Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 90
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
البتہ جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کی راہ اختیار کی اور اپنے کفر میں بڑھتے ہی گئے تو ایسے لوگوں کی توبہ کبھی قبول ہونے والی نہیں اور یہی لوگ ہیں جو سیدھی راہ سے بھٹک گئے
وہ لوگ کون ہیں جن کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور وہ توبہ کیسی توبہ ہے ؟ 176: گزشتہ آیت 89 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ : ” جن لوگوں نے کفر کے بعد توبہ کرلی اور اپنے آپ کو سنوار لیا تو بلاشبہ اللہ رحمت کرنے والا بخش دینے والا ہے۔ “ اور اس آیت 90 میں ہے کہ ” ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی “ ہاں ہاں ! ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوگی ؟ کیسے لوگوں کی ؟ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور برابر کفر میں بڑھتے ہی گئے اور منہ سے توبہ توبہ بھی کرتے رہے تو آخر نا کی توبہ توبہ کرنے کو کیوں کر قبول کرلیا جائے گا جب کہ ان کا عمل بتا رہا ہے کہ انہوں نے توبہ نہیں کی۔ پہلے لوگوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنے آپ کو سنوار لیا یعنی سچے دل سے کفر سے توبہ کر کے ایمان و اسلام قبول کرلیا اور ایسی توبہ کی کہ دوبارہ اس کفر اور اس گناہ کے مرتکب نہ ہوئے اور دوسرے لوگ وہ ہوئے جو منہ سے توبہ توبہ کرتے رہے لیکن عملاً پہلے سے بھی بدتر ہوتے گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو سنوارنے کی بجائے مزید بگاڑا اس لیے ارشاد الٰہی ہوا کہ ” جن لوگوں کا حال ایسا ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا یعنی کفر کی راہ اختیار کی اور اپنے کفر میں بڑھتے ہی گئے ” ثُمَّ اَزْدَادُوْ کُفْراً “ ” لَنْ تُقْبَلَ تَوْبُتُھُمْ “ تو ایسے لوگوں کی توبہ کبھی قبول نہیں ہوگی اس لیے کہ ان کو سچی توبہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور وہ اپنے توبہ کرنے میں سچے نہیں بلکہ جھوٹے ہیں اور سیدھی راہ سے ایسے بھٹکتے ہیں کہ بھٹکتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ حضرت قتادہ ؓ اور حسن بصری (رح) کا بیان ہے کہ اس آیت کا نزول یہودیوں کے حق میں ہوا جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات پر ایمان لانے کا دعویٰ کیا لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کو ماننے سے انکار کردیا اور اس طرح انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) اور توراۃ سے عملاً انکار کردیا کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کی پیش گوئیاں بھی تورات میں موجود تھیں جن کو انہوں نے تورات ماننے کے دعویٰ کے باوجود جھٹلایا اور اس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کا انکار کر کے مزید کفر میں ترقی کی گویا وہ ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور برابر کفر میں بڑھتے ہی گئے اور ایمان لانے کے دعویٰ کو بھی ساتھ دہراتے رہے اور ان کے اس دعویٰ کو کیونکر قبول کرلیا جائے جب کہ ان کا دعویٰ ایمان سوفی صدی غلط ہے۔ بلاشبہ شان نزول یہود ہی کے حق میں ہوگا لیکن بظاہر یہ حالت جس شخص کی بھی ہو آیت کا مفہوم اس پر چسپاں ہوق گا اس لیے کہ حکم عام ہے صرف یہودیوں سے خاص نہیں۔ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور انجیل کو مانا لیکن جب محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے باوجود اس کے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کی آمد کی اطلاع دو ٹوک الفاظ میں دی تھی اور آج بھی وہ انجیل میں موجود ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا لیکن انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو نہیں مانا اس طرح وہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کو بھی جھٹلانے والے ہوئے اور محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم سے پھر اعراض کرنے کا کفر اختیار کیا تو آخر وہ اس آیت کے مفہوم میں کیوں نہیں آئیں گے بالکل آئیں گے اس لیے کہ جو ان کا دعویٰ ہے وہ اس دعویٰ میں بالکل جھوٹے ہیں اور اس کفر میں وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ” اَلَّذِیْنَ کَفَرُوا “ سے مراد وہ منافق بھی ہوسکتے ہیں اس لیے اعلانیہ کافروں سے منافقوں کا کفر زیادہ خطرناک ہے اور ان کا دعوی بھی کفر کی بجائے ایمان کا ہے نہ وہ منافقت سے باز آئیں اور نہ ہی دعویٰ ایمان سے تو وہ دعوی ایمان میں آخر کیوں کر سچے ہوئے ؟ اور ان کے دعویٰ ایمان کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں ترقی ہی کرتے جائیں گے منہ سے سو بار وہ ایمان کا دعویٰ کریں اور کفر سے تبہ کا اظہار کریں ان کی یہ توبہ کبیھ مقبول نہیں ہوگی اور قرآن کریم نے ان گنت مقامات پر اس کی وضاحت فرما دی ہے اور ان کی اس توبہ کا انکار کیا ہے اور ان کے دعویٰ ایمان کو قبولیت نیں بخشی اگرچہ وہ مسلمان قوم میں شمار بھی ہوتے رہے اور کاغذی پوزیشن میں وہ مسلمان گنے جاتے رہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ نماز ، روزہ کی مشقت بھی برداشت کرتے رہے اور کفر میں بھی ترقی پذیر ہی رہے اور آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اللہ کے خالق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود شرک کرتے ہیں اور دن بدن اس کفر میں بڑھتے ہی جاتے ہیں اور مرتے دم تک اس کفر پر قائم رہتے ہیں۔ مجاہدنے اس آیت سے ایسے ہی کافر مراد لیے ہیں جو شرک کے کفر میں مبتلا ہیں اور ایمان کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر مزید وضاحت فرما دی ہے چناچہ ایک جگہ ارشد الٰہی ہے : ” جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایمان لائے پھر کفر میں پڑگئے ، پھر ایمان لائے پھر کفر میں پڑگئے اور پھر برابر کفر میں ہی بڑھتے رہے تو فی الحقیقت ان کا ایمان لانا ایمان لانا نہ تھا۔ اللہ انہیں بخشنے والا نہیں اور ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ انہیں کوئی راہ دکھائے “ (النساء 4 : 137) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم میں بےباک ہوگئے اور مرتے دم تک اسی حالت میں رہے تو اللہ تعالیٰ انہیں کبھی بخشنے والا نہیں نہ انہیں کامیابی کی کوئی راہ دکھائے گا۔ بجز جہنم کی راہ کے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لیے ایسا کرنا بالکل مہمل ہے کوئی نہیں جو اس کے قانون میں رکاوٹ ڈال سکے۔ “ (النساء 4 : 168 ، 169) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” کتنے ہی چہرے اسروز یعنی قیامت کے روز کالے پڑجائیں گے اور جن لوگوں کے چہرے کالے پڑجائیں گے ان سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کی راہ اختیار کی تو جیسی کچھ تمہاری منکرانہ چال تھی اب اس کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھ لو۔ “ (ال عمران 3 : 106) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ : ” دراصل جو لوگ ہدایت کے واضح ہونے کے بعد پھر اس ہدایت سے پھرگئے ان کے لیے شیطان نے یہ بات آراستہ کر دکھائی ہے اور جھوٹ امیدوں کا سلسلہ ان کے لیے درازکر رکھا ہے۔ “ (محمد 74 : 25) مزید تفصیل کے لیے دیکھو عروۃ الوثقیٰ جلد الو سورة بقرہ آیت : 317
Top