Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 24
لِّیَجْزِیَ اللّٰهُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِهِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
لِّيَجْزِيَ : تاکہ جزا دے اللّٰهُ : اللہ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ بِصِدْقِهِمْ : ان کی سچائی کی وَيُعَذِّبَ : اور وہ عذاب دے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقوں اِنْ شَآءَ : اگر وہ چاہے اَوْ : یا يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ : وہ ان کی توبہ قبول کرلے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلہ دے اور منافقوں کو چاہے عذاب دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے (جب وہ پھنستے ہیں تو توبہ توبہ کرتے ہیں) بلاشبہ اللہ بڑا بخشنے والا بہت ہی پیار کرنے والا ہے
سچوں کو سچائی کا اجر ملے گا اور منافقوں کو نفاق کی چاہے تو اللہ سزا دے 24 ۔ قرآن کریم نے صحابہ کرام کو { الصادقین } کہا ہے اور ظاہر ہے کہ صادف سچے ہی کو کہا جاتا ہے مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچائی اور مطابق حقیقت قولی ہی کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خودبھی سچا ہو اور جس کا قائل بھی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جیسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے مثلاً ایک شخص اگر یہ کہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے کیونکہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جائے گا جب کہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں لہٰذا صدق کے لئے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور فائل کے ضمیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عمل راستبازی بھی شامل ہے۔ صادق الوعدوعدے کا سچا اس شخص کہ کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو ، صدیق سچا دوست اس کو کہا جائے جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بےوفائی کا تجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق القتال سچا سپاہی صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے بہادری ثابت کردی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ اس وقت ہماری پوری قوم اور قوم کے سارے راہنما جن میں مذہبی پیشوا بھی شامل ہیں اور سیاسی لیڈر بھی قرآن کریم کے اس لفظ کی اس طرح کی تشریح جو اس نے پیش کی ہم کو کیا کہنا چاہیے ؟ کیا ہم ان کو سچے پیشوا اور صحیح لیڈر مان لیں یا کیا سچائی کی یہ تشریح صحیح نہیں ہے ؟ اگر صحیح ہے تو ایسے لوگوں کو سچے پیشوا اور درست راہنما کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لوگ سچے پیشوا اور راہنما نہیں ہیں تو قرآن کریم کی زبان میں ان کو کیا کہا جائے گا ؟ ان کے صادق ہونے میں ایک سچے مسلمان کو کیسے شبہ ہوسکتا ہی اور اس طرح پھر قرآن کریم نے جن کو منافق کہا ہے پھر ان کے نفاق میں ایک مسلمان کو کیسے شک گزر سکتا ہے اس کی مزیدوضاحت درکار ہو تو عروۃ الوثقی جلد اول میں سورة البقرہ کی آیت 66 کا حاشیہ 141 ملاحظہ فرمائیں۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ سچے لوگوں کی قربانیوں کو تو کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ اپنی عظمت وشان کے مطابق انہیں اجر دے گا رہے منافق تو ان کے متعلق جیسے اس کی مشیت کا فیصلہ ہوگا وہ ایسے ہی کرے گا چاہے تو ان کی بداعمالیوں کے باعث انہیں قہر مذلت میں گرا ہوا چھوڑ دے یعنی اسی حالت میں ان کو موت آجائے اور ہمہشع کے لئے ان کو دوزخ میں پھینک دیا جائے اور چاہے تو اپنی رحمت اور مہربانی سے انہیں خواب غفلت سے بیدار کردے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمادے وہ بہت ہی غفور ورحیم ہے اس کی شان پوزش پذیری اور اس کی صفت رحمت سے یہ چنداں بعید نہیں کہ وہ ایسا کرم فرمادے اور ڈوبتے ہوئوں کا بازو پکڑ کر انہیں کنارے پر لگادے۔
Top