور جو بےاولاد تھے اور اولاد بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بطور رزق دی جاتی ہے زکریا (علیہ السلام) کے اس تخیل نے اس دروازہ الٰہی پر دستک دے دی۔ مریم ، زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں ہیکل کی خدمت میں مصروف رہیں جب تک اللہ کے ہاں اس خدمت میں لگے رہنا منظور تھا۔ انجام کار وہ وقت آگیا جب بحکم الٰہی سیدہ مریم (علیہ السلام) کو زکریا (علیہ السلام) کی کفالت سے نکال کر ایک دوسری کفالت میں دے دیا گیا اور یہ وہی تبدیلی کفالت تھی جو آدم زادیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص کردی ہے۔ ہر باپ اپنی بیٹی اور ہر بھائی اور ہر کفیل اپنی کفالت سے نکال کر دوسروں کی کفالت میں دینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ سیدہ مری جب کفالت ثانی میں دے دی گئیں تو ظاہر ہے کہ اب ہیکل کا حجرہ خاص جو آپ کے لیے مخصوص تھا خالی کرنا لازم و ضروری تھا لہٰذا آپ وہاں سے نکل کر مکاناً شرقیاً اپنے مشرقی مکان کی طرف منتقل ہو ﴾گئیں یعنی ہیکل کو چھوڑ کر جہاں ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں پوری ہوتی رہیں اور ساتھ ہی وہ ہیکل کی خدمات میں مصروف تھیں اب وہاں سے نکل کر اپنے آبائی وطن یعنی ناصرہ میں چلی گئیں اور یہ جگہ یروشلم سے جہاں ہیکل تھا شمال مشرقی میں واقع ہے اور یروشلم کے باشندوں کے لیے مشرقی ہی کا حکم رکھتا ہے۔ انجیل سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ وہ اس معاملہ کا محل وقوع ناصرہ ہی بتاتی ہے۔ (لوقا 26:1) یہی وہ مقام اور یہی وہ وقت تھا کہ سیدہ مریم اپنے دوسرے گھروالوں سے الگ ہو کر ایک پردہ کے مکان میں سونے کی غرض سے گئی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں نے یعنی ان فرشتوں کی جماعت کے سردار جبرئیل (علیہ السلام) نے سیدہ مریم (علیہ السلام) کو لڑکے کی بشارت سنا دی۔ یہ بشارت سن کر جو مکالمہ سیدہ مریم (علیہ السلام) اور فرستادہ الٰہی میں ہوا اس کا ذکر آپ پڑھ چکے۔ مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت پر ایک نظر قبل ازیں اس کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش ” بن باپ “ ہوئی اور اس کی وضاحت بھی کردی گئی کہ ” بن باپ “ کو انہوں نے کس طریقہ سے تسلیم کیا اور کس طرح سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پوری زندگی کو انہوں نے ایک گورکھ دھندہ بنا کر رکھ دیا ہے اور ہم مسلمانوں کی اکثریت کا نظریہ و عقیدہ بھی یہی ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش ” بن باپ “ ہوئی لیکن ہم مسلمانوں کے ہاں اس طرح کی اس پیدائش کو معجزہ پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر کوئی پوچھ لے کہ یہ معجزہ کس کا تھا کیونکہ مسیح (علیہ السلام) کی تو پیدائش کا معاملہ ہے ان کا تو معجزہ ہو نہیں سکتا تو اس پوچھنے والے کو سخت سست سننا پڑتی ہے کیوں ؟ اس لیے کہ اس سخت سست کے سوا اس کا جواب آخر ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ بلاشبہ قرآن کریم میں یہ الفاظ کہیں نہیں ملتے کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے یعنی کوئی ایسی مثبت تصریح نہیں جو اپنے منطوق میں ظاہر اور قطعی ہو ہاں قرآن کریم کی آیات سے اس طرح کے اشارات نکل رہے ہیں یا کم از کم نکال لیے گئے ہیں اور پھر ان کو عقیدہ تواتر اور اجتماع امت جیسے سہاروں سے پختہ کرلیا گیا ہے جس سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے جو مسلمانوں کے ہاں بھی بہرحال ” مقبول “ ہے۔ قرآن کریم کے بعد دوسرا درجہ صحیح احادیث کا ہے۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی صحیح حدیث میں بھی اس کی صراحت موجود نہیں کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ” بن باپ “ کے ہوئی تھی۔ اس پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ کی تصریح قرآن و حدیث میں موجود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ فلاں تھا ؟ اگر نہیں تو آخر کیوں ؟ حالانکہ یہ سوال اس وقت درست ہوتا جب انسانوں میں دونوں طرح کے انسان موجود ہوتے کہ ایسے انسان بھی موجود ہیں جن کے باپ نہیں اور ایسے انسان بھی ہیں جن کے باپ ہیں اور اس طرح سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا مسئلہ درپیش آجاتا کہ آیا مسیح (علیہ السلام) کا باپ ہے یا نہیں یعنی کہ مسیح (علیہ السلام) کا ان انسانوں سے تعلق ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں یا ان سے جو باپ سے پیدا ہوئے ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ جب انسانوں کی پیدائش کا مسئلہ کتاب و سنت میں طے ہے کہ انسان اول کے جوڑے کے بعد جو اس ضابطہ الٰہی سے پہلے پیدا کیا گیا تھا جن کو آدم و حوا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے انساین پیدائش کا ضابطہ یہ مقرر کردیا گیا ہے کہ وہ مرد و عورت سے پیدا ہوں گے تو استثناء اس میں لازم تھی کہ ” سب انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا جائے گا سوائے عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کی پیدائش صرف عورت سے ہوگی تو بات صاف ہوجاتی۔ “ جب کہ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ قرآن کریم میں یہ ہدایت فرما دی گئی کہ : فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْ (الاحزاب 33 : 5) ” جن لوگوں کے باپوں کے متعلق تم کو معلوم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست و رفیق ہیں۔ “ ایسا نہیں فرمایا کہ جن لوگوں کے باپوں کا تم کو معلوم نہ ہو ممکن ہے کہ ان کے باپ موجود ہی نہ ہوں بلکہ فرمایا کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہیں اس کی ضرورت نہیں کہ ان کے باپوں کا کھوج لگاتے پھرو۔ اور پھر بات صرف یہی نہیں بلکہ ان عیسائیوں کا رد اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا جن عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ قرار دیا تھا کہ شرم کرو جب تم اللہ کے لیے بیٹا قرار دیتے ہو تو اس کی بیوی کیوں نہیں بتاتے ہو ؟ چناچہ ارشاد الٰہی ہوا : بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 1ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ. (الانعام 6 : 101 ) ” وہ آسمان و زمین کا موجد ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو جب کہ کوئی اس کی بیوی نہیں ؟ “ کیونکہ بیٹا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک اس کا باپ ہو تو دوسری اس کی ماں بھی لازمی و ضروری ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کو باپ قراردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود تعجب کا اظہار فرماتے ہوئے ان سے پوچھتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ جب تم نے مجھے یعنی اللہ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ قراردیا تو میری بیوی کون سی ہوئی اور جب میری بیوی کو تم بھی نہیں مانتے تو پھر یہ میرا بیٹا کیوں کہتے ہو ؟ حالانکہ معجزات کا صدور تو اللہ تعالیٰ ہی سے ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ عیسائیوں کی طرح ہم مسلمانوں کے علمائے کرام کی اکثرت نے بھی سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کا سبب جبرئیل (علیہ السلام) ہی کو قراردیا اور ان کو بمنزلہ والد قرار دے کر باپ کی طرح کو پورا کردیا اور پھر مسیح (علیہ السلام) کو ” بن باپ “ بھی کہا اس لیے کہ جبرئیل (علیہ السلام) انسان نہیں تھے بلکہ اللہ کے ایک فرستادہ بندہ و فرشتہ تھے۔ چناچہ علمائے اہل حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے حافظ محمد گوندلوی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ایک جگہ رقم طراز ہیں : ” عربی زبان میں لفظ ولد کا حقیقی اطلاق جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اس کے لیے اصلین کا ہونا ضروری ہے اور ولد کے لیے اگر اس کی ماں کی طرف نسبت ہو تو دوسرا اس کا باپ ہونا چاہیے۔ پس اولاد کی ماں والد کے باپ کے لیے صاحبہ (بیوی) ہوگی نیز ولد کے لیے ضروری ہے کہ اصلین کے مادہ سے منفک ہو کر تیار ہو یعنی ولد کے لیے اصلین کی ضرورت ہے اور مادہ منفک بھی لازم ہے۔ پس لفظ ولد کے معنی ہیں جز خاص یعنی جس کی جزئیت کے لیے بھی یہی شرائط ہیں چونکہ مسیح (علیہ السلام) کو ابن مریم سے قرآن کریم میں تعبیر کیا گیا ہے اس کے لیے بھی اصلین کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ان کی ماں مریم ، دوئم جبرئیل (علیہ السلام) جن کو دوسرے لفظوں میں روح القدس سے تعبیر کرتے ہیں جو حمل مسیح کا باعث ہوئے۔ “ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے۔ ” سنئے ! ولد بلا والدہ نہیں ہو سکتا اور ولد بلا اصلین متصورہ نہیں اور ولد کے لیے اصلین کے ساتھ انفکاک مادہ کی بھی ضرورت ہے گویا ولد کا لفظ بلحاظ استعمال یہ معنی دیتا ہے کہ دو اصلین کے توسط سے بانفاک مادہ پیدا ہونے والا۔ جہاں کہیں لفظ ولد کا کلام عرب میں استعمال کیا گیا ہے۔ وہاں اصلین اور انفکاک مادہ ضروری ہے۔ ایک اصل اگر والد ہے تو دوسری اصل جو ولد ہونے کے لیے ضروری ہے۔ وہ عرف میں اس کی والدہ ہوگی جو اس کے باپ کی جو رو ہوگی۔ پس مسیح پر چونکہ ولد مریم کا اطلاق کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس کی والدہ ہو اور وہ مریم ہے۔ اور دوسرا جس کے اتصال کے علاوہ مسیح نہ پیدا ہوا ہم اہل اسلام کے نزدیک جبرئیل ہے جسے دوسری جگہ قرآن کریم میں روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ بمنزلہ والد کے ہے کیونکہ نفخ جبرئیل کے قبل اور روح القدس کی قوت کے ظہور سے پہلے مریم سے مسیح (علیہ السلام) ظاہر اور متولد نہ ہوئے۔ “ (اثبات توحید میں 19 ص 45) حافظ صاحب کے الفاظ پر بار بار غور کرو ایک ایک لفظ کر کے سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرو کیونکہ یہ الفاظ بیشک حافظ صاحب کے ہیں لیکن یہ نظریہ ہم سب مسلمانوں کا ہے یا کم از کم ہم مسلمانوں کی اکثریت کا ہے۔ خصوصاً ” اصلین “ اور ” انفکاک مادہ “ ” ایک اصل مریم “ اور ” دوسری اصل جبریل (علیہ السلام) “ کے الفاظ پر پھر غور کرو ” روح القدس “ ” بمنزلہ والد “ کے الفاظ پر خصوصاً فکر کرو۔ ازیں بعد لفظ ” بن باپ “ کو ذہن میں رکھ کر موازنہ کرو اور اب عیسائیوں کا عقیدہ بھی دوبارہ سن لو تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے چناچہ انجیل میں ہے کہ ” اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہو گئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔ پس اس کے شوہر یوسف نے جو راست باز تھا اور اسے بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔ وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن دائود ! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔ اس کا بیٹا ہوگا تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا۔ “ (متی 21 ۔ 19:1) ان دونوں عبارتوں میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اپنے مقامی علمائے کرام سے دریافت کرلیں۔ ہاں ! سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو ” بن باپ “ نہ ماننا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے کیونکہ ہم مسلمانوں کی اکثرت کا مسئلہ بھی ہے اور دنیائے عیسائیت کی اکثریت کا مسئلہ بھی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی اور شخصیت مسیح g : دنیائے تاریخ کا مشہور و معروف واقعہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک بہت بڑا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جس میں اس وقت کی عیسائی دنیا کے احبارو رہبان یعنی علماء و مشائخ موجود تھے کتب احادیث میں بھی اس وفد کی آمد کا ذکر موجودے اور تفسیر ابن جریر المعروف طبری میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ : ” ان النصارٰی اتو رسول اللہ ﷺ فخا صموہ فی عیسیٰ ابن مریم “ جو وفد نجران سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ان کی آمد کا مقصد رسول اللہ ﷺ سے عیسیٰ ابن مریم کے متعلق جھگڑا ڈالنا تھا۔ چناچہ انہوں نے اپنے جھگڑے کی بنیاد اس طرح شروع کی کہ ” وقالوا لہ من ابوہ “ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ آپ ﷺ کا خیال مسیح (علیہ السلام) کے باپ کے متعلق کیا ہے ؟ کہ وہ کون ہے ؟ ہر ایک سننے والے کے ذہن میں ایک جگہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اسکے دو ہی جواب میں سے ایک جواب ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ” مسیح کا کوئی باپ نہیں تھا “ دوسرا یہ کہ ” مسیح کا باپ فلاں تھا “ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی روایت میں بھی اور خصوصاً اس زیر نظر روایت میں ان دونوں جوابوں میں سے ایک بھی جواب آپ ﷺ نے ارشاد نہیں فرمایا۔ کیوں ؟ اس لیے آج جن جوابوں کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں سے ایک جواب دینے سے بات صاف ہوجاتی ہے اس وقت کے حالات میں ان میں سے جو بھی صحیح سمجھ کر جواب دیاجاتا جھگڑے کا باعث بن جاتا اور نجران والوں کا تو ارادہ ہی جھگڑا کرنا تھا۔ جس کی طرف روایت کے الفاظ نے بھی اشارہ کردیا کہ ” فخا صموہ فی عیسیٰ ابن مریم “ ۔ آپ ﷺ صاحب وحی والہام تھے آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ یہ جواب باعث مخاصمت ہیں۔ آپ ﷺ نے جواب دیا اور ایسا دیا کہ ان جھگڑا کرنے والوں کو جھگڑا کرنے کا کوئی راستہ ہی نہ مل سکا اور باتوں ہی باتوں میں انہوں نے ہر اس بات کا اعتراف کرلیا جس کا وہ اعتراف کرنا ہی نہ چاہتے تھے۔ لسان نبوت و رسالت گویا ہوئی اور فرمایا ” الستم تعلمون لا یکون ولد الا وھو یشبہ اباہ “ کیا تم نہیں جانتے کہ بلاشبہ بیٹا اپنی جان و جسم اور شکل و صورت کے لحاظ سے ہمیشہ اپنے باپ ہی کے مشابہ ہوتا ہے۔ عیسائیوں کا دعویٰ ” ابن اللہ “ ہونے کا تھا۔ ” اللہ “ ہونے کا تھا ” تین میں سے تیسرا “ ہونے کا تھا اور ” جبرئیل کی قوت “ ” دوسری اصل جبرئیل “ ہونے کا تھا سارے دعوے اپنے اندر مخاصمت کا پہلو رکھتے تھے۔ ان لوگوں کو اگر ” فلاں باپ “ سے جواب دیا جاتا تو وہ سیخ پا ہوجاتے اور میدان ان کے ہاتھ میں چلا جاتا۔ میں اور آپ یا کوئی عام انسان ہوتا تو یقیناً ایسا ہی ہوتا لیکن انہوں نے جس سے سوال کیا تھا وہ ” اللہ کا رسول “ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو جواب اس طرح دیا کہ تم ہی بتاؤ ۔ بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے یا نہیں ؟ یعنی غور کرو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی شکل و صورت کے لحاظ سے اللہ سے مشابہت رکھتے ہیں ؟ جبرئیل سے یا انسان سے ؟ ظاہر ہے کہ جس سے مشابہت ہوگی وہی ان کا باپ ہوگا۔ غور کرو کہ عیسائیوں نے آپ ﷺ کے جواب کو کس طرح تسلیم کیا۔ ” قالوا بلٰى“ وہ سب کے سب بیک زبان پکار پکار کر کہنے لگے کہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر بیٹا اپنے باپ ہی سے مشابہت رکھتا ہے۔ انسان کا بیٹا کبھی فرشتہ نہیں ہو سکتا اور کوئی دوسرا حیوان بھی نہیں بلکہ انسان ہی ہوگا۔ کیونکہ عیسائی بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کی انسانی مشابہت سے انکار نہیں کرسکتے اور کوئی آنے والا انسان بھی اس مشابہت سے انکار نہیں کرسکتا اور آج ہم مسلمان بھی ” بن باپ “ تو کہتے ہیں لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کی انسانی مشابہت سے انکار نہیں کرسکتے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ جو لسان رسالت نے جواب دیا کہ وہ کتنا وزنی ، کتنا درست اور کتنا واضح ہے ؟ کیا اس سے زیادہ وضاحت کبھی ممکن بھی ہے ؟ پھر جواب ایک ہی ہے اور ان سارے مختلف عقائدو نظریات رکھنے والوں کے لیے کافی ہے جن کا پیچھے ذکر کیا گیا۔ گویا سارے زہروں کا ایک یہی تریاق ہے۔ پھرنبی رحمت ﷺ نے مبارک شفتین کو حرکت دی اور بڑے پیارے انداز سے فرمایا نجران والو ! تم کس سوچ میں ہو ذرا بتاؤ تو ” الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یا تیی علیہ الفنا “ کیا تم کو معلوم نہیں کہ بلاشبہ ہمارا رب ہمیشہ سے ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی اور رہے عیسیٰ (علیہ السلام) تو تم کو معلوم ہے کہ فانی وجود رکھتے ہیں۔ اب کون ہے جو اس کا انکار کرسکے ؟ وہ چار و ناچار گویا ہوئے اور علاوہ ازیں کچھ نہ کہہ سکے۔ قَالُوْا بَلٰى ، کہنے لگے ہاں ! یا رسول اللہ ! اللہ ہی کی وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور عیسیٰ تو سارے انسانوں کی طرح مرنے ہی کے لیے پیدا ہوئے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے توحید الٰہی کا بیان اس طرح جاری وساری فرمایا کہ منکرین و معاندین اور توحید الٰہی میں شرک کی میخیں لگانے والے دم بخود ہوگئے اور ترجمان الٰہی ﷺ کی زبان پھر حرکت میں آئی: ” قال الستم تعلمون ان اللّٰه عزوجل لا یخفی علیہ شئی فی الارض ولا فی السماء “ رسول عربی ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے نہیں ہو کہ بلاشبہ اللہ جو صاحب عزت و جلال ہے اس پر کوئی چیز آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ سردار ان وفد نجران کیا جواب دیتے ؟ ہاں وہی جو انہوں نے دیا اور اس کے علاوہ اور کچھ اور جواب دے بھی نہ سکتے تھے۔ ان کو پھر وہی کہنا پڑا جو وہ کہتے چلے آرہے تھے کہ ” قالوا بلٰى“ نبی مکرم و رسول معظم محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا : ” فھل یعلم عیسیٰ من ذلک شیئا الا ماعلم “ نجران والو بھلا بتاؤ تو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان باتوں میں سے کچھ جانتے تھے سوائے اس کے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ؟ کیونکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس کا ذاتی علم ہے اس کو کسی کے بتانے سے معلوم نہیں ہوتا باقی سارے انبیاء میں سے ایک بھی علم ذاتی نہیں رکھتا ہاں ! وہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی کو بتایا گیا ہو اور کسی کو بتایا ہوا علم کبھی علم ذاتی نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ جتنا چاہتا ہے اپنے نبی کو بتا دیتا ہے اور اللہ ہی کے بتانے سے انبیاء کرام کو معلوم ہوتا ہے اور اسی کو نبوت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی نجران والوں کو یہی کہنا پڑا جو روایت میں موجود ہے کہ ” قالوا لا “ وہ کہنے لگے کہ یہ بات تو فی الحقیقت صحیح ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وہی کچھ جانتے تھے جو اللہ کی طرف سے آپ کو بتا دیا جاتا رہا۔ یعنی ان کا علم بھی علم ذاتی نہیں تھا۔ احمد مجتبیٰ ختم رسول ﷺ نے اس موقع سے بحکم الٰہی مزید فائدہ اٹھایا اور اپنے الٰه واحد کی تخلیق کا اعتراف کرا لینا مناسب خیال فرمایا۔ ارشاد ہوا ” قال فان ربنا صور عیسیٰ فی الرحم کیف شاء “ نجرانیوں ذرا بتاتے جاؤ کہ ہمارے رب نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصور رحم مادر میں جس طرح چاہا تخلیق نہیں فرمائی تھی ؟ پھر سوچ کر جوا دو کہ کبھی خالق اور مخلوق کا آپس میں جوڑ لگ سکتا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) تو خود مخلوقے اور اس ذات کی مخلوق ہے جو سب کا خالق حقیقی ہے اور ایسی ہی مخلوق جیسی اس کی باقی مخلوق ہے۔ پھر کائنات میں جو خود اپنے وجود کا بھی خالق نہ ہو وہ خالق کے ساتھ کیونکر مل گیا ؟ پیغمبر اسلام ﷺ کتنے میٹھے اور پیارے انداز میں ربوبیت الٰہی کا درس دے رہے ہیں فرمایا : نجران کا فقیہو ! الستم تعلمون ان ربنا لا یالک الطعام ولا یشرب ال شراب ولا یحدث الحدث ” ذرا بتاتے چلو کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہمارا رب تو وہ رب ہے جو کھانے اور پینے سے پاک ہے اور اس کو کبھی قضائے حاجت بھی نہیں ہوئی کہ وہ دوسروں سے پردہ کر کے لیٹرین گیا ہو ؟ “ جواب آیا قَالُوْا بَلٰى ، ہاں یا رسول اللہ ! واقعی ہمارا بر ایسا ہے جو کھانے ، پینے اور قضائے حاجت جیسی ساری مجبوریوں سے پاک ہے۔ اب عیسائیت کے اس عقیدہ پر آخری ضرب لگنے کو ہے کہ عیسیٰ ” ابن اللہ “ عیسیٰ ” اللہ “ عیسیٰ ” ثالث ثلاثہ “ عیسیٰ ” جبریل کے قوت “ یا کوئی خاص جزو ” سوائے باپ “ کے ہے فرمایا جارہا ہے : الستم تعلمون ان عیسیٰ حملة امہ کما تحمل الراة ثم وضعتہ کما تضع المراة لو لدھا ثم غذی کما یغذی الصبی ثم کان یطعم الطعام و یشرب ال شراب و یحدث الحدث ” کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ بلاشبہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماں نے ایسے ہی جائز طور پر حمل میں لیا جیسا کہ ساری مائیں اپنے اپنے حمل کو جائز طور پر حمل میں لیتی ہیں اور عیسیٰ کی ماں نے اس طرح جنم دیا جیسا کہ ساری مائیں اپنے اپنے چبوں کو جنم دیتی ہیں۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے ہی اپنی ماں کا دودھ پیتے رہے جیسا کہ ساری مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ پھر عیسیٰ دودھ پینے کی عمر سے بڑے ہو کر کھانے کی حلال و طیب چیزیں کھاتے رہے پینے کی حلال و طیب چیزیں پیتے رہے اور قضائے حاجت بھی کرتے رہے۔ سرداران عیسائیت کے پاس اتنی واضح اور کھلی کھلی باتوں کا بھی علاوہ ازیں کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کہنے لگے : قَالُوْا بَلٰى ، ہاں ! یا رسول اللہ ﷺ ! بات تو کچھ اس طرح ہے۔ جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ تو بالکل سچ ہے۔ رحمة للعالمین ﷺ کی لسان صدق و صفا سے جب یہ الفاظ نکلے عیسائیت پر کیا گزری ہوگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” فکیف یکون ھذا کما زعمتم “ پھر تم وہ بات کیسے کہتے ہو جس کو اٹھا کر اتنا بڑا سفر تم نے اختیار کیا۔ کیا اتنی بات کو تم خود نہ سوچ سکے کہ ہم کس نظریہ کو لٹے جا رہے ہیں اور پھر یہ کس کے پاس جا رہے ہیں ؟ (یہ پورا واقعہ تفسیر ابن الجزء الثالث ص 101 , 100 پر درج ہے ملاحظہ کریں۔ ) سچ یہ ہے کہ جب کوئی قوم من حیث القوم ایک نظریہ اور ایک عقیدہ اپنا لیتی ہے اس پر کچھ سوچنا حرام ہوجاتا ہے اور پھر چونکہ من حیث القوم ہر قوم میں کچھ نہ کچھ عقائد ونظریات ایسے موجود ہوتے ہیں جن کی کوئی اصل موجود نہ ہونے کے باوجود ہر زبان پر جاری ہوتے ہیں اور علمائے قوم کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ان قومی نظریات و عقائد کی حفاظت کے لیے دلائل اکٹھے کرتے ہیں اور ہر دور میں سب سے بڑی اور آخری دلیل یہ رہی ہے کہ ” عقل کو مذہب میں دخل نہیں۔ “ لہٰذا مذہب کہتا ہے اس کو ماننا ہے۔ عیسائیت نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جو نظریات و عقائد اپنائے ہیں ان کی اصلیت موجود اناجیل میں بھی نہیں ملتی تاہم علمائے عیسائیت ہیں کہ اپنے اپنے فرقے کی ترجمانی میں ہر وقت رطب المسان ہیں اور ان کے لیے دلائل مہیا کرتے ہی رہتے ہیں۔ پھر ان کے اپنے مذہب عیسائیت کے اندر مختلف عقائد و نظریات ہیں۔ وہ اپنا اپنا نظریہ و عقیدہ بدستور قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کا رد کرتے اور ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ صادر کرتے رہتے ہیں اور اسلام کے مقابلہ کے لیے سب اکٹھے ہو کر اس کی بیخ کنی کے لیے ہر وقت کوشاں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور نجرانی عیسائیوں کی گفتگو آپ نے پڑھی۔ کیا نجران کے عیسائی بنی کریم ﷺ کی باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود اپنے عقائد و نظریات کو چھوڑ گئے تھے ؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ آج بھی موجود ہیں کہ ” فعرفواثم ابوالا حجوراً “ بات کو وہ سمجھ گئے تھے کیونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا وہ ہاں ! ہاں ! بھی کہتے رہے تھے لیکن انجام کار انہوں نے انکار کیا اور اپنے کفریہ عقائد پر اڑے رہے۔ ہاں ! آپ ﷺ کی مجلس سے ایسے گئے کہ دوبارہ آنے کی جرات ان کو نہ ہوسکی۔ بزرگوں کے نام پر ایسے عقائد پچھلی قوموں میں بھی موجود تھے اور اب بھی تقریباً ہر قوم میں کچھ نہ کچھ اس طرح کے عقائد و نظریات پائے جاتے ہیں اگر ایک دوسرے کے متعلق کسی طرح کی زبان کھولتا ہے تو دوسرا بھی اس کے عقائد میں سے اسی طرح کی باتوں کو نکال کر بیان کرنا شروع کردیتا ہے اور آج بھی یہ تصورموجود ہے کہ من حیث القوم جو نظریات کی نے اپنائے ہیں وہ ان کی قومی نظریات ہیں اس لیے ان سے صرف نظر کرنا ہی چاہیے تاکہ مذہبی آزادی برقرار رہے اور ہر جگہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید انہی باتوں کا نام مذہب ہے۔ اور ہم مسلمان بھی اس کی زد سے باہر نہیں۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) ہی کو لے لیجیے جن کا اس جگہ تذکرہ ہو رہا ہے۔ ایک جگہ مولانا مودودی اس طرح رقم طراز ہیں کہ : ” دنیا کے پیشوائے دین کو لے لو ، تم دیکھو گے کہ اس کی ذات پر سب سے زیادہ ظلم اس کے معتقدین ہی نے کیا ہے انہوں نے اس پر اتنے تخیلات و اوہام کے اتنے پردے ڈال دیے ہیں کہ اس کی شکل و صورت دیکھنا ہی محال ہوگیا ہے صرف یہی نہیں کہ ان کی محرف کتابوں سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس کی اصل تعلیم کیا تھی بلکہ ہم ان سے یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ خود اصل میں کیا ہے ؟ اس کی پیدائش میں اعجوبگی اس کی تفولیت میں اعجوبگی اس کی جوانی اور بڑھاپے میں اعجوبگی اس کی زندگی کی ہر بات میں اعجوبگی اور اس کی موت تک میں اعجوبگی۔ غرض ابتدا سے لے کر انتہاء تک وہ ایک افسانہ ہی افسانہ نظر آتا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ خود خدا تھا۔ یا خدا کا بیٹا تھا یا خدا اس میں حلول کر گیا تھا یا کم از کم وہ خدائی میں کسی حد تک شریک وسہیم تھا۔ “ (تفہیمات) لیکن جب وقت آتا ہے تو کون ہے جو اس عجائب پرستی کی زد سے بچ سکے ؟ یہود نے سیدنا عزیز (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قراردیا اس طرح عیسائیوں نے عزیر کو تو اللہ کا بیٹا نہ مانا لیکن سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہہ دیا۔ مسلمان یہ جسارت نہ کرسکے تو دبی زبان میں اس طرح کہہ دیا کہ ” جو احد تھا وہ احمد بن کر مدینہ میں آگیا “ اور ” میم کا پردہ “ ہٹا کر دیکھنے کی ہدایت کی۔ اور مسلمانوں ہی کے ایک گروہ شیعہ نے ایک جست لگائی تو ” علی “ کو ” اللہ “ کہہ دیا۔ اب کون ہے جو کسی کے عقائد پر زبان کھولے ؟ کیونکہ مذہبی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔ اللہ کا حکم کرنا کہ : ” اے چیز موجود ہوجا “ کا مطلب کیا ہے ؟ : 112: اِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَكُوْنَ وہ حکم دیتا ہے ہوجا پس ہوجاتا ہے۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ وہ کسی چیز کو ظہور میں لانے کے لیے نہ تو کسی سرو سامان کا محتاج ہے۔ نہ کسی دوسرے ہستی کی موجودگی کا۔ گویا سیدہ مریم ہی سے مخاطب ہو کر کہا جارہا ہے کہ تجھ کو اس پر تعجب کیوں ہے جب مشیت ایزدی میں کسی کام کا ہونا موجود ہے تو ظاہر ہے کہ اس کو کس طرح انجام پانا ہے وہ بھی موجود ہے۔ اس کا ارادہ ہی ہر طرح کی علت ہے۔ ہر طرح کا سروسامان ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کہ ایک چیز ظہور میں آجائے تو بس اس کا چاہنا ہی سب کچھ ہے۔ جونہی اس کی مشیت کا فیصلہ ہوا ہرچیز ظہور میں آگئی۔ اس طرح ہر ایک انسان و حیوان کا پیدا ہونا بھی اس کے کلمہ ” كن “ سے باہر نہیں۔ یاد رہے کہ ” اَنَّ یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ “ کا مطلب یہ نہیں کہ عربی کا لفظ ” كن “ جو کاف اور نون سے مرکب ہے وہ بولنے میں آتا ہے یا کلمہ خطاب و امر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں وجود میں آجاتی ہیں۔ بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ صرف اس کا ارادہ تخلیق کے لیے کافی ہے۔ اس کی قدرت کا یہحال ہے کہ جس بات کا حکم دیتا ہے وہ بمجرد حکم ظہور میں آجاتی ہے۔ یعنی وہ اپنے ارادہ و حکم کے نفاذ میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں اس کا اپنا قانون ہی ہر حال میں کافی و وافی ہے اور جس کام کے لیے جو قانون اس نے بنایا ہے مختار کل ہونے کی حیثیت ہی سے بنایا ہے۔ کون سی چیز ہے جو اس کے کلمہ ” كن “ سے آخر باہر ہے ؟ غور کرو کس طرح چند لفظوں میں اللہ کی خالقیت وقدرت کی کامل تصور کھینچ دی ہے ؟ ایسی تصویر کہ اس سے زیادہ انسانی تصور نہ کچھ سوچ سکتا ہے نہ ہی سوچ سکنے کی قدرت رکھتا ہے اس نے تمام کارخانہ ہستی کیونکر پیدا کیا۔ اور اب بھی وہ جو کچھ پیدا کرنا چاہتا ہے کس طرح ظہور میں آجاتا ہے ؟ اس طرح کہ اس کا حکم ہوتا ہے اور اس کا حکم ہی ساری علتوں کی علت اور سارے سببوں کا آخری سبب ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جس سے تخلیق عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرے انسانوں اور تمام دوسری چیزوں کی تخلیق سے الگ حیثیت قائم کی جائے اور نہ ہی حکم الٰہی کے سامنے کسی چیز کے انکار کی کوئی مجال ہے۔ جس طرح دوسرے انبیاء کرام کے ہاں بشارات الٰہی کے مطابق بچے پیدا ہوئے اسی طرح تیرا بچہ بھی بشارت الٰہی کے مطابق ضرور پیدا ہوگا۔ کیونکہ جو کچھ ظہور میں آنا ہوتا ہے وہ آکر ہی رہتا ہے وقت وہی خوب سے خوب ترجاننے والا ہے کہ کس چیز کو کب ظہور میں آنا ہے ؟
Top