Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 26
وَ اَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْهِمْ وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًاۚ
وَاَنْزَلَ : اور اتار دیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو ظَاهَرُوْهُمْ : جنہوں نے ان کی مدد کی مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مِنْ : سے صَيَاصِيْهِمْ : ان کے قلعے وَقَذَفَ : اور ڈال دیا فِيْ : میں قُلُوْبِهِمُ : ان کے دل الرُّعْبَ : رعب فَرِيْقًا : ایک گروہ تَقْتُلُوْنَ : تم قتل کرتے ہو وَتَاْسِرُوْنَ : اور تم قید کرتے ہو فَرِيْقًا : ایک گروہ
اور اہل کتاب میں سے جو ان (کافروں کے لشکر) کے پشت پناہ ہوئے تھے اللہ نے ان کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی اور (نتیجہ یہ ہوا کہ) بعض کو تم نے قتل کیا اور بعض کو قید کر لیا
اہل کتاب میں سے جو حملہ آوروں کی پشت پناہی کر رہے تھے اس جگہ سے نکلنے پر مجبور کردیا 26 ۔ زیر نظر آیت میں بنو قریظہ کا ذکر ہے جنہوں نے حملہ آوروں کی ریشہ دوانیوں میں آکراپنا عہد توڑ دیا تھا جو انہوں نے مسلمانوں سے کیا ہوا تھا وہ عین اس وقت جب مدینہ کے مسلمان محاصرین کے گھیرے میں تھے تو حملہ آوروں سے مل گئے اور اپنی طاقت وقوت ان کے لئے خاص کردی۔ الاحزاب کے بھاگنے کے ساتھ ان کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور اس طرح اب یہ لوگ ٹوٹ پھوٹ گئے کہ ان کی حالت کا تصور کرنا بھی اس وقت نہایت مشکل ہے جب وہ مسلمانوں سے ٹوٹ کر مشرکین اور ان کے حواریوں غطفان اور بنو اسد وغیرہ سے جاملے تھے اس وقت بلا شبہ مسلمانوں کو بھی ایک خاص دھچ کہ لگا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کی اس فراست نبوی سے جو اس وقت نبی اعظم وآخر ﷺ نے استعمال کی مسلمانوں کو جو محسوس ہونا چاہیے تھا وہ نہ ہوا لیکن کچھ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ بدعہدوں اور عہد شکنوں کو ایسے شکنجے میں جکڑکر رکھ دیا کہ اس حالت کو وہی لوگ جانتے تھے جن کے جسم وجان پر گزری ، ادھر الاحزاب بھاگ کر نکل کھڑی ہوئیں کہ ان ہی میں سے پیچھے رہنے والوں کی خبر تک نہ لی اور نہ ہی ان کو اطلاع دینے کی ہمت کی ادھر انبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے احزاب کے بھاگ نکلنے کی خبر لوگوں تک پہنچائی اور وہ لوگ جو تقریباً ڈیڑھ ، دو ماہ کی مدت بعد اپنے ہتھیار اتارنے کی سوچ رہے تھے کہ ادھر سے حکم خداوندی نے ان کو چوکس کردیا اور واشگاف الفاظ میں بتایا کہ خبردار کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص ہتھیار اتاریا نہیں ہتھیاروں کے ساتھ بنوقریظہ کے قلعوں پر حملہ کرنا ہے اور ان کو ان کے کئے کی سزا چکھانا ہے اور ضروری ہے کہ اس وقت اپنی فوج کا منہ بنو قریظہ کی طرف کردیا جائے۔ فرمان خداوندی ملتے ہی رسول اللہ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ اذان دے اور بلند آواز سے یہ اعلان بھی کردے من کان سامعا مطیعا فلا یصلین العصر الا بینی قریظۃ ” ہر اطاعت گزار مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عصر کی نماز بنی قریظہ میں ادا کرے “ ادھر یہ اعلان ہوا اور ادھر مجاہدین حکم ملتے ہی اپنے گھوڑوں اور دوسرے سواری کے جانوروں پر سوار ہو کر نکلنا شروع ہوگئے۔ خود نبی کریم ﷺ بھی اپنے گھوڑے پر سوار تھے جس کا نام حلیف بتایا جاتا ہے اور گھوڑ سواروں کا دستہ نبی کریم ﷺ کے ارد گرد حلقہ بنائے چل رہا تھا اور جن کے پاس سواری کے جانور نہیں تھے وہ پا پیادہ چل پڑے لشکراسلام کا پرچم آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کے ہاتھ دیا ۔ یہ لشکر جلدی ہی گڑھی بنو قریظہ کے قریب پہنچ گیا۔ حضرت علی ؓ نے قلعہ کی دیوار کے بالکل قریب پرچم گاڑدیا۔ یہودیوں نے جب مسلمانوں کو اس طرح آتے ہوئے دیکھا تو دروازے بند کردیئے اور نبی کریم ﷺ نے بھی رات اسی طرح بسر کی اور کوئی حملہ ان پر نہیں کیا جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے صحابہ کو ان کے قلعوں کا محاصرہ کرنے کا حکم دیا یہ محاصرہ بھی بدستور پچیس روز تک جاری رہا ، یہودیوں کی طرف سے سفارت کی کوشش کی گئی اور بالآخر انہوں نے درخواست پیش کی کہ حضرت سعد بن معاذ جو فیصلہ کریں وہ ہم کو منظور ہے اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ حضرت سعد بن معاذ اور ان کا قبیلہ اوس قریظہ کا حلیف اور ہم عہد تھا عرب میں یہ تعلق ہم نسبی تعلق سے بھی بڑھ کر تھا۔ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ان کی درخواست منظور کی اور اس کے بعد جو سعد بن معاذ نے فیصلہ کیا اس کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا گیا۔ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ” اور اہل کتاب یعنی بنو قریظہ سے جوان کافروں کے لشکر کے پشت پنہ ہوتے تھے اللہ نے ان کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں ہشت ڈال دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ بعض کو تم نے قتل کیا اور بعض کو قید کرلیا “۔ حضرت سعد ؓ نے جو فیصلہ دیا تھا وہ یہی تھا جیسا کہ آج تک تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ بنو قریظہ کے نوجوان جو لڑنے والے ہیں ان کو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا جائے اور ان کا سارا مال واسباب مال غنیمت قرار پائے اور یہ فیصلہ ان کا تورات کے حکم کے مطابق تھا گویا ان کا فیصلہ ان ہی کے قانون کے مطابق کیا گیا۔ چناچہ تورات میں ہے کہ : ” جب کسی شہر پر تو حملہ کرنے کے لئے جائے تو پہلے صلح کا پیغام دے اگر وہ صلح تسلیم کرلیں اور تیرے لئے دروازے کھول دیں تو جتنے لوگ وہاں موجود ہوں سب تیرے غلام ہوجائیں گے لیکن اگر صلح نہ کریں تو تو ان کا محاصرہ کر اور جب تیرا خدا تجھ کو ان پر قبضہ دے دے تو جس قدر موجود ہوں سب کے سب قتل کردے ، باقی بچے ، عورتیں ، جانور اور جو چیزیں شہر میں موجود ہوں سب تیرے لئے مال غنیمت ہوں گے “۔ (کتاب تثنیہ 10:20) احادیث میں تفصیل دیکھنا چاہیں تو مسلم شریف میں باب جواز قتال من نقض العبد وجواز انزال اہل الحصون علی حکم الحاکم اہل للحکم ج 7 ص 77 اور صحیح بخاری باب مرجع النبی ﷺ من الاحزاب میں ملاحظہ کریں۔ بنو قریظ کے واقعہ میں حساب ترین بات ریحانہ کی ہے جو امہات المومنین میں داخل ہیں متعدد ارباب سیر نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بنو قریظ کے قیدیوں میں سے ایک یہودی عورت جن کا نام ریحانہ تھا اس کی نسبت حکم دیا کہ الگ کرلی جائے اور پھر چند روز کے بعد اس کو اپنے حرم میں داخل کرلیا چناچہ خاکم بدہن جن مورخین نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ لونڈیوں سے بھی متمتع ہوتے تھے انہوں نے اس کی دو مثالیں پیش کی ہیں ایک یہی ریحانہ اور دوسری ماریہ قبطیہ ۔ عیسائی مورخوں نے ان واقعات کو خوب بڑھا چڑھا کر لکھا لیکن مسلمان مورخین نے ان باتوں کی تصدیق کی تو ان کو موقع ہاتھ آیا حالانکہ یہ دونوں مثالیں غلط ہیں۔ اسلام نے لونڈیوں سے نکاح کیے بغیر کبھی استعمال زوجیت کی اجازت نہیں دی یہ اسلام کے ماتھے پر ایک داغ ہے جو اپنوں نے ناسمجھی کی بنا پر لگایا اور بیگانوں نے شرارتاً اس کو اچھالا بہرحال جن مورخین نے ریحانہ کو داخل حرم ہونے کا اقرار کیا ہے ان میں اصل واقدی اور ابن اسحاق ہیں لیکن واقدی نے بتصریح بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا ، ابن سعد نے واقدی کی جو روایت نقل کی ہے اس میں خود ریحانہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ” فاعتقنی وتزوج بی “ نبی کریم ﷺ نے مجھے آزاد کیا اور مجھ سے نکاح کرلیا اور حافظ ابن حجر (رح) نے اصابہ میں محمد بن الحسن کی تاریخ مدینہ سے جو روایت درج کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ” وکانت ریحانۃ القرظیۃ زوج النبی ﷺ تسکنہ “ اور ریحانہ قریظہ ! نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں ، اس مکان میں رہتی تھیں۔ اس طرح حافظ ابن مندہ کی کتاب طبقات الصحابہ جو تمام محدثین ما بعد ماخوذ ہے اس میں یہ الفاظ ہیں واستسریریحانۃ من بنی قریظۃ ثم اعتقھا فلحقت باھلھا واحتجبت وھی عنداھلھا (اصابہ فی احوال ال صحابہ ذکر ریحانہ ج 4 ص 309) ریحانہ کو گرفتار کیا اور پھر آزاد کردیا تو وہ اپنے خاندان میں چلی گئیں اور وہیں پردہ نشین ہو کر رہیں… حافظ اس عبارت کو نقل کرکے لکھتے ہیں کہ وھذاہ فائدۃ جلیلۃ اغفلھا ابن الاثیر ” حافظ ابن مندہ کی عبارت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو آزاد کردیا تھا اور وہ اپنے خاندان میں جاکربیویوں کیطرح پردہ نشین ہوکررہی۔ بلا شبہ یہی محقق ہے کہ اگر وہ حرم نبوی میں داخل ہوئیں تو وہ منکوحات میں تھی ، کنیز نہ تھیں اور یہی حال ماریہ قبطیہ کا ہے تفصیل اس کی امہات المومنین میں ہوگی۔ اس جگہ محض اس واقعہ کی تغلیط کیلئے اشارہ کا فی ہے تاکہ بات یاد رہے اور ملک یمین کی تفصیل ہم نے پیچھے غروۃ الوثقی جلد دوم میں سورة النسا کی آیت 3 میں واضحت سے کردی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔
Top