Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 59
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّ : بیشک مَثَلَ : مثال عِيْسٰى : عیسیٰ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک كَمَثَلِ : مثال جیسی اٰدَمَ : آدم خَلَقَهٗ : اس کو پیدا کیا مِنْ : سے تُرَابٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوگیا
بلاشبہ اللہ کے نزدیک تو عیسیٰ ایسا ہی ہے جیسا آدم کہ اس کو مٹی سے پیدا کیا ، حکم فرمایا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا (ہر چیز اس کے کلمہ { کن } سے پیدا کی گئی)
عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے عقیدہ باطلہ کا مکمل رد : 132: اس آیت میں عیسائیوں کی اس گمراہی کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے من حیث القوم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کا اعتقاد باطل پیدا کرلیا حالانکہ تمام بنی نوع انسان کی طرح وہ بھی ایک انسان تھے اور اللہ نے انہیں اپنی رسالت کے لیے چن لیا تھا جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام کو رسالت و نبوت کے لیے چن لیا گیا۔ تعجب ہے کہ اس آیت کو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے لیے دلیل کس طرح بنا لیا گیا اور مسئلہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مختلف فیہ کب رہا ؟ قرآن کریم کا مطالعہ کرو اور احادیث کی کتابوں کو ایک ایک کر کے دیکھ جاؤ تاریخ کی ورق گردانی کرلو کسی ایک جگہ بھی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان زیربحث نہیں آئی۔ یہود و نصاریٰ کے درمیان جو اختلاف تھا وہ بھی نسب عیسیٰ (علیہ السلام) میں تھا۔ یہود نامسعود (علیہ السلام) کے حسب و نسب میں طعن وتشنیع سے کام لیتے تھے جس کا ان کو جواب دیا گیا نصاریٰ کی طرف سے بھی اور اسلام کی طرف سے بھی لیکن یہ اختلاف یہود و نصاریٰ کا تھا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کا نہیں تھا۔ زیرنظر آیت میں یہود مخاطب نہیں بلکہ نصاریٰ مخاطب ہیں اور نصاریٰ اور اسلام کے درمیان مسئلہ مختلف ” الوہیت “ عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہے یا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ” ابن اللہ “ ہونے اور ” تین میں سے تیسرا “ ہونے کا ہے۔ اور ان باتوں کا تعلق عیسیٰ (علیہ السلام) کی پدوائش سے متعلق نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ شخص انعام کا مستحق ہے جو یہ ثابت کر دے کہ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس لیے ” الٰہ “ مانا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا۔ یا یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ کہا تو اس لیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا یا ” تین میں تیسرا “ ہونے کا دعویٰ کیا تو اس لیے کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے دلیل کیا ہے ؟ قرآن کریم اور صحیح حدیث رسل ﷺ تو اصل حجت ہیں لیکن اس میں وسعت سے کام لیتے ہوئے صحیح حدیث کے بعد حدیث کی مشہور اقسام اور صحابہ کرام ؓ کے آثار تاریخ کی شہادت اور اناجیل سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ مسئلہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا یا بلا باپ تھے اس بحث کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بات کو خلط ملط کرنے سے الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور الجھاؤ ہم نہیں چاہتے۔ نصاریٰ کے یہ تینوں نظریات جو اس وقت زیربحث ہیں قرآن کریم نے بڑی تحدی سے بیان کیے ہیں اور ان کو چیلنج کیا ہے کہ ان تینوں ہی نظریات میں تم غلط ہو اور تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ نہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا اور نہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل کسی سند سے تم اس کا جواز پیش کرسکتے ہو اور یہ کفر جو تم بکتے ہو اس سے باز آجاؤ ورنہ عذاب الٰہی کے لیے تیار رہو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا نہیں تھے قرآن کریم میں مسیحیوں کے اس عقیدہ کا رد کیا گیا چناندہ ارشاد الٰہی ہے : لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ (المائدہ : 72 , 17:5) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا خدا مریم کا بیٹا مسیح ہے۔ “ (اور یہی الفاظ آیت نمبر 72 میں ارشاد فرمائے گئے) سیدنا مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ محترمہ سیدہ مریم کو بھی مسیحیوں نے ” الٰہ “ مانا جن کے لیے ان کے پاس کوئی دلیی نہ تھی قرآن کریم فرماتا ہے : وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔ (المائدہ : 116) ” اور پھر جب ایسا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : ” اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ! کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو ؟ “ مسیحیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” اللہ کا بیٹا “ تسلیم کیا تو قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ۔ (التوبہ : 30:9) ” اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ “ وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ۔ (البقرہ : 116:6) ” اور عیسائیوں کو دیکھو کہ انہوں نے کہا مسیح کو اللہ نے اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ “ مسیحیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے متعلق ” تین میں سے تیسرا “ ہونے کا دعویٰ کیا جس کی قرآن کریم نے دو ٹوک الفاظ میں تردید کردی فرمایا : لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المائدہ : 73:5) ” یقینا وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا ” خدا تین میں کا ایک ہے “ یعنی باپ بیٹا اور روح القدس۔ “ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ ۔ (النساء : 171:4) ” اور یہ بات نہ کہو کہ خدا تین ہیں دیکھو ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہو حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ اکیلا معبود ہے۔ وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے کہ یہود و نصٓریٰ دونوں فریق یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ (المائدہ : 18:5) ” اور دیکھو یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ “ ان آیات کے اس جگہ درج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خوب اچھی طرح غور کرو عیسائیوں نے جب ان عقائد کا اعلان کیا تو کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” اللہ “ ” اللہ کا بیٹا “ یا ” تین میں کا تیسرا “ اس لیے مانتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا اور نہ ہی کہیں قرآن کریم نے یہ اشارہ دیا ہے کہ عیسائیوں نے یہ عقائد اس لیے اختیار کیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا چونکہ کوئی باپ نہیں تھا۔ پھر اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو وہ ” مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) دونوں کو جو خدا قرار دے رہے ہیں کبھی نہ دیتے اس لیے کہ مریم کے متعلق تو اس کے باپ نہ ہونے کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ مزید یہ کہ جب یہود و نصاریٰ کے بزرگوں نے یہ اعلان کیا کہ ” ہم اللہ کے بیٹے ہیں “ تو کیا ان سب کے باپ نہیں تھے تب انہوں نے یہ اعلان کیا تھا۔ حالانکہ ان سب کے باپ موجود تھے۔ باپ نہ ہونے سے یہ نظریہ انہوں نے اختیار ہی نہ کیا تھا بلکہ اس کے وجوہ کچھ اور ہی تھے اور وہی تھے جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ دے دیا کہ ” وہ اللہ کا محبوب اور دوست “ ہونے کی بنیاد پر یہ الفاظ اختیار کرتے تھے اور جو کچھ کہتے تھے وہ استعارۃً کہتے تھے لیکن اسلام نے ان کے اس استعارہ کو کبھی قبول نہیں کیا بلکہ اس کا دو ٹوک الفاظ میں رد کیا کہ تمہارا یہ کہنا کسی حال میں بھی درست نہیں ہے اور ایسا استعارہ استعمال کرنا صرف برائی ہی نہیں بلکہ صاف صاف کفر ہے جس کے کفر ہونے میں کسی طرح کا شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ مثال دیتے ہوئے ان کو اس طرح تفہیم کرایا کہ جس کو تم اللہ کہتے ہو ، اللہ کا بیٹا مانتے ہو اور تین میں سے تیسرا قرار دیتے ہو وہ ان اوصاف کا کبھی بھی متحمل نہیں ہو سکتا وہ کیا تھا ؟ فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی حالت اللہ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی حالت کی طرح ہے کہ اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ وہ ہوگیا۔ آدم کا ذکر قرآن کریم میں دو طرح سے ملتا ہے ابوالبشر ہونے کیت لحاظ سے یعنی بشریت کے لوازمات تامہ اس میں موجود تھے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ایک بندہ ہونے کے لحاظ سے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس میں بھی انہیں دو باتوں کا ذکر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) میں بھی بشر ہونے کی ساری صفات پائی جاتی ہیں اور دوسرے وہ اللہ تعالیٰ لیے برگزیدہ بندوں میں سے ایک بندہ ہیں۔ وہ پیدا ہوئے ، طفولیت میں رہے ، کہولت میں آئے اور انجام کار اٹھا لیے گئے اور ان پر یہ سارے ادوار اسی طرح گزرے جیسے نسل آدم کے لیے مقرر کیے گئے ہیں وہ اس طرح آدم (علیہ السلام) کی ذریت قرار دیے گئے جس طرح باقی انسان آدم (علیہ السلام) کی ذریت قرار دیے گئے ہیں۔ آخر وہ کون سی بات ہے جو دوسرے انسانوں سے ان کو جدا کرتی ہے اور انسانوں کے زمرہ اٹھا کر اللہ۔ اللہ کا بیٹا یا اللہ کا تیسرا حصہ بنا دیتی ہے۔ عقل کے ناخن لو۔ غور و فکر کرو اور جواب دو کہ آخر کس بناء پر عیسیٰ (علیہ السلام) کو ذریعت آدم سے باہر نکال کر اللہ کی ذریت قرار دے رہے ہو پھر ایسے بوکھلا گئے ہو کہ کبھی اللہ کہتے ہو کبھی اللہ کا بیٹا اور کبھی اللہ کا تیسرا حصہ۔ عیسائیوں کے پاس نہ اس وقت کوئی جاب تھا اور نہ اب ہے لیکن ڈھیٹ قومیں اپنے عقائد کا کوئی جواب نہ رکھنے کے باوجود ڈٹی رہتی ہیں ان کے پاس ساری باتوں کا ایک اور صرف ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ آج تک ہماری قوم اس طرح مانتی چلی آرہی ہے کیا وہ سارے کے سارے لوگ غلط تھے۔ کیا ہم یہ مان لیں ؟ نہیں نہیں یہ قوم کے دشمن کب پیدا ہوگئے ؟ کیا اللہ قادر نہیں وہ جس کو چاہے اپنے جیسا اللہ بنا دے یا اپنا بیٹا بنا لے یا تین اقنوم مل کر ایک اللہ ہوجائے۔ ان عقائد کی مخالفت کرنے والے تو سراسر عقل کی باتیں کرتے ہیں بھلا دین و مذہب کا بھی کوئی تعلق عقل سے ہے پھر ہر قوم میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ من حیث القوم کبھی غلط نہیں ہوتی۔ یہ عقائد تو ہماری قوم کے لیے حیات جاوداں ہیں اور ساری قوم ان کو تسلیم کرتی چلی آرہی ہے۔ قرآن کریم جو سراسر دعوت عقل و فکر ہے وہ کہتا ہے عیسائی قوم کے لوگو ! اچھی طرح سن لو پیدا ہونا بشریت کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے اور جس طرح پید اہونا تقاضا ہے اسی طرح مرنا بھی اور اس دنیا کی زندگی میں ان تغیرات کے ماتحت آنا ہے جو طفولیت سے لے کر کہولت تک انسان پر آتے ہیں۔ خدا نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے نہ اس پر تغیرات آتے ہیں کہ بچپن کی حالت سے ترقی کرتا کرتا ترقی کے آخری مرتبہ پر پہنچ کر پھر اس کے قویٰ میں تنزل واقع ہونا شروع ہوجائے اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس بات کا اعلان کرا دیا کہ : وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ َو یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم : 33:19) ” اور مجھ پر اس اللہ کی طرف سے سلامتی کا پیام ہے جس دن پید اہوا جس دن مروں گا اور جس دن پھر زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ “ دنیا میں جو کچھ پیدا ہوا ، اور آئندہ ہوگا سب کلمہ ” کن “ ہی سے ہے : 133: اور قرآن کریم کی آیات میں ” کن فیکون “ کے الفاظ تعریف آیات میں مختلف جگہوں پر بیان کر کے یہ بیان واضح کردی کہ دنیا میں جو کچھ ہے آپ ، میں اور سب بلکہ دنیا کی ہرچیز خواہ جاندار ہو یا بےجان متحرک ہو یا جامد سب کی سب اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن ہی سے پیدا ہوئی ہیں اور پیدا ہو رہی ہیں اور پیدا ہوتی رہیں گی کوئی چیز بھی اس کے کلمہ کن سے باہر نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ یہاں جس کے لیے جو ضابطہ اس نے مقرر فرمایا ہے وہ بھی اس کلمہ کن ہی سے ہے اس سے باہر ہرگز نہیں اس لیے وہ اس ضابطہ کے تحت ہوتی رہیں گی اس کے خلاف ممکن نہیں کہ ضابطہ الٰہی کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں اور اللہ کے بنائے ہوئے طریقوں میں تبدیلی ممکن نہیں۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِیْمٰتِ اللّٰہِ ۔
Top