Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠   ۧ
وَاذْكُرْنَ : اور تم یاد رکھو مَا يُتْلٰى : جو پڑھا جاتا ہے فِيْ : میں بُيُوْتِكُنَّ : تمہارے گھر (جمع) مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں وَالْحِكْمَةِ ۭ : اور حکمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے لَطِيْفًا : باریک بین خَبِيْرًا : باخبر
اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں بیان کی جاتی ہیں ان کو (اچھی طرح) یاد رکھو اللہ نہایت ہی باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے
اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں جو تمہارے گھروں میں بیان کی جاتی ہیں ان کو یاد کرو 34 ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی بیویوں کے دلوں کی پاکیزگی او طہارت کے بعد یعنی دنیوی مال و دولت کے حرص و لالچ کے بعد ان کی جو اصل ذمہ داری ہے وہ ان کو یاد دلائی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تو یہ ہے کہ وہ رجس اور اس کے ساتھ ہر قسم کی برائیوں سے اہل بیت نبوی کو پاک کرکے تم کو امہات امت صحیح معنوں میں بنائے تاکہ تم بھی رسول کے ساتھ امت کی روحانی پرورش کرنے والیاں اور امت کے لئے نمونہ بن جائو بلا شبہ یہی ارادہ الٰہی تھا کہ تم بیبیوں کو اختیار دیا گیا کہ تم دنیا کا مال لے کر اگر چاہو تو نبی کریم ﷺ سے علیحدہ ہوجائو تو تم نے مشیت ایزدی کے مطابق دنیا کے مال کو لات ماری اور اس غربت اور فاقہ میں نبی کریم ﷺ کی رفاقت کو اختیار کیا تو اب تاریخ میں یہ کندہ ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی بیبیوں کے دل میں مال دنیا کی ایک تنکے کے برابر بھی وقعت نہیں تھی اور بلا شبہ یہی ہوا چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ خلفائے وقت جب ان کے پاس کچھ مال بھیجتے تو وہ سب کا سب اٹھا کر اللہ کی راہ میں خرچ کردیتیں۔ زیر نظر آیت میں ان کو ان کی ذمہ داری یاد دلائی جارہی ہے کہ اے نبی ﷺ کی بیویو ! تم اسے یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور حکمت سے جو کچھ پڑھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس جگہ آیات اللہ سے مراد فہم قرآن کریم ہے قرآن کریم کے وہ الفاظ بھی جو آپ ﷺ کی طرف وحی کیے گئے اور وہ مفہوم بھی جو نبی کریم ﷺ کے دل میں اتارا گیا اور آپ ﷺ نے وہ من وعن امت کے سامنے پیش کردیا گویا قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت بھی تم کو کرنا ہے اور مفہوم کی حفاظت بھی اور آپ ﷺ کے اخلاق اور افعال کو بھی اچھی طرح یاد رکھنا ہے کیونکہ حکمت کے معنی سنت ہی کے ہیں اور اس کی وضاحت احادیث میں بھی موجود ہے اور ہدایت یہ ہے کہ ان کو پڑھنا بھی ہے اور ان کی پیروی بھی کرنا ہی جو پڑھنے کا اصل مدعا ہے اور یہی وہ خاص حقوق ہیں جن حقوق کے پیش نظر نبی کریم ﷺ کو زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت خاص مرحمت کی گئی اور یہ وہ حق ہے جو بحیثیت خاوند ان کے ذمہ نہیں ڈالا گیا بلکہ بحیثیت رسول ان پر ڈالا گیا ہے اور یہ حق اولاد کی پرورش اور اولاد پیدا کرنے کی غرض وغایت کے علاوہ ہے وہ تو ساری عورتیں کرتی آئی ہیں ، کررہی ہیں اور کرتی رہیں گی اس سے زائد حق جو ان کے ذمہ لگایا گیا وہ آیات اللہ اور اقوال وافعال رسول ﷺ کا محفوظ رکھنا تھا اور محفوظ رکھنے کی غرض یہی تھی کہ اسے لوگوں کو پہنچایا جائے اور وہ بھی خاص کر عورتوں کے ذریعہ سے تاکہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت اور نور کا موجب ہو او یہی وہ پاک غرض تھی جس کے لئے نبی اعظم وآخر ﷺ کی بیبیاں آپ ﷺ کے گھر میں تھیں اور غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ مدنی زندگی میں شرائع کی تفاصیل اور مختلف قسم کے امور اس قدر تھے کہ وہ ایک یا چار بیبیاں محفوظ نہ رکھ سکتی تھیں تعدد ازواج کی جو وجوہ تھیں ان میں ایک وجہ یہ بھی تھی اور باقی کا ذکر بھی آگے آئے گا۔ واضح ہوا کہ امہات المومنین کا اصل کام تعلیم و تعلم امت تھا اور وہ انہوں نے بحمداللہ باحسن و خوبی پورا کیا۔ رضی اللہ عنھم ورضوان عنہ۔
Top