Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 77
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَشْتَرُوْنَ : خریدتے (حاصل کرتے) ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا اقرار وَاَيْمَانِهِمْ : اور اپنی قسمیں ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَا : نہیں خَلَاقَ : حصہ لَھُمْ : ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُھُمُ : ان سے کلام کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ يَنْظُرُ : نظر کرے گا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا يُزَكِّيْهِمْ : اور نہ انہیں پاک کرے گا وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک حقیر قیمت کے لیے اللہ کا عہد اور خود اپنی قسمیں فروخت کر ڈالتے ہیں تو یہی لوگ ہیں کہ آخرت میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا نہ تو قیامت کے دن اللہ ان سے کلام کرے گا ، نہ ان کو دیکھے گانہ وہ گناہوں کی آلودگی سے پاک کیے جائیں گے ، پس ان کے لیے دردناک قسم کا عذاب ہو گا
اللہ کے عہد توڑنے والوں اور جھوٹی قسمیں کھانے والوں کا حال : 158: عہد اس قول کا نام ہے جو فریقین کے درمیان باہمی بات چیت سے طے ہوتا ہے جس پر جانبین کو قائم رہنا ضروری ہوتا ہے بخلاف وعدہ کے کہ وہ صرف جانب واحد سے ہوتا ہے یعنی عہد عام ہے اور وعدہ خاص ہے۔ ایفائے عہد کی قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بہت تاکید آئی ہے چناچہ اس آیت میں بھی عہد کے خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ (1) ان کو جنت کی نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ (2) اللہ تعالیٰ ان سے خوش کن بات نہیں کرے گا۔ (3) اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے روز رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ (4) اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا کیونکہ عہد کے خلاف کرنے کی وجہ سے عبد کا حق تلف ہوا ہے اور حق العبد کو اللہ تعالیٰ نے معاف نہ کرنے کا خود عہد فرمایا ہے۔ (5) اور ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ یہ گویا آیت کا ماحصل تھا اب ذرا تفصیل بیان کی جاتی ہے : ” ابو وائل ؓ کی وساطت سے عبداللہ ؓ کی روایت بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کا مال مارنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے گا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی پیشی ایسی حالت میں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا اور یہ بیان کرنے کے بعد آپ ﷺ نے یہ پوری آیت ولھم عذاب الیم تک تلاوت فرمائی۔ حضرت عبداللہ یہ حدیث بیان کرچکے تو حضرت اشعث ؓ جو قیس کے بیٹے تھے باہر سے اندر تشریف لائے اور لوگوں سے دریافت کیا کہ ابوعبدالرحم نے تم سے کیا حدیث بیان کی تھی ؟ لوگوں نے بتا دیا کہ یہ یہ بیان کیا تھا حضرت اشعث کہنے لگے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ بات اس طرح ہوئی کہ میرا ایک کنواں میرے چچا کے بیٹے کی زمین میں تھا میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی آپ ﷺ نے فرمایا اپنے گواہ پیش کرو ورنہ اس کی قسم کو تسلیم کرلو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! وہ تو اس پر قسم کھالے گا آپ ﷺ نے فرمایا جس نے مسلمان آدمی کا مال مارنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی جب کہ وہ اس قسم کے کھانے میں جھوٹا ہو تو قہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کی پیشی میں حاضر ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا۔ (بخاری و مسلم) ایک حدیث میں حضرت اشعث بن قیس ؓ کا قول اس طرح منقول ہے کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ زمین کا نزاع تھا یہودی میرے حق کا منکر تھا میں اس کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تیرے پاس گواہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ ﷺ نے یہودی سے فرمایا تو قسم کھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو قسم کھالے گا اور میرا مال لے جائے گا اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابوداؤد ، ابن ماجہ) حضرت عبداللہ بن ابی بن اوفیٰ سے روایت ہے کہ ایک شخص کچھ تجارتی سامان بازار میں لایا اور کسی گاہک کو پھانسنے کے لیے اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ مجھے اس کی اتنی قیمت ملتی ہے حالانکہ اس کو اتنی قیمت نہیں ملتی تھی۔ یا اس طرح کہا کہ میں نے اس سامان کی اتنی قیمت دی ہے اور اس پر تاکیداً قسم بھی کھائی حالانکہ اس نے اتنی قیمت نہیں دی تھی اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری) حافظ ابن حجر (رح) فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں اس لیے کہ بات تقریباً ایک ہی جیسی ہے اور مختلف واقعات بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک آیت کے نزول کے دو سبب بھی ہو سکتے ہیں اور ایک بار آیت نازل ہوئی ہو تو اس جیسے دوسرے واقعہ پر وہ آیت تلاوت کی جاسکتی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت کا نزول یہ تھا۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر آج کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو بھی اس آیت کی تلاوت کی جاسکتی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کام یا یہ بات اس آیت کے خلاف ہے۔ ثمنا قَلِیْلًا “ سے مراد متاع دنیا ہے وہ کثیر ہو قلیل کیونکہ جنت کی نعمتوں کے بالمقابل پوری دنیا کی دولت بھی ہیچ ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ادائے امانت کے عہد اور جھوٹی قسموں کے عوض مال حاصل کرتے ہیں وہ ثمن قلیل ہی ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ آیت کا شان نزول کوئی بھی ہو اور کسی واقعہ کے متعلق بھی ہو پہلی بار نازل ہوئی ہو اس جیسے ہر واقعہ پر اس کا اطلاق جائز اور درست ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتب تفاسیر میں اس کے کئی ایک شان نزول درج ہوئے ہیں اور مقام و حکم کے لحاظ سے سب صحیح ہیں جن میں سے یہاں دو کا ذکر اوپر کردیا گیا۔ ان احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر فریقین میں اختلاف ہوجائے تو ظاہر ہے کہ ایک ان میں سے مدعی ہوگا ہوگا اور دوسرا مدعا علیہ۔ مدعی کو گواہ پیش کرنا ہوں گے اگر وہ گواہ پیش نہ کرسکے تو مدعا علیہ پر قسم ہوگی اور مدعا علیہ قسم کھالے تو مدعی کو تسلیم کرنا ہوگا اور حقیقت حال اللہ کے سپرد کرنا ہوگی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ فریقین میں سے ایک مسلم اور دوسرا غیر مسلم ہو تو بھی فیصلہ تم پر ہی ہوگا اور قسم اللہ کی کھائی جائے گی غیر اللہ کی قسم نہیں کھائی جاسکتی۔ خیانت کرنے والوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا : 159: ” جو لوگ دنیاداری کی جگہ خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو یہی لوگ ہیں کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا “ ابوامامہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس شخص نے قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارا اللہ نے اس کے لیے دوزخ لازم کردی اور جنت حرام کردی ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اگرچہ تھوڑی سی چیز ہو آپ ﷺ نے فرمایا اگر درخت یلو کی ایک ٹہنی ہو ایک روایت میں ہے کہ یہ آخری لفظ رسول اللہ ﷺ نے تین بار دہرایا (مسلم) تاکید کے لیے آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ ایک لفظ کو بار بار کم از کم تین بار دہراتے تھے۔ احادیث و آثار سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسانی اعمال نامہ کے تین حصے ہوں گے۔ ایک حصہ وہ جس کی پرواہ سختی کے ساتھ نہیں ہوگی۔ دوسرا حصہ وہ جس میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے گی اور بعد میں وہ معاف ہو یا نہ ہو اور تیسرا حصہ وہ ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ جو معاف نہیں فرمائے جائیں گے وہ تو شرک ہے اور جس حصہ کا کوئی خاص پروا نہیں فرمائے گا وہ انسان کا خود اپنی جان پر ظلم ہے یعنی وہ حقوق جو براہ راست خدا کے انسان پر ہیں و اگر ان کو ادا نہ کیا گیا جیسے روزہ یا نماز کا ترک ہوگیا جس میں کوئی چیز بھی نہیں چھوڑی جائے گی وہ حقوق العباد ہیں یعنی انسانوں کو باہم حق تلفیاں ہیں جن کا لامحالہ بدلہ دینا ہوگا۔ ہاں ! جس کی حق تلفی ہوگی اگر وہ معاف کر دے یہ دوسری بات ہے۔ دردناک عذاب میں کون کون لوگ ہو سکتے ہیں اور آج مسلمانوں کی حالت کیا ہے ؟ 160: ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر شفقت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان ہی کے لیے عذاب دردناک ہے۔ آپ ﷺ نے یہ آیت تین بار تلاوت فرمائی۔ حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ ناکام و نامراد ہوں گے مگر وہ ہیں کون لوگ ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک تو وہ جو غرور تکبر کی وجہ سے تہبند نیچی لٹکانے والے ہیں یعنی ٹخنوں سے نیچے اور دوسرے وہ جو احسان جتلانے والے ہیں کہ جب کسی کو کوئی چیز احساناً دے دی پھر بار بار جتلاتے رہے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے مال کو فروخت کرنے والے۔ (مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی) مقام غور ہے کہ آج خود مسلمان ان تینوں چیزوں کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ آگے گزرنے سے پہلے اپنا جائزہ لے لیں کہ کیا آپ بھی ان تینوں چیزوں میں سے کوئی موجود تو نہیں ؟ یاد رہے کہ اس کا علاج بھی یہی ہے کہ ہر آدمی خواہ وہ کوئی ہو خود اپنا جائزہ لے بجائے اس کے کہ ہم سب ایک دوسرے کا جائزہ لیتے رہیں اس سے مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔ مذکورہ تینوں باتیں ایسی ہیں کہ کسی دوسرے سے پوچھنے اور سوال کرنے کی نہیں بلکہ ہر انسان بغیر کچھ پوچھے اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ میرا تہبند ، شلوار یا پاجامہ و پینٹ کی کیا پوزیشن ہے۔ احسان جتانا بھی بالکل عام ہے اور ہر آدمی کو اس سے واسطہ پڑ سکتا ہے اور یاد رہے کہ دکھاوا بھی دراصل احسان جتلانے کی ایک صورت ہے بلکہ احسان جتلانے کی ساری صورتوں سے زیادہ اور نہایت بری صورت۔ لیکن آج ہمیں محسوس بھی نہیں ہو رہی بلکہ جو دکھاوا نہ کرے وہ محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں نہیں کیا اور نہ کرنے والے کو برا سمجھا جاتا ہے کیا اپنی عزیز بیٹی کو رخصت کرتے وقت دکھاوا نہیں کیا جاتا ؟ عزیزوں اور رشتہ داروں کے ہاں کوئی چیز لے جاتے وقت دکھلاوا نہیں ہوتا معمولی باتوں میں بھی اور بڑے بڑے کاموں میں بھی آخر کیوں ؟ اس لیے کہ سب کو معلوم ہو کہ فلاں نے یہ کیا اور یہ کیا ، اگر یہ معلوم نہ ہو تو بےعزتی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلِیْہِ رَاجِعُوْنَ پھر آج دیا تو کل واپسی کا مطالبہ جو واپس نہ کرسکے یا اس قدر واپس نہ کرے اس سے کیا سلوک ہوتا ہے ؟ سب کو معلوم ہے۔ بھائیو اور بہنو ! یہ سب بری رسومات ہیں جن کا تعلق اسلام سے نہ ہے۔ اپنا اپنا جائزہ لے کر ہی ان کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ خریدو فروخت میں مال بیچنے کی جو صورت آج کل رائج ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ قسموں پر قسمیں خدا کی اور غیر خدا کی اور یہ بات تو آج کل اتنی عام ہے کہ اس سے کوئی بھی شاید مستثنیٰ نہ کیا جاسکے کہ مجھے اس چیز کے اتنے دام ملتے ہیں یا یہ چیز میں نے اتنے کی خود خریدی ہے حالانکہ نہ اتنے دام ملے ہوتے ہیں اور نہ ہی اتنے کی خریدی ہوتی ہے۔ یاد رکھو کہ کسی چیز کے صرف پڑھ لینے یا سن لینے میں نجات نہیں جب تک اس کے مطابق عمل نہ ہو بلکہ پڑھ لینا اور سن لینا اور پھر اس کے مطابق عمل نہ کرنا نتیجہ عمل کو لازم و ضروری کردیتا ہے۔ ان تینوں چیزوں کو عمل میں نہ لانے کا نتیجہ کیا ہے کہ ان کے لیے دردناک عذاب کی وعید ہے۔ اس لیے یہ معمولی باتیں نہیں ہیں بلکہ نہایت اہم ضروری باتیں اور ہر انسان کا اپنا فرض ہے کہ وہ خود اپنا عمل نگاہ میں رکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں یا مجھ سے کیا سرزد ہو رہا ہے ؟ یہ جو فرمایا کہ ” تین ہیں جن سے قیامت کے روز اللہ کلام نہیں فرمائے گا۔ “ تین ہیں سے مراد ہے کہ تین قسم کے لوگ ہیں اور پھر یہ ” تین ہیں “ بہت سی احادیث میں مختلف کاموں سے بھی نظر آتے ہیں مثلاً کسی حدیث میں ” تین ہیں “ کے بعد ہوگا کہ ایک ان میں سے وہ جو ضرورت سے زائد پانی رکھتا ہے اور بیابان کے اندر پانی کی ضروت رکھنے والے کو وہ پانی نہ دے اور دوسرا وہ جو امام کی بیعت کرے لیکن صرف دنیا کے لیے اگر امام نے کچھ دے دیا تو وفادار ورنہ غدار وغیرہ وغیرہ تو یہ کوئی اختلاف نہیں بلکہ کسی موقع پر کوئی تین باتیں ارشاد فرمائیں اور کسی موقع پر کوئی سی تین باتیں اور یہ انداز گفتگو ہوتا ہے جو ہر دور اور ہر زمانہ میں پایا جاتا ہے اس کے پیچھے پڑ کر کسی بات کو جھٹلانا یا شک کرنا جہالت اور نادانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مثلاً کسی حدیث میں آیا کہ تین بچوں نے یہ بات کی ہے اور پھر ان کی وضاحت کرتے وقت کبھی کوئی تین بیان فرمائے اور کبھی کوئی بیان فرما دیے دراصل وہ حسب ضرورت بیان ہوتا ہے جو ضرورت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ پھر تین بچوں سے مراد بھی تین ہی بچے نہیں بلکہ تین قسم کے بچے ہوتے ہیں اس طرح بولنے سے مراد بھی بزبان قال نہیں بلکہ بزبان حال مراد ہوتا ہے۔ جس کو بیان کرتے وقت اس طرح بیان کیا کیا جاتا ہے جس طرح زمین بولتی ہے آسمان بولتا ہے اور زمین و آسمان کی ہرچیز بولتی ہے جاندار بولتے ہیں اور بےجان اور ٹھوس چیزیں بولتی ہیں لیکن ان سب کے بولنے کا مطلب ہر کوئی سمجھتا ہے کہ ان کا بولنا کیا ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ ایسی باتیں ٹھوکر کا باعث نہ ہوں بلکہ جس سے جو مراد ہے وہی مراد لینا عقل مندی ہے لفظی بحث اور تکرار بےکار ہوتا ہے۔ اس طرح کچھ احادیث میں سات سات آدمیوں کا ذکر ہے اور کچھ حادیث میں دس دس آدمیوں کا جس سے مراد بھی اتنی اقسام ہی ہوں گی۔ ایک حدیث میں تین آدمیوں کی تفصیل اس طرح ارشاد فرمائی گئی ہے جو حضرت سلیمان ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” ایک بوڑھا زانی ، دوسرا شیخی خوار مفلس اور تیسرا وہ جس کا سرمایہ ہی قسم ہے کہ بیچے گا تو قسمیں اور خریدے گا تو قسمیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ بیچے گا تو قسمیں کھا کھا کر کہے گا کہ مجھے اتنے دام ملتے ہیں اور خریدے گا تو کہے کہ یہ چیز مجھے اتنے کی ملتی تھی اور اس بات پر قسموں اور قسمیں کھاتا رہے گا۔
Top