Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم نیکی کا درجہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم مال و دولت میں سے جو کچھ محبوب رکھتے ہو اسے راہ حق میں خرچ کرو اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو وہ اللہ کے علم سے چھپا نہیں
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے وقت کس بات کا خیال رکھناضروریات دین میں سے ہے ؟ : 179: اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مال حلال و طیب ہو اور اچھی قسم کا ہو ادنی قسم کا مال چھانٹ چھانٹ کر نہ دیا جائے۔ ” بر “ کے معنوں میں بہت وسعت ہے اس کے مطلب و مفہوم میں انعام ، جنت ، بھلائی، احسان کی وسعت ، سچائی اور طاعت سب آتے ہیں۔ اگر ” بر “ کی نسبت بندہ کی طرف کی جائے تو اس سے مراد اطاعت ، سچائی اور احسان کی وسعت ہوگی اور اس وقت اس کے مقابل فجور اور عقوق کا لفظ آئے گا لیکن جب نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد رحمت ، جنت اور رضائے الٰہی ہوگی اور اس کے مقابل غضب اور عذاب کا لفظ آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” سچائی اختیار کرو کیونکہ سچائی” بر “ کی طرف لے جاتی ہے اور ” بر “ جنت کی طرف۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچ ہی کی نیت کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو ” صدیق “ لکھ دیاجاتا ہے اور جھوٹ سے پرہیز کرو کیونکہ جھوٹ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاری دوزخ کی طرف جب آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کی نیت کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اس کو ” کذاب “ لکھ دیا جاتا ہے۔ “ (رواہ مسلم) حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مرفوع روایتے کہ صدق کو اختیار کرو صدق ” بر “ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں جنت میں لے جاتے ہیں اور کذب سے پرہیز کرو کذب فجور کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں دوزخ میں لے جاتے ہیں۔ (رواہ احمد وابن ماجہ والبخاری فی الادب) پیچھے سے سلسلہ مضمون اس رنگ میں چل رہا تھا کہ اہل کتاب اگر ساری زمین کو بھی سونے سے بھر دیں تو وہ ان کی بدیوں کا فدیہ نہیں ہوسکتا اس لیے اب مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ وہ ” البر “ یعنی خیر کثیر یا سب قسم کی خیر کے ابواب میں کس طرح داخل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ سونے سے زمین بھرنے والوں کے بالمقابل جنہوں نے اپنی ساری طاقتوں کو اس سفلی زندگی پر لگا دیا ہے اس گروہ کا ذکر بھی ضروری تھا جو ہر قسم کی خیر اور نیکی کو حاصل کرے تو اس کا گریہ بتایا کہ جن چیزوں سے تم کو محبت ہے وہ خرچ کر دو تو جمیع ابواب خیر میں داخل ہوجاؤ گے۔ ” البر “ کے مختلف معنی لیے گئے ہیں اور سارے کے سارے ہی اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ ” البر “ کے معنی جنت بی لیے گئے ہیں مگر ماحصل دونوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جس نے جمیع خصال خیر حاصل کرلیے وہ اس دنیا میں جنت کا مستحق ہوگیا۔ مِمَّا تُحِبُّوْنَ سے مراد صرف مال و ذر ہی نہیں بلکہ ضرورت ہو تو اپنے اوقت عزیز کو اللہ کی راہ میں لگانا اپنی عزت اور مرتبہ کو جس سے انسان یقیناً محبت کرتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو راہ الٰہی یعنی رضائے الٰہی میں لگا دینا یہ سب کچھ اس کے اندر داخل ہے۔ ہاں مال و جائیداد سب سے زیادہ محسوس ہونے عالی چیز ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر جب ہوگیا تو سب کچھ اس میں داخل ہوگیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کو حکم زکوٰة والی آیت سے منسوخ تسلیم کیا ہے حالانکہ اس آیت میں بیان کیا گیا اصول اتنا پختہ اور اتنا ہی مضبوط اصول ہے کہ جب تک انسان اس دنیا میں ہے یہ کبھی منسوخ نہیں ہوسکتا۔ نسل انسانی کی ساری ترقیات کا مدار ہی محبوب اشیاء کے خرچ کرنے پر ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے اس اصول کو خوب سمجھا تھا اور اپنی جانیں مال اور جائیدادیں سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردی تھیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بڑائی اور بزرگی کے وارث قرار پائے تھے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ تمام انصار میں سے حضرت ابو طلحہ ؓ زیادہ مال دار تھے وہ اپنے تام مال اور جائیداد میں ” بیئر حاء “ نامی باغی جو مسجد نبوی ﷺ کے سامنے تھا سب سے زیادہ پسند کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ بھی اکثر اسی باغ میں جایا کرتے تھے اور اس کو کنوئیں کا میٹھا اور عمدہ پانی پیا کرتے تھے حب یہ آیت زیر نظر نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ ؓ نے حضر ہو کر آپ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال یہی ” بیئر حاء “ ہے لہٰذا میں اس کو اس امید میں کہ جو بھلائی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بھی میرے لیے جمع رہے میں اس باغ کو راہ خدا میں صدقہ کرتا ہوں ، لہٰذا آپ ﷺ کو اختیار ہے کہ جس طرح مناسب سمجھیں اس کو تقسیم کردیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اس باغ کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ “ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کی کہ بہت اچھا اور پھر اس باغ کو اپنے رشتہ داروں ، چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری و مسلم ، مسند احمد) اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات کتب احادیث میں ملتے ہیں اور سارے کے سارے صحیح اور سچے ہیں اس لیے کہ صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں جو محبت اللہ تعالیٰ کی کتاب اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تھی وہ کسی دوسری چیز کی ہرگز نہ تھی اس کے سامنے دنیا کے مال کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ علم الٰہی میں کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں کہ اس کو انسان کی نیت کا بھی علم ہے : 180: ہر عمل کا مدار نیت پر ہے اور اللہ تعالیٰ انسانوں کی نیتوں سے بھی خوب واقع ہے اس پر کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی مخفی نہیں مطلب یہ ہے کہ نیک کام کے لیے جو کچھ بھی لگاؤ گے اس کا اجر تو بہرحال ملے گا ، باقی خیر کامل کا جو درجہ اعلیٰ ہے وہ تو اسی وقت حاصل ہوگا جب راہ حق میں اپنے محبوبات و مرغوبات کی قربانی پیش کرو گے۔ مِنْ شَىٍٔ یعنی عام اس سے کہ وہ محبوب ہو یا محبوب نہ ہو۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھو عروة الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ آیت :267 ۔ 215 ۔ 177 ۔
Top