Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو لَسْتُنَّ : نہیں ہو تم كَاَحَدٍ : کسی ایک کی طرح مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے اِنِ : اگر اتَّقَيْتُنَّ : تم پرہیزگاری کرو فَلَا تَخْضَعْنَ : تو ملائمت نہ کرو بِالْقَوْلِ : گفتگو میں فَيَطْمَعَ : کہ لالچ کرے الَّذِيْ : وہ جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں مَرَضٌ : روگ (کھوٹ) وَّقُلْنَ : اور بات کرو تم قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی ( معقول)
اے نبی (کریم ﷺ کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم احتیاط چاہتی ہو تو (نامحرم سے) نرم زبان میں بات نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں (کوئی) بیماری ہے وہ کسی طمع میں نہ پڑجائے اور جو بات کرو ، دستور کے مطابق کرو
امہات المومنین عام عورتوں کی طرح نہیں بلکہ امہات المومنین کا درجہ بہت بلند ہے 32 ۔ ہر نبی ورسول بشر تھا اور اسی طرح ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ بھی بلاشبہ بشر ہی تھے بقول سید محمد نعیم الدین صاحب خلیفہ خاص حضرت احمد رضا خاں بریلوی جو شخص رسول کے بشر ہونے سے انکار کرے وہ کافر ہے۔ بلا شبہ یہ صحیح لیکن انبیاء کرام اور رسل عظام بشر ہونے کے باوجود عام انسانوں کی طرح صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ وہ نبی ورسول بھی تھے اور یہی وہ تخصیص تھی جو ان کو دوسرے انسانوں سے جدا کردیتی تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے اس بات کا اعلان کرایا کہ { قل انما……………… واحد } (الکھف 110:17) ” کہہ دیجئے میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں البتہ اللہ نے مجھے پر وحی کی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں “۔ گویا عام انسانوں جیسا انسان ہونے کے باوجود عام انسانوں کے اور میرے درمیان ایک خط امتیاز موجود ہے جو دوسرے تمام ان انسانوں سے مجھے الگ کردیتا ہے جن کو وحی نہیں آتی کیونکہ میری طرف اللہ تعالیٰ وحی بھیجتا ہے جو سارے انسانوں کی طرف نہیں بھیجی جاتی اور یہی وہ چیز ہے جو دوسرے انسانوں سے نبی ورسول کو الگ کردیتی ہے بعینہ اسی طرح امہات المومنین کے متعلق بھی ارشاد الٰہی ہے کہ اے نبی کریم کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ تمہارا مقام دوسری تمام عورتوں سے بالکل الگ ہے اور اس مقام کے الگ ہونے کے باعث اللہ کا رسول محمد رسول اللہ ہیں کہ جب تم ہمارے نبی کریم کے حبالہ عقد میں آگئیں تو تمہارا مقام ایک خاص مقام ہوگیا بالکل اسی طرح جیسے رسول کا انسان ہونے کے باوجود عام انسانوں سے مقام بلند ہوگیا کہ اللہ نے اس کی طرف وحی بھیج دی ، اسی طرح تمہارا مقام عورتوں سے بالکل الگ ہوگیا کیونکہ آپ سے نبی کریم ﷺ نے نکاح کرلیا جس کے باعث تم امہات المومنین ہوگئیں اور یہ وہ مشرف ہے جس شرف نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تمہارے ساتھ کسی مومن کا نکاح کرنا اسی طرح حرام ہوگیا جس طرح ہر انسان کا نکاح اس کی اپنی ماں سے حرام ہوتا ہے جس نے اس کو جنم دیا ہو۔ لہٰذا یہی وہ خصوصیت ہے جس نے تم کو دوسری عورتوں سے بالکل الگ کردیا۔ اب اس خط امتیاز نے تمہارے لئے کچھ چیزی لازم کردیں اور ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ ” تمہارے لئے خاص احتیاط ہے کہ تم (نامحرم) لوگوں سے نرم زبان میں بات نہ کیا کرو “۔ کیوں ؟ اس لئے کہ قدرت نے عورت کی آواز میں جو فطری نرمی اور لوچ رکھی ہے اس کو بڑا دخل ہے مرد کی خواہش نفسانی کے ابھارنے میں چناچہ اس کا اعتراف ہر انسان کرے گا اس لئے کہ یہ ایک فطری امر ہے لہٰذا احتیاط کی راہ سے تمہارا لہجہ بات کرنے کا نرم ونازک نہیں ہونا چاہیے بلا شبہ یہ حکم عام ہے لیکن جس قدر پابندی امہات المومنین کے لئے ضروری ہے وہ انہی کا حق ہے اور وہی وہ پابندی کرسکتی ہیں۔ یہ تاکدای حکم اس لئے ضروری ہوا کہ عرب کی جاہلی تہذیب میں آج کل کی مہذب تہذیبوں کی طرح یہ دستور عام تھا کہ عورتیں تصنع کے بڑے بڑے طریقوں سے آواز اور لب و لہجہ میں طرح طرح رعنائی ، نزاکت اور دلفریبی پیدا کرتی تھیں یہ ہنر وہاں فیشن ایبل سوسائٹی میں داخل تھا اس لئے اس کی ممانعت خاص طور پر ہوئی جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا وہ اصل اصلاح معاشرہ کے لئے احکام دیئے گئے اگرچہ بظاہر نام امہات المومنین ہی کا لیا گیا اور اس کی حکمت پہلے عرض کی جاچکی ہے کہ حکم عام کے لئے خطاب خاص امہات کے نام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ قابل غور امر ہے کہ جب مطلق گفتگو کے باب میں یہ اہتمام ہے تو نغمہ وموسیقی ظاہر ہے کہ عورت کے حلق ودہن سے نکلا ہوا نامحرم کے حق میں کیا حکم رکھے گا اس کا فیصلہ خود کرلو کیونکہ جو مضمون جاری ہے اس کو دیکھنے کے بعدیہ فیصلہ کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ قرآن کریم نی اس امر پر اتنا زور دے کر اس کو بیان کیا ہے تو محض اس لئے کہ گفتگو میں ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ آدمی حصہ لیتے ہیں تب ہی گفتگو قرار پاتی ہے لہٰذا ایک طرف کتنی بھی پاکیزگی و طہارت کیوں نہ ہو دوسری طرف کے متعلق کچھ نہیں کہا جاتا خصوصاً جب پر وہ کی آڑ میں بات چیت ہو اور یہ معلوم بھی نہ ہو کہ بات کرنے والا کون ہے ؟ اس لئے قرآن کریم نے اس کی وضاحت یہ کی کہ ” وہ شخص جس کے دل میں کوئی بیماری ہے وہ کسی طمع میں نہ پڑجائے “ ظاہر ہے کہ حیاء وعزت وآبرو کا قاعدہ یہی ہو سکتا ہے کہ مرد اگر مخاطب ہو تو اس کی بات سن کر اس کو مختصر سے مختصر جواب دیا جائے اور صرف مطلب کی بات کا جواب دیا جائے باقی باتوں کو بالکل حذب کردیا جائے تو اس طرح گویا بیمار دل کی بات کا جواب ہی حذف ہوجائے گا اور اس طرح کسی بدکردار اور فاسد المزاج کو گفتگو میں آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ پڑے گی اور وہ خود غیر ضروری بات نہیں کرے گا اور اس حکم کی اہمیت جو اس وقت مدینہ کی فضا میں تھی آج اس سے بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ان باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور ہمارے سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، دفتروں ، بازاروں اور اس وقت تقریباً سارے ہی گھروں میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے کون واقف نہیں۔ زیر نظر آیت سے استنباط کرکے کہا جاسکتا ہے کہ عورتوں کو اتنی بلند آواز سے گفتگو کرنا درست نہیں جسے عام نامحرم مرد سنیں پھر جب عورت کے پیر کے زیوروں کی آواز ممنوع قرار پائی تو جو ان عورتوں کے کلام کی آواز ہے وہ تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ٹھہرے گی غور کرو کہ اسلام میں کسی عورت کو اجازت نہیں کہ وہ اذان پکارے حالانکہ عورت عورتوں کی جماعت کر اسکتی ہے اور عورتوں کو جمع کرنے کے لئے پکار نہیں سکتی۔ ہاں ! جس جگہ پکارنے اور زیادہ بلند آواز کی ضرورت نہ ہو وہ احکام بجا لاسکتی ہے جیسے ذبیحہ کہ اس میں صرف زبان سے تکبیر بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ہے لہٰذا عورت ذبیحہ کرسکتی ہے اور اسی سے استنباط کرکے کہا جاسکتا ہے کہ بچے کے کان میں اذان بھی پکار سکتی ہے اور قرآن کریم نے مطلق گفتگو کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ معروف طریقہ سے گفتگو کی جاسکتی ہے تاکہ ضرورت کی بات معلوم کی جاسکے اور معروف طریقہ کا ذکر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ گفتگو میں ایسی تلخی اور ناشائستگی بھی نہ ہو جس سے کسی کے دل شکنی اور دل آزاری ہو کہ اسلام میانہ روی کو پسند کرتا ہے ، خیال رہے کہ جو حکم آمنے سامنے پردہ کے اندر رہ کر گفتگو کرنے کا ہے وہی حکم ٹیلی فون اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع گفتگو کا ہے جو ایجاد ہوچکے ہیں اور جو ابھی ایجاد ہوں گے۔ ابنائے وطن اور اخوان الاسلام کو غور کرنا چاہیے کہ اسلام کے نزدیک عفت وعصمت کی جو قدر ومنزلت ہے اس کے پیش نظر یہ احکام صادر فرمائے جا رہے ہیں اور ان راستوں ہی کو بند کیا جارہا ہے ، ان اسباب ہی کا قلع قمع کیا جارہا ہے جن کے ذریعہ اس متاع اگر انمایہ کے لٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے کوئی عقل مند قیمتی جواہرات رکھ کر اپنے گھر کے دروازے چوروں کے لئے نہیں کھولتا جو لوگ اسزعم میں مبتلا ہیں کہ ان کے گھروں کی خواتین ، ان کی بچیاں ، ان کی بہنیں پختہ کردار کی مالک ہیں وہ اگرچہ قیمتی اور بھڑکیلے لباس پہن کر بےپردہ گھومتی رہیں تو ان کی عزت وآبرو پر کوئی آنچ نہیں آسکتی انہیں ہم نرم سے نرم الفاظ میں ” ناشناس اسلام “ کہہ سکتے ہیں اور ان کی یہ ناشناسی انہیں ایک روز ایسے گڑھے میں پھینک دے گی جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ہاں ! وہ کسی گڑھے کا کوئی تصور ہی نہ رکھتے ہوں اور مغرب زدگی نے ان کے لئے سب کچھ صاف کردیا ہو یہ دوسری بات ہے تاہم فطرت انسانی کے حیوانی تقاضوں کی شدت ، ان کی دانستہ چشم پوشی انہیں ایسے بھیانک نتائج سے دو چار کردے گی جن بھیانک نتائج سے مغرب والے دو چار ہیں بلا شبہ ان کا قلبی سکون برباد اور ذہنی توازن بگڑ کر رہ جائے گا اس وقت وہ پچھتائیں گے جیسے مغرب والے پچھتا رہے ہیں لیکن ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت “ اس وقت وہ اسی طرح زاروزار روئیں گے جیسے مغرب والے رو رہے ہیں لیکن ان کو اپنے درد کا کوئی درمان نہیں ملے گا۔ اسلام نے مسلمانوں کو جو ثقافت اور تہذیب عطا کی ہے وہ ان آیات میں مذکور ہے جس کی اس وقت ہم تفسیر بیان کر رہے ہیں اب اگر ہمارے قائدین و راہنما اپنی ملت کی بچیوں کو کوئی دوسری ثقافت سکھانا چاہیں اور مغربی تمدن ومعاشرت کے آداب کی تعلیم دینا چاہیں تو ان کی مرضی اسلام نے ، قرآن کریم نے اور حامل قرآن ﷺ نے تو مسلمان عورتوں کے لئے اس حیاسوز اور غیرت باختہ طرز معاشرت سے نہایت سختی سے روکا۔ انس ؓ سے روایت ہے کہ عورتیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ ! مرد ساری فضیلتیں لے گئے ، جہاد میں شرکت کا شرف بھی انہیں نصیب ہے ، کیا کوئی ایسا عمل ہے جو ہمکریں اور ہمیں مجاہدین کا درجہ حاصل ہو ؟ تو نبی اعظم وآخرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ” تم میں جو عورت اپنے گھر میں بیٹھے گی اسے مجاہدین فی سبیل اللہ کا درجہ ملے گا “۔ مملکت خداداد پاکستان جسے مملکت اسلامیہ ہونے کا دعویٰ ہے وہاں مردوں ، عورتوں کے بےدریغ اختلاط سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ، عورتوں کا ان دفتروں ، فیکٹریوں ، بنکوں اور اسی طرح کے دوسرے اداروں میں ملازمت کرنا خصوصاً جہاں مرد بھی ہوتے ہیں ایسے اجتماعات اور مذاکروں میں شرکت کرنا ، مردوں کے مقابلہ میں بی ڈی سے لے کر ایم این اے تک کے الیکشن لڑنا ، عام بازاروں اور شاہراہوں پر ننگے سرچست لباس پہنے نیم عریاں ہو کر گھومنا پھرنا اور سیروتفریح کے مقامات پر مردوں کے دوش بدوش چہل پہل کرنا ایک بہت بڑا المیہ ہے کیونکہ ہمارا یہ طرز عمل اسلام کی تہذیب و ثقافت پر ایک بہت بڑی زیادتی ہے بلکہ اسلام کو مسخ کردینے کے مترادف ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک کے سارے وڈیروں اور رہنمائوں کی عقل پر کیوں پردہ پڑگیا اور انہوں نے آج تک کیوں نہ اس معاملہ پر غور کیا کہ عورتوں کی تعلیم کا بھی صحیح بندوبست کرنے کے متعلق غور کرتے اور ان کے کالج اور یونیورسٹیوں کا علیحدہ انتظام کرتے ۔ اس وقت 1997 ء جارہا ہے لیکن تعلیم کے جتنے کام کے شعبے ہیں سب میں مخلوط تعلیم دی جارہی ہے اور تعجب پر تعجب یہ ہے کہ آج تک جتنی اسلامی جماعتیں ہیں ان میں سے کسی نے حکومت کی اس طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اپنے اتحاد کا یہ مطالبہ شو کیا ہے جو اس وقت کی نہایت اہم ضرورت تھی۔ ملک عزیز کے اندر بڑے بڑے سٹھہ اور تاجر موجود ہیں کسی نے آج تک یہ کوشش نہیں کی کہ کوئی عورتوں کی الگ مارکیٹ بنائی جائے جہاں عورتیں ہی خریدوفروخت کریں اور مارکیٹ کے اندر مردوں کا جانا ممنوع قرار دیا جائے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو مردوں ، عورتوں کو دوش بدوش چلانے کی داعی ہیں انہوں نے اپنی دعوت کو پیش کرتے وقت عقل وفکر سے کام کیوں نہ لیا اگر ان کی عقل پر پردہ نہ پڑگیا ہوتا تو وہ مردوں اور عورتوں کو دوش بدوش چلانے کے یہ معیے بھی لے سکتے تھے کہ جتنے شعبے مردوں کے لئے اتنے ہی عورتوں کے لئے بھی ہونے چاہیے تاکہ مردوں کے عبوں میں مرد کام کریں ، مرد تعلیم دیں اور مردہی تعلیم حاصل کریں۔ اسی طرح ان کے مقابلہ میں عورتیں ہی تعلیم دیں اور عورتیں ہی تعلیم حاصل کریں۔ مرد ہی ٹکٹ دیں اور مرد ہی ٹکٹ حاصل کریں۔ عورتیں ہی ٹکٹ فروخت کریں اور عورتیں ہی ٹکٹ خریدیں۔ مرد ہی سودا سلف بیچیں اور مرد ہی سودا سلف خریدیں ، عورتیں ہی سودا سلف بیچیں اور عورتیں ہی سوا سلف خریدیں۔ مرد ہی ایک ادارہ میں کام کریں اور مرد ہی ادارہ میں آئیں جائیں اور اس کے مقابلہ میں عورتیں ہی ایک ادارہ میں کام کریں اور عورتیں ہی وہاں آئیں جائیں۔ عورتیں اگر ڈاکٹر ہوسکتی ہیں تو آخر ایک عورت ڈاکٹر یعنی مریض کا علاج کیوں نہیں کرسکتی کیوں ضروری ہے کہ ڈاکٹر مرد کے ساتھ مل کر ہی ڈاکٹر عورت کام کرے ۔ فطرت نے کتنے کام ہیں جو صرف مردوں کے ذمہ لگائے ہیں اور وہ مرد ہی کرسکتے ہیں عورتیں نہیں کرسکتیں اور اس طرح کتنے کام ہیں جو صرف عورتوں کے ذمہ لگائے گئے ہیں اور وہ عورتیں ہی کررہی ہیں مرد ان کو نہیں کرسکتے ، کروڑوں سال گزر گئے اور اسی طرح کام چل رہا ہے ہاں ! بلا شبہ ایسے کام بھی ہیں جو مردوں عورتوں کے مشترک ہیں تو ان کے لئے الگ قانون بھی ہے ہم پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو کیا یہ مردوں کے دوش بدوش چلنا نہیں کہلاتا ؟ اگر نہیں کہلا سکتا تو آخر کیوں ؟
Top