Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 5
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِؕ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَخْفٰى : نہیں چھپی ہوئی عَلَيْهِ : اس پر شَيْءٌ : کوئی چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں
بلاشبہ اللہ کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں (اور نہ ہی ہو سکتی ہے) وہ زمین میں ہو یا آسمان میں
علم الٰہی سے کوئی بات پوشیدہ نہیں وہ ہرچیز کو جاننے والا ہے : 12: اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی وسعت علم کو مخصوص الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے اور غرض دراصل حضرت مسیح کی صفات باری سے عاری ہونے کا بیان ہے۔ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہر وقت اور ہر حال میں ذہن نشین رہنا چاہیے کہ وہ جس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے اس کو ہمیشہ ایسے لطیف طریق پر بیان کرتا ہے کہ کسی دوسرے کو ناگوارنہ گزرے اور جو کچھ اس کو کہنا ہے وہ کہہ بھی دے۔ پھر وہ ایک لفظ میں بہت سا مضمون بیان کردیتا ہے۔ اس جگہ غور کرو کہ بجائے اس کے کہ یہ بیان فرماتا کہ مسیح کو کوئی علم نہ تھا مگر اتنا ہی جتنا کہ ایسے برگزیدہ انسانوں کو ہوتا ہے اور پھر اناجیل سے اس طرح کی مثالیں پش کرتا جو یقیناً اب بھی مل سکتی ہیں۔ لیکن اس موضوع کو اس طرح بیان فرمایا کہ وہ اللہ ہی ہے جس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے گویا عیسائیوں کو یہ بتا دیا کہ مسیح پر بہت سی چیزیں مخفی تھیں۔ اگر اس طرح بیان کرتا تو بھی کرسکتا تھا لیکن اس نے نہایت ہی میٹھا اور پیارا انداز بیان اختیار کیا کہ مسیح (علیہ السلام) کا نام بھی نہیں لیا اور وہ سب کچھ کہہ دیا جو کہا جاسکتا تھا کہ مسیح انسان ہے مخلوق ہے نہ خالق و الٰه۔ حالانکہ ان کی اپنی کتاب انجیل میں ایسا بیان موجود ہے جو یہ بتاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر بہت کچھ مخفی تھا مثلاً انجیر کے وقت کا واقعہ جو آج بھی انجیل میں ان الفاظ کے اندر موجود ہے کہ : ” دوسرے دن جب وہ بیت عقیاہ سے نکلے اس کو بھوک لگی اور اس نے دور سے انجیرکا ایک درخت جس میں پتے تھے دیکھ کر اس کی طرف گیا کہ شاید اس میں کچھ پائے مگر جب اس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ “ (مرقس : 11 ، 12 ، 13 ) اس واقعہ پر غور کرو اور ان الفاظ کو دیکھو کہ ” شاید اس میں کچھ پائے۔ “ اور ” انجیر کا موسم نہ تھا “ قابل غور ہیں یا نہیں ؟ حضرت مسیح کو باوجود انجیر کاموسم نہ ہونے کے یہ خیال تھا کہ شاید وہاں کچھ انجیریں مل جائیں کس قدر علم کی عاجزی کا اظہار ہے۔ یہ تو عملی اعتراف عجز ہے دوسری جگہ لفظوں میں بھی اپنے علم کے ناقص ہونے کا اظہار کیا ہے۔ چناچہ لکھا ہے کہ : ” لیکن اس دن اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے ، نہ بیٹا مگر صرف باپ۔ “ (متی 36 : 24) قرآن کریم نے یہ للکار کر بتایا کہ جو کچھ جانے اور کچھ نہ جانے وہ ” الٰہ “ اور ” رب “ نہیں ہو سکتا کیونکہ نہ جاننا ایک نقص ہے اور اللہ ہر نقص سے پاک ہے وہ اللہ کا ہے کو اللہ ہوا جس کو کچھ علم ہو اور کچھ نہ ہو۔ یاد رکھو کہ علم باری ہر حیثیت سے کامل ہے اور ہر چھوٹی اور بڑی چیز پر حاوی ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ 1ؕ وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ 0038 (ابراہیم 14 : 38) ” اے ہمارے رب ! ہم جو کچھ چھپاتے ہیں وہ بھی تو جانتا ہے جو کچھ ظاہر کرتے ہیں وہ بھی تو جانتا ہے۔ آسمان و زمین کی کوئی چیز نہیں جو تجھ سے پوشیدہ ہو۔ “ یہاں آسمان و زمین کا مخصوص ذکر کیوں ؟ 13: ” الارض و السماء “ آسمان و زمین کے نام اس سلسلہ میں اس لیے لئے گئے ہیں کہ علم انسان کی وسعت گرفت انہی حدود کے اندر محدود ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ دراصل خطاب مسیحیوں سے ہے کہ تم جو مسیح کو خدا مانتے ہو تو بتاؤ ان کا علم کامل کیسے تھا ؟ اور خدا نے بندہ کی شکل اختیار کر کے کیسے اتنا بڑا نقص اپنے اندر گوارا کرلیا ؟ گویا اللہ کو جس نے اپنے وہم کے مطابق کوئی شکل و صورت دی جیسے مسیحیوں نے مسیح کو رب بھی کہا اور انسان کی شکل و صورت بھی دی اور اللہ کو ناقص بنا دیا کیونکہ وہ شکل و صورت کا محتاج ہوا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو محتاج ہو وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ سورة کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ ان آیات کریمات کا اصل نکتہ نظر سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کی نفی اور اس کی عبدیت کا اثبات ہے اور اس کے لیے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کا دل بھی نہ دکھے اور بات بھی سچ سچ کہہ دی جائے نہ تو بات میں کسی قسم کی لچک ہو کہ اس کو ذومعنی بنایا جائے اور نہ ہی طریقہ بیان ایسا اختیار کیا جائے کہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان آیات کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مسیح کی خدائی کے خلاف استدلال بھی ہو اور نصاریٰ ” نہ “ کا لفظ بھی استعمال نہ کرسکیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے مسیح کی الوہیت کا رداس انداز سے فرمایا کہ سرداران مسیحیت اس رد الوہیت میں شریک ہو کر ” ہاں “ ” ہاں “ کی صدائیں بلند کرتے رہے اور انجام کار جب آپ ﷺ نے پوچھا کہ ” پتھر تم ہی بتاؤ کہ جو تم دعویٰ کرتے ہو وہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ “ تو وہ ایسے دم بخود ہوئے کہ ان کو بھاگنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا اور ایسے گئے کہ پھر کبھی آنے کا نام بھی نہ لیا۔ چناچہ ابن جریر نے ربیع سے روایت بیان کی ہے کہ : نصاریٰ کی جماعت کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عیسیٰ ابن مریم کے متعلق آپ ﷺ سے بحث کی اور آپ ﷺ کو کہا کہ اسکا باپ کون ہے ؟ اور اللہ پر بہتان اور جھوٹ کہا۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس نے اپنی بیوی بنائی ہے اور نہ ہی بیٹا تو نبی کریم ﷺ نے ان سے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ کوئی بیٹا نہیں ہوتا مگر وہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب ہمیشہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر فنا آئے گی ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے پھر فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب ہرچیز کو قائم رکھنے والا ہے اور اس کی نگہبانی کرتا ہے اور حفاظت کرتا ہے اور اس کو رزق دیتا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان چیزوں پر اختیار رکھتا تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ و مخفی نہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! فرمایا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان چیزوں میں سے کچھ جانتا تھا سوائے اس کے جس کا علم اسے دیا گیا ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہمارے رب نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت جس طرح چاہا اس کی ماں کے رحم میں بنائی اور آپ ﷺ نے فرمایا ہمارے رب نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت جس طرح چاہا اس کی ماں کے رحم میں بنائی اور آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب کھانا نہیں کھاتا اور پانی نہیں پیتا اور نہ ہی قضائے حاجت کرتا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک عورت نے حمل میں لیا جس طرح عورت حمل میں لیا کرتی ہے۔ پھر اس کو جنا جس طرح عورت اپنا بچہ جنا کرتی ہے۔ پھر اس کو غذا دی گئی جس طرح بچوں کو غذا دی جاتی ہے اور پھر وہ کھانا کھاتا تھا۔ پانی پیتا تھا۔ قضائے حاجت کرتا تھا انہوں نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا پھر جو تم دعویٰ کرتے ہو وہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ غور کریں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت ، پیدائش اور ان کی بندگی کے متعلق کون سی بات تھی جس کی وضاحت نہ فرما دی اور الوہیت عیسیٰ کی کس طرح تردید کردی لیکن افسوس کہ اہل اسلام کے علماء نے بھی کیا سمجھا اور کس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت کو مافوق الفطرت بنانے کی کوشش کی اور رسول اللہ ﷺ کے ان واضح ارشادات کو کس طرح پس پشت ڈال دیا اور لکیر کے فقیر ہو کر لکیر پیٹتے چلے گئے۔
Top