Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جب تم پر اوپر کی جانب سے اور نیچے کی طرف سے وہ لوگ (دشمن) چڑھ آئے اور جب (تمہاری) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم لوگ اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے
وہ وقت یاد کرو جب یہ لشکر تم پر چڑھ آئے اور تمہاری حالت دیدنی تھی 10) جماعت میں ہمیشہ مختلف قسم اور مختلف حالت وقوت اور مختلف ذہن و دماغ کے لوگ ہوتے ہیں اور پھر جب اس جماعت کے بعض لوگوں کی حالت کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے تو بعض اوقات جمع کے صیغے اس طرح بولے جاتے ہیں کہ شاید یہ حالت ساری جماعت کی ہے جو بیان کی جارہی ہے حالانکہ وہ حالت ساری جماعت کی نہیں بلکہ بعض افراد کی ہوتی ہے جس کے پیش نظر پوری جماعت مخاطب کی جاتی ہے اور یہ بات ہر زبان میں عام طور پر پائی جاتی ہے ، اسی لئے محاورہ ہے کہ ” ایک مچھلی سارے جل کو گندا کردیتی ہے “۔ جس کا مطلب سب جانتے ہیں کہ بعض اوقات ایک ہی فرد کے باعث پوری قوم بدنام ہوجاتی ہے۔ یہی صورت حال تھی جس کو زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب مخالفین نے تم پر ہلہ بول دیا تھا ، اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی اور تم نے جب یہ حالت دیکھی اور سنی تو تمہارے دل اچھلنے شروع ہوگئے اور تمہاری آنکھیں پتھراگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے۔ “ گویا دشمن نے تم کو ہر طرف سے گھیر لیا اور صورت حال اتنی بھیانک ہوگئی کہ دہشت کے مارے تمہاری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور تمہارے کلیجے خوف و حرارت سے منہ کو آنے لگے اور تمہاری ہوا اکھڑ گئی تھی یہ وہ حالت ہے جس میں جو ہورہا ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اندرونی دشمن غلط خبریں اڑانا شروع کردیتے ہیں اور ایسی بےپر کی اڑاتے ہیں کہ انسان سنتے ہی حواب باختہ ہوجاتا ہے اور ہر طرف سے غلط قسم کی خبریں آنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر ایک سے ایک بڑھ کر خبر آتی ہے اور ہر خبر پہلی خبر سے سوائی ہوتی ہے کچھ سمجھ بھی نہیں آتا کہ آدمی کس خبر کی تصدیق کرے اور کس کی تکذیب کرے اور ایسے حالات میں لوگ پر کا کوا اور کوے کا ڈار بناتے ہیں جس سے بڑے بڑے پکے ذہن کے لوگ ایک بار ہل جاتے ہیں ، اس وقت کچھ اسی طرح کی حالت پیدا ہوگئی جس طرح کی حالت بیان کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اور تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگ گئے “۔ بلا شبہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ سب لوگوں کے اندیشے یکساں نہ تھے ، منافق تو یہ خیال کر رہے تھے کہ اب اسلام کا درخت جڑوں سے اکھڑجائے گا اور یہ آندھی اس چراغ کو ہمیشہ کے لئے کل کردے گی اور بزدل لوگ میدان سے بھاگنے کی تدبیریں کرنے لگے حالانکہ میدان میں یہ لوگ بالکل محفوظ تھے بلکہ اپنے حواریوں میں بیٹھ کر ضرورت کے وقت صرف دشمنوں پر تیر چلانے کا کام تھا ، ان کے پاس رسد کی کوئی کمی نہیں تھی ، جن دنوں خندق کھودی جارہی تھی ان دنوں محنت شاقہ سے کام کرنا پڑا تھا ، حملہ آوروں کے حملہ آور ہونے کے بعد جتنی تکالیف کا سامنا تھا وہ سب محاصرین کے لئے تھا ، محصورین کے لئے کوئی بات مشکل نہ تھی مگر ہاں جو خیال انتشار تھا صرف وہ تھا وہ بھی ان لوگوں کو جن کی ایمانی حالت اتنی پختہ نہیں تھی بلکہ کسی حد تک کمزور تھی اور اسی طرح کمزور لوگ دوسروں کو کمزور کر رہے تھے۔
Top