Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ
: اے نبی کی بیبیو
لَسْتُنَّ
: نہیں ہو تم
كَاَحَدٍ
: کسی ایک کی طرح
مِّنَ النِّسَآءِ
: عورتوں میں سے
اِنِ
: اگر
اتَّقَيْتُنَّ
: تم پرہیزگاری کرو
فَلَا تَخْضَعْنَ
: تو ملائمت نہ کرو
بِالْقَوْلِ
: گفتگو میں
فَيَطْمَعَ
: کہ لالچ کرے
الَّذِيْ
: وہ جو
فِيْ قَلْبِهٖ
: اس کے دل میں
مَرَضٌ
: روگ (کھوٹ)
وَّقُلْنَ
: اور بات کرو تم
قَوْلًا
: بات
مَّعْرُوْفًا
: اچھی ( معقول)
اے نبی (کریم ﷺ کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم احتیاط چاہتی ہو تو (نامحرم سے) نرم زبان میں بات نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں (کوئی) بیماری ہے وہ کسی طمع میں نہ پڑجائے اور جو بات کرو ، دستور کے مطابق کرو
امہات المومنین عام عورتوں کی طرح نہیں بلکہ امہات المومنین کا درجہ بہت بلند ہے 32 ۔ ہر نبی ورسول بشر تھا اور اسی طرح ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ بھی بلاشبہ بشر ہی تھے بقول سید محمد نعیم الدین صاحب خلیفہ خاص حضرت احمد رضا خاں بریلوی جو شخص رسول کے بشر ہونے سے انکار کرے وہ کافر ہے۔ بلا شبہ یہ صحیح لیکن انبیاء کرام اور رسل عظام بشر ہونے کے باوجود عام انسانوں کی طرح صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ وہ نبی ورسول بھی تھے اور یہی وہ تخصیص تھی جو ان کو دوسرے انسانوں سے جدا کردیتی تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے اس بات کا اعلان کرایا کہ { قل انما……………… واحد } (الکھف 110:17) ” کہہ دیجئے میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں البتہ اللہ نے مجھے پر وحی کی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں “۔ گویا عام انسانوں جیسا انسان ہونے کے باوجود عام انسانوں کے اور میرے درمیان ایک خط امتیاز موجود ہے جو دوسرے تمام ان انسانوں سے مجھے الگ کردیتا ہے جن کو وحی نہیں آتی کیونکہ میری طرف اللہ تعالیٰ وحی بھیجتا ہے جو سارے انسانوں کی طرف نہیں بھیجی جاتی اور یہی وہ چیز ہے جو دوسرے انسانوں سے نبی ورسول کو الگ کردیتی ہے بعینہ اسی طرح امہات المومنین کے متعلق بھی ارشاد الٰہی ہے کہ اے نبی کریم کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ تمہارا مقام دوسری تمام عورتوں سے بالکل الگ ہے اور اس مقام کے الگ ہونے کے باعث اللہ کا رسول محمد رسول اللہ ہیں کہ جب تم ہمارے نبی کریم کے حبالہ عقد میں آگئیں تو تمہارا مقام ایک خاص مقام ہوگیا بالکل اسی طرح جیسے رسول کا انسان ہونے کے باوجود عام انسانوں سے مقام بلند ہوگیا کہ اللہ نے اس کی طرف وحی بھیج دی ، اسی طرح تمہارا مقام عورتوں سے بالکل الگ ہوگیا کیونکہ آپ سے نبی کریم ﷺ نے نکاح کرلیا جس کے باعث تم امہات المومنین ہوگئیں اور یہ وہ مشرف ہے جس شرف نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تمہارے ساتھ کسی مومن کا نکاح کرنا اسی طرح حرام ہوگیا جس طرح ہر انسان کا نکاح اس کی اپنی ماں سے حرام ہوتا ہے جس نے اس کو جنم دیا ہو۔ لہٰذا یہی وہ خصوصیت ہے جس نے تم کو دوسری عورتوں سے بالکل الگ کردیا۔ اب اس خط امتیاز نے تمہارے لئے کچھ چیزی لازم کردیں اور ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ ” تمہارے لئے خاص احتیاط ہے کہ تم (نامحرم) لوگوں سے نرم زبان میں بات نہ کیا کرو “۔ کیوں ؟ اس لئے کہ قدرت نے عورت کی آواز میں جو فطری نرمی اور لوچ رکھی ہے اس کو بڑا دخل ہے مرد کی خواہش نفسانی کے ابھارنے میں چناچہ اس کا اعتراف ہر انسان کرے گا اس لئے کہ یہ ایک فطری امر ہے لہٰذا احتیاط کی راہ سے تمہارا لہجہ بات کرنے کا نرم ونازک نہیں ہونا چاہیے بلا شبہ یہ حکم عام ہے لیکن جس قدر پابندی امہات المومنین کے لئے ضروری ہے وہ انہی کا حق ہے اور وہی وہ پابندی کرسکتی ہیں۔ یہ تاکدای حکم اس لئے ضروری ہوا کہ عرب کی جاہلی تہذیب میں آج کل کی مہذب تہذیبوں کی طرح یہ دستور عام تھا کہ عورتیں تصنع کے بڑے بڑے طریقوں سے آواز اور لب و لہجہ میں طرح طرح رعنائی ، نزاکت اور دلفریبی پیدا کرتی تھیں یہ ہنر وہاں فیشن ایبل سوسائٹی میں داخل تھا اس لئے اس کی ممانعت خاص طور پر ہوئی جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا وہ اصل اصلاح معاشرہ کے لئے احکام دیئے گئے اگرچہ بظاہر نام امہات المومنین ہی کا لیا گیا اور اس کی حکمت پہلے عرض کی جاچکی ہے کہ حکم عام کے لئے خطاب خاص امہات کے نام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ قابل غور امر ہے کہ جب مطلق گفتگو کے باب میں یہ اہتمام ہے تو نغمہ وموسیقی ظاہر ہے کہ عورت کے حلق ودہن سے نکلا ہوا نامحرم کے حق میں کیا حکم رکھے گا اس کا فیصلہ خود کرلو کیونکہ جو مضمون جاری ہے اس کو دیکھنے کے بعدیہ فیصلہ کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ قرآن کریم نی اس امر پر اتنا زور دے کر اس کو بیان کیا ہے تو محض اس لئے کہ گفتگو میں ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ آدمی حصہ لیتے ہیں تب ہی گفتگو قرار پاتی ہے لہٰذا ایک طرف کتنی بھی پاکیزگی و طہارت کیوں نہ ہو دوسری طرف کے متعلق کچھ نہیں کہا جاتا خصوصاً جب پر وہ کی آڑ میں بات چیت ہو اور یہ معلوم بھی نہ ہو کہ بات کرنے والا کون ہے ؟ اس لئے قرآن کریم نے اس کی وضاحت یہ کی کہ ” وہ شخص جس کے دل میں کوئی بیماری ہے وہ کسی طمع میں نہ پڑجائے “ ظاہر ہے کہ حیاء وعزت وآبرو کا قاعدہ یہی ہو سکتا ہے کہ مرد اگر مخاطب ہو تو اس کی بات سن کر اس کو مختصر سے مختصر جواب دیا جائے اور صرف مطلب کی بات کا جواب دیا جائے باقی باتوں کو بالکل حذب کردیا جائے تو اس طرح گویا بیمار دل کی بات کا جواب ہی حذف ہوجائے گا اور اس طرح کسی بدکردار اور فاسد المزاج کو گفتگو میں آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ پڑے گی اور وہ خود غیر ضروری بات نہیں کرے گا اور اس حکم کی اہمیت جو اس وقت مدینہ کی فضا میں تھی آج اس سے بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ان باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور ہمارے سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، دفتروں ، بازاروں اور اس وقت تقریباً سارے ہی گھروں میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے کون واقف نہیں۔ زیر نظر آیت سے استنباط کرکے کہا جاسکتا ہے کہ عورتوں کو اتنی بلند آواز سے گفتگو کرنا درست نہیں جسے عام نامحرم مرد سنیں پھر جب عورت کے پیر کے زیوروں کی آواز ممنوع قرار پائی تو جو ان عورتوں کے کلام کی آواز ہے وہ تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ٹھہرے گی غور کرو کہ اسلام میں کسی عورت کو اجازت نہیں کہ وہ اذان پکارے حالانکہ عورت عورتوں کی جماعت کر اسکتی ہے اور عورتوں کو جمع کرنے کے لئے پکار نہیں سکتی۔ ہاں ! جس جگہ پکارنے اور زیادہ بلند آواز کی ضرورت نہ ہو وہ احکام بجا لاسکتی ہے جیسے ذبیحہ کہ اس میں صرف زبان سے تکبیر بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ہے لہٰذا عورت ذبیحہ کرسکتی ہے اور اسی سے استنباط کرکے کہا جاسکتا ہے کہ بچے کے کان میں اذان بھی پکار سکتی ہے اور قرآن کریم نے مطلق گفتگو کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ معروف طریقہ سے گفتگو کی جاسکتی ہے تاکہ ضرورت کی بات معلوم کی جاسکے اور معروف طریقہ کا ذکر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ گفتگو میں ایسی تلخی اور ناشائستگی بھی نہ ہو جس سے کسی کے دل شکنی اور دل آزاری ہو کہ اسلام میانہ روی کو پسند کرتا ہے ، خیال رہے کہ جو حکم آمنے سامنے پردہ کے اندر رہ کر گفتگو کرنے کا ہے وہی حکم ٹیلی فون اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع گفتگو کا ہے جو ایجاد ہوچکے ہیں اور جو ابھی ایجاد ہوں گے۔ ابنائے وطن اور اخوان الاسلام کو غور کرنا چاہیے کہ اسلام کے نزدیک عفت وعصمت کی جو قدر ومنزلت ہے اس کے پیش نظر یہ احکام صادر فرمائے جا رہے ہیں اور ان راستوں ہی کو بند کیا جارہا ہے ، ان اسباب ہی کا قلع قمع کیا جارہا ہے جن کے ذریعہ اس متاع اگر انمایہ کے لٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے کوئی عقل مند قیمتی جواہرات رکھ کر اپنے گھر کے دروازے چوروں کے لئے نہیں کھولتا جو لوگ اسزعم میں مبتلا ہیں کہ ان کے گھروں کی خواتین ، ان کی بچیاں ، ان کی بہنیں پختہ کردار کی مالک ہیں وہ اگرچہ قیمتی اور بھڑکیلے لباس پہن کر بےپردہ گھومتی رہیں تو ان کی عزت وآبرو پر کوئی آنچ نہیں آسکتی انہیں ہم نرم سے نرم الفاظ میں ” ناشناس اسلام “ کہہ سکتے ہیں اور ان کی یہ ناشناسی انہیں ایک روز ایسے گڑھے میں پھینک دے گی جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ہاں ! وہ کسی گڑھے کا کوئی تصور ہی نہ رکھتے ہوں اور مغرب زدگی نے ان کے لئے سب کچھ صاف کردیا ہو یہ دوسری بات ہے تاہم فطرت انسانی کے حیوانی تقاضوں کی شدت ، ان کی دانستہ چشم پوشی انہیں ایسے بھیانک نتائج سے دو چار کردے گی جن بھیانک نتائج سے مغرب والے دو چار ہیں بلا شبہ ان کا قلبی سکون برباد اور ذہنی توازن بگڑ کر رہ جائے گا اس وقت وہ پچھتائیں گے جیسے مغرب والے پچھتا رہے ہیں لیکن ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت “ اس وقت وہ اسی طرح زاروزار روئیں گے جیسے مغرب والے رو رہے ہیں لیکن ان کو اپنے درد کا کوئی درمان نہیں ملے گا۔ اسلام نے مسلمانوں کو جو ثقافت اور تہذیب عطا کی ہے وہ ان آیات میں مذکور ہے جس کی اس وقت ہم تفسیر بیان کر رہے ہیں اب اگر ہمارے قائدین و راہنما اپنی ملت کی بچیوں کو کوئی دوسری ثقافت سکھانا چاہیں اور مغربی تمدن ومعاشرت کے آداب کی تعلیم دینا چاہیں تو ان کی مرضی اسلام نے ، قرآن کریم نے اور حامل قرآن ﷺ نے تو مسلمان عورتوں کے لئے اس حیاسوز اور غیرت باختہ طرز معاشرت سے نہایت سختی سے روکا۔ انس ؓ سے روایت ہے کہ عورتیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ ! مرد ساری فضیلتیں لے گئے ، جہاد میں شرکت کا شرف بھی انہیں نصیب ہے ، کیا کوئی ایسا عمل ہے جو ہمکریں اور ہمیں مجاہدین کا درجہ حاصل ہو ؟ تو نبی اعظم وآخرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ” تم میں جو عورت اپنے گھر میں بیٹھے گی اسے مجاہدین فی سبیل اللہ کا درجہ ملے گا “۔ مملکت خداداد پاکستان جسے مملکت اسلامیہ ہونے کا دعویٰ ہے وہاں مردوں ، عورتوں کے بےدریغ اختلاط سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ، عورتوں کا ان دفتروں ، فیکٹریوں ، بنکوں اور اسی طرح کے دوسرے اداروں میں ملازمت کرنا خصوصاً جہاں مرد بھی ہوتے ہیں ایسے اجتماعات اور مذاکروں میں شرکت کرنا ، مردوں کے مقابلہ میں بی ڈی سے لے کر ایم این اے تک کے الیکشن لڑنا ، عام بازاروں اور شاہراہوں پر ننگے سرچست لباس پہنے نیم عریاں ہو کر گھومنا پھرنا اور سیروتفریح کے مقامات پر مردوں کے دوش بدوش چہل پہل کرنا ایک بہت بڑا المیہ ہے کیونکہ ہمارا یہ طرز عمل اسلام کی تہذیب و ثقافت پر ایک بہت بڑی زیادتی ہے بلکہ اسلام کو مسخ کردینے کے مترادف ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک کے سارے وڈیروں اور رہنمائوں کی عقل پر کیوں پردہ پڑگیا اور انہوں نے آج تک کیوں نہ اس معاملہ پر غور کیا کہ عورتوں کی تعلیم کا بھی صحیح بندوبست کرنے کے متعلق غور کرتے اور ان کے کالج اور یونیورسٹیوں کا علیحدہ انتظام کرتے ۔ اس وقت 1997 ء جارہا ہے لیکن تعلیم کے جتنے کام کے شعبے ہیں سب میں مخلوط تعلیم دی جارہی ہے اور تعجب پر تعجب یہ ہے کہ آج تک جتنی اسلامی جماعتیں ہیں ان میں سے کسی نے حکومت کی اس طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اپنے اتحاد کا یہ مطالبہ شو کیا ہے جو اس وقت کی نہایت اہم ضرورت تھی۔ ملک عزیز کے اندر بڑے بڑے سٹھہ اور تاجر موجود ہیں کسی نے آج تک یہ کوشش نہیں کی کہ کوئی عورتوں کی الگ مارکیٹ بنائی جائے جہاں عورتیں ہی خریدوفروخت کریں اور مارکیٹ کے اندر مردوں کا جانا ممنوع قرار دیا جائے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو مردوں ، عورتوں کو دوش بدوش چلانے کی داعی ہیں انہوں نے اپنی دعوت کو پیش کرتے وقت عقل وفکر سے کام کیوں نہ لیا اگر ان کی عقل پر پردہ نہ پڑگیا ہوتا تو وہ مردوں اور عورتوں کو دوش بدوش چلانے کے یہ معیے بھی لے سکتے تھے کہ جتنے شعبے مردوں کے لئے اتنے ہی عورتوں کے لئے بھی ہونے چاہیے تاکہ مردوں کے عبوں میں مرد کام کریں ، مرد تعلیم دیں اور مردہی تعلیم حاصل کریں۔ اسی طرح ان کے مقابلہ میں عورتیں ہی تعلیم دیں اور عورتیں ہی تعلیم حاصل کریں۔ مرد ہی ٹکٹ دیں اور مرد ہی ٹکٹ حاصل کریں۔ عورتیں ہی ٹکٹ فروخت کریں اور عورتیں ہی ٹکٹ خریدیں۔ مرد ہی سودا سلف بیچیں اور مرد ہی سودا سلف خریدیں ، عورتیں ہی سودا سلف بیچیں اور عورتیں ہی سوا سلف خریدیں۔ مرد ہی ایک ادارہ میں کام کریں اور مرد ہی ادارہ میں آئیں جائیں اور اس کے مقابلہ میں عورتیں ہی ایک ادارہ میں کام کریں اور عورتیں ہی وہاں آئیں جائیں۔ عورتیں اگر ڈاکٹر ہوسکتی ہیں تو آخر ایک عورت ڈاکٹر یعنی مریض کا علاج کیوں نہیں کرسکتی کیوں ضروری ہے کہ ڈاکٹر مرد کے ساتھ مل کر ہی ڈاکٹر عورت کام کرے ۔ فطرت نے کتنے کام ہیں جو صرف مردوں کے ذمہ لگائے ہیں اور وہ مرد ہی کرسکتے ہیں عورتیں نہیں کرسکتیں اور اس طرح کتنے کام ہیں جو صرف عورتوں کے ذمہ لگائے گئے ہیں اور وہ عورتیں ہی کررہی ہیں مرد ان کو نہیں کرسکتے ، کروڑوں سال گزر گئے اور اسی طرح کام چل رہا ہے ہاں ! بلا شبہ ایسے کام بھی ہیں جو مردوں عورتوں کے مشترک ہیں تو ان کے لئے الگ قانون بھی ہے ہم پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو کیا یہ مردوں کے دوش بدوش چلنا نہیں کہلاتا ؟ اگر نہیں کہلا سکتا تو آخر کیوں ؟
Top