Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 35
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمان مرد وَالْمُسْلِمٰتِ : اور مسلمان عورتیں وَالْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومن مرد وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتیں وَالْقٰنِتِيْنَ : اور فرمانبردار مرد وَالْقٰنِتٰتِ : اور فرمانبردار عورتیں وَالصّٰدِقِيْنَ : اور راست گو مرد وَالصّٰدِقٰتِ : اور راست گو عورتیں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے مرد وَالصّٰبِرٰتِ : اور صبر کرنے والی عورتیں وَالْخٰشِعِيْنَ : اور عاجزی کرنے والے مرد وَالْخٰشِعٰتِ : اور عاجزی کرنے والی عورتیں وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ : اور صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُتَصَدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَالصَّآئِمِيْنَ : اور روزہ رکھنے والے مرد وَالصّٰٓئِمٰتِ : اور روزہ رکھنے والی عورتیں وَالْحٰفِظِيْنَ : اور حفاظت کرنے والے مرد فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں وَالْحٰفِظٰتِ : اور حفاظت کرنے والی عورتیں وَالذّٰكِرِيْنَ : اور یاد کرنے والے اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ : اور یاد کرنے والی عورتیں اَعَدَّ اللّٰهُ : اللہ نے تیار کیا لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةً : بخشش وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں ، سچے مرد اور سچی عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں ، اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان (سب) کیلئے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
وہ اعلیٰ صفات جو مردوں کو بلند مرتبہ پر پہنچاتی ہیں عورتوں کو بھی پہنچا دیتی ہیں 35 ۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی ایمان والوں کو مخاطب کی ہے ایمان والیاں ضمنا ہر جگہ موجود ہیں لیکن بعض مقامات پر قرآن کریم نے صرف مردوں کو مخاطب کرکے ان کی تعریف بھی کی ہے اور ان کی صفات بھی بتائی ہیں جیسا کہ عروۃ الوثقی جلد چہارم کی سورة التوبہ کی آیت 112 میں ہم نے وضاحت کردی ہے اور فقط عورتوں کو اور ان کی اچھی صفات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جیسے سورة التحریم کی آیت 5 میں ان کا بیان ہوا ہے اور اس جگہ زیر نظر آیت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو اکٹھا ذکرکرکے ان کی اچھی صفات گنائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ امت جسے خیر الامم کے لقب سے نوازا گیا ہے اس کے افکار اور کردار ، نظریات اور اعمال کیسے ہونے چاہئیں اس جگہ انہیں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور بتادیا گیا ہے کہ اچھے اعمال کرنے میں مرد اور عورت میں کوئی امتیاز نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے ہر مرد اور ہر عورت کو ان صفات عالیہ سے متصف اور اخلاقی اور عملی لحاظ سے اس مقام رفیع پر فائز دیکھنا چاہتا ہے چونکہ نبوت کسبی چیز نہیں تھی اسلئے کوئی شخص ذاتی محنت سے نبی ورسول نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے یہاں کسب اور کمائی میں عورتوں کو ساتھ رکھا گیا کہ جس طرح مرد دین کی خاطر قربانیاں پیش کرتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی کرتی ہیں اور جس طرح مردوں کی قربانیاں مقبول ہوتی ہیں عورتوں کی بھی قربانیاں قبول ہوتی ہیں اسی لئے اسلام قبول کرنے والے مرد اور عورتیں اپنے اندر یہ صفاترکھتے ہیں اور ان کی دس سفات کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ 1) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں یعنی وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے اسلام کو بطور دین تسلیم کرلیا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری کا عہد کیا ہے اور طاغوت وفکر سے مکمل طور پر منہ پھیرلیا ہے اور اپنا ہر کام وہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرچکے ہیں اور کوئی بات بھی انہوں نے غیر اللہ کے لئے نہیں رکھی وہ اس طرح پیکران تسلیم ورضا ہوچکے ہیں کہ کسی دوسری طرف وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور ان کے اندر اسلام کے دیئے ہوئے طریق فکر اور طرز زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہے گی گویا وہ صرف نام کے مسلم نہیں کہ صرف جماعت المسلمین نام رکھ کر وہ خوش ہوگئے ہوں بلکہ وہ کام کے مسلم ہیں جن کو نام سے کوئی بحث نہیں۔ 2) مومن مرد اور مومن عورتیں یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کے ہر حکم کی صداقت اور سچائی کو دل وجان سے قبول کرچکے ہیں ان کے عمل اور اعتقاد میں ذرا فرق نہیں ہے اور تضاد نام کی کوئی چیز ان کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے صحیح کہا وہ صحیح مان گئے اور جس چیز کو غلط کہا اسکو انہوں نے غلط سمجھا اور اس کے قریب بھی نہیں بھٹکتے۔ دنیا میں بسنے والے کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں ان کی بلا سے وہ جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس معاشرہ کی رسم و رواج کو نہیں بلکہ دین اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کو مانتے ہیں اور انہی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، محمد رسول اللہ ﷺ کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہیں۔ ان کو اپنے رسول کا فرمان ہر وقت یاد رہے کہ : آپ ﷺ نے فرمایا ذاق طعم ال ایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد رسولا (مسلم شریف) بلا شبہ وہ صرف ایمان کے مومن نہیں کہ رافضیوں کی طرح کام تو سارے ہی کفر کے کریں اور نام مومن رکھ لیں نہیں ، نہیں وہ تو من یکفر بالطاغوت ویومن باللہ کی جیتی جاگتی تصویر ہیں اور ان کے ہاتھ میں غروۃ الوثقی ہے جس کو وہ جان سے عزیز رکھتے ہیں اور اپنا مکمل سہارا اس کو سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ یہ سہارا کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ 3) فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں قرآن کریم نے ان کی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے ان کو { قانتات } کہا ہے رہی یہ بات کہ قانت کیا ہے ؟ تو کہا گیا ہے کہ خضوع اور عاجزی کرنے والا۔ (معجم القرآن) خضوع کے ساتھ اطاعت کرنے والا۔ (راغب) فرمانبردار نماز میں مشغول رہنے والا ، خاموش کھڑا ہونے والا۔ (قاموس) فرائض طاعت کو ادا کرنے والا۔ (محل) مطلب ہوا کہ وہ ایسے فرمانبردار ہیں کہ ہر وقت فرمانبرداری میں رہتے ہیں ایسا نہیں کہ مسجد میں آئے ، نماز ادا کرنے لگے تو اللہ کے فرمانبردار بندے بن گئے ، بازار میں گئے تو بازاری بندے ، اسی طرح جس کام میں لگے اس کام کے بندے ہوکررہ گئے۔ جی میں آیا تو ساری ساری رات جاگتے رہے اور دل نہ چاہا تو فرض نمازوں کی بھی پرواہ نہ کی۔ خرچ کرنے پہ آئے تو خرچ کرتے ہی چلے گئے ، جائز ناجائز ، صحیح اور غلط کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور مٹھی بند کرنے پر آئے تو اس طرح بند کردی کہ گویا اب وہ کسی کے کھولنے سے بھی نہیں کھلتی ایسے لوگ خواہشات کے بندے ہوتے ہیں اور خواہشات کے بندے کبھی اللہ کے بندے نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے جس اطاعت وفرمانبرداری کا پٹہ پہنا ہے اس میں نافرمانی کی آمیزش ممکن ہی نہیں ہے اور اپنی پوری زندگی میں اور ہر حال میں فرمانبردار ہیں گویا وہ ایسے قانت ہیں کہ کبھی وہ قانط ہو نہیں سکتے ایک بار نہیں ان کو کوئی سو بار آزما کردیکھئے وہ ایسے قانت ہیں کہ اس پر قانع ہو کر رہ گئے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی مدح سرائی میں ان کو قانت ہی کہہ رہا ہے۔ 4) سچے مرد اور سچی عورتیں۔ صدق اور کذب دونوں ضدین ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ ضدین کبھی اکٹھی نہیں ہوتیں لکند انسان ایک ایسا مرکب ہے جس میں ضدین جمع کردی گئی ہیں اس لئے انسان کبھی صادق ہوتا ہے اور کبھی کاذب بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ ضدین کا مجموعہ ہے ۔ اب صادق کا لفظ اس آدمی پر استعمال ہوتا ہے جس نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہ ہو یعنی وہ کبھی کذب کا مرتکب نہ پایا جائے گویا ایسا آدمی جس نے اپنی طاقت کذب کو اس قدر مسخ کردیا کہ وہ بھول کر بھی اس کے سامنے نہیں آئی کیونکہ اس نے سچ بول بول کر جھوٹ کو فنا کردیا ہے اس لئے اب وہ قول وفعل دونوں کا سچا انسان ہے اس طرح اس جگہ ان لوگوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے جو قول میں بھی سچے ہیں اور عمل میں بھی کھرے ہیں ، جو عمل کریں گے وہ صحیح بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بھی ہوگا اس طرح بلا شبہ نہ تو ان کے قول میں کوئی ملاوٹ ثابت کرسکتا ہے اور نہ ہی عمل میں ہاں ! بغیر ثبوت چاہے جو کچھ کوئی کہتا رہے۔ غور کرو کہ جھوٹے کا کام کیا ہے ؟ یہی کہ وہ جھوٹ بولے اور اگر وہ سچ کو سچ کہہ دے تو پھر ، ظاہر ہے کہ وہ اس بات میں جھوٹا نہ رہا لہٰذا وہ یقینا سچ کو جھوٹ کہے گا اور ایسے لوگ مرجود ہیں جو ایسا کہتے ہیں لیکن جو کچھ کہتے ہیں محض ضد اور ہٹ دھرمی میں کہتے ہیں اب کا ثبوت وہ نہیں پیش کرسکتے اس لئے میں نے عرض کیا ہے کہ وہ ایسے سچے ہیں کہ ان کے سچ کو کوئی مانے یا نہ مانے لیکن دلیل کے ساتھ کوئی جھوٹ ثابت نہیں کرسکتا۔ ایک بار پھر غور کرو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو ” الصادق “ بھی کہا گیا اور مفتری وکاذب بھی لیکن آپ ﷺ ایسے ” الصادق “ تھی کہ مفتری اور کاذب کہنے والے اس کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ ” الصادق “ ٹھہرے۔ کیا کمال ہے ان بندوں کا جن کی مدح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو { الصدقین والصدقات } کہا تو ان کے سچا ہونے میں کیا شک رہ گیا جن کو ” صادق “ ہونے کا پروانہ رب ذوالجلال والا کرام کی طرف سے مل گیا۔ 5 ۔ صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں۔ صبر کیا ہے ؟ اس کی وضاحت ہم نے عروۃ الوثقی ، جلد پنجم میں سورة طہ کی آیت 130 میں کردی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں اور اس جگہ مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انہوں نے اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمدرسول اللہ ﷺ کے رسول ہونے کو بسروچشم قبول کرلیا تو ان کا یہ راہ اختیار کرنے میں جو تکالیف اور مصائب بھی پیش آئے ان کو برداشت کرتے ہوئے اس راہ پر گامزن رہے اور زندگی میں اس سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات ان کو ہراساں نہ کرسکیں اور وہ اپنی منزل پر اسی طرح رواں دواں رہے نہ تو نیک اعمال میں انہوں نے کبھی سستی کی اور نہ ہی اپنا دامن انہوں نے گناہوں سے آلودہ ہونے دیا اور اس دنیا کے خاردار کانٹوں سے وہ اپنے آپ کو بچا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور زندگی میں جو کچھ بھی پیش آیا اس سے ان کے چہروں پر کبھی بل نہیں پڑا اور نہ ہی کبھی ان کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوا کہ ایسا راستہ ہم نے کیوں اختیار کیا لوگوں نے اپنے ساتھ سے ان کو کاٹ دیا تو وہ بخوشی کٹ گئے لیکن ان سے جہاں تک ہوسکا اس کو ملایا جس کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا اور وہ پوری زندگی اسی لائحہ عمل کو اختیار کیے رہے ، کوئی خوف ، کوئی لالچ اور خواہشات نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا نہ سکا یہی وہ مرد اور عورتیں ہیں جن کے صبر کرنے والوں کو پروانہ خداوندی مل گیا۔ 6) عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم سنا تو اس کے سامنے دب گئے اور جھک گئے اور ان کو نخوت وتکبر کی ہوا بھی نہ لگی ان کے دل میں کبھی خیال بھی پیدا نہ ہوا کہ جس چیز یا جس بات کو ہم آج تک کرتے رہے اور ہم نے اپنے آباء و اجداد کو دیکھا کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے اب ہم اپنے کیے ہوئے اور اپنے باپ دادا کے کیے پر کیسے پانی پھیر دیں ہاں ! اگر ہم ایسا کریں گے تو لوگ ہم کو کیا کہیں گے ؟ کیا ہمارے باپ دادا سب کے سب غلط ہی تھے جب ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات آئی تو انہوں نے سوچ سمجھ کر اس کو قبول کرلیا اور اس طرح قبول کیا کہ پھر وہ کبھی اس کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات جم گئی کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں اور اس راہ سے ان کو ان کا مال و دولت ، ان کا اقتدار ، ان کی عزت و تکریم کبھی الگ نہ کرسکے اور بلا شبہ ان کا دل اور جسم وجان سب رب ذوالجلال والا کرام کے سامنے جھک گئے اور ” خشوع “ کو انہوں نے کسی حال میں بھی نہ چھوڑا ، نخوت وتکبر اور غرور جیسی بیماریاں ان کو کبھی لاح نہ ہوئیں اور جلوت وخلوت میں وہ اپنے ایک ہی حال پر رہے اور ہو نمازوں کو ادا کرتے رہے تو اس طرح کہ ان کی نمازوں نے اس کو کسی برائی کے قریب بیب نہ بھٹکنے دیا یہاں تک کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف { الخشعین } اور { الخشعت } کا لقب عطا ہوگیا۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ 7) صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں۔ صدقہ کیا ہے ؟ فرائض کا ایک اپنا مقام ہے اور مال و دولت میں فرائض کی ادائیگی کے بعد مزید مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا صدقہ کہلاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال میں فرض زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد مزید مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے عادی ہیں اور جس طرح ایک تاجر اور کاروباری آدمی مال کو حاصل کرکے خوش ہوتا ہے یہ لوگ اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے خوش ہوتے ہیں اور ان کے دلوں کے اندر اطمینان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کیا ہوا مال ہی وہ مال ہے جو حقیقت میں باقی رہنے والا ہے اور وہ کبھی ختم نہیں ہوگا بلکہ تا قیام قیامت وہ بڑھتا ہی رہے گا اور پھر وہ اس رب ذوالجلال والا کرم کے بنک میں داخل کردیا گیا ہے جہاں اس کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں رہا اور جب وہ واپس ملے گا تو اتنا زیادہ ہوچکا ہوگا کہ اس زیادتی کا تصور بھی انسان اس دنیوی زندگی میں نہیں کرسکتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا کہ عائشہ ! اس صدقہ کی بکری کا کیا ہوا ؟ جواب دیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس کی ایک ران باقی رہ گئی دوسرا سب ختم ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا جو باقی رہ گیا وہ تو ختم ہو ہی جائے گا لیکن جو ختم ہوگیا وہ تو سب کا سب باقی ہے مطلب بالکل واضح ہے کہ لسان صدق صفا نے بتادیا کہ راہ خدا میں صرف کی گیا تو بہرحال باقی ہے اور باقی ہی رہے گا لیکن جو ختم ہوگیا وہ سب کا سب باقی ہے مطلب بالکل واضح ہے کہ لساق صدق صفا نے بتا دیا کہ راہ خدا میں صرف کیا گیا تو بہرحال باقی ہے اور باقی ہی رہے گا لیکن یہ جو باقی ہے اس کو ابھی ہم کھائیں گے تو یہ ختم ہوجائے گا۔ یہ اس ایمان ویقین کے لوگ ہیں کہ جب بھی ان کے پاس کچھ مال آتا ہے تو اس کو وہ گن گن کر رکھنے کے عادی نہیں بلکہ یہ اس کو فوراً رب ذوالجلال والاکرام کے بنک میں جمع کرادیتے ہیں اور کسی حاجت مند کی حاجت کو دیکھنے کے بعد وہ اپنے مال کو اپنے لئے روک نہیں رکھتے بلکہ قوت لا یموت ہی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور حالات کے مطابق ضرورت پوری ہوتی رہے تو ان کو کوئی غم لاحق ہی نہیں ہوتا وہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے اس قدر صدقہ و خیرات کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے ہاں ان کو { المتصدقین } اور { المتصدقات } لکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح وہ اپنی مراد کو حاصل کرلیتے ہیں۔ 8 ۔ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں۔ جس طرح انسان کی حالتیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں انسان اعمال کی حالتیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی معاشرہ کے ان نوجوانوں کو جو جواب ہونے کے باوجود متاہل زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کی وہ حیوانی قوتیں دب جائیں جو بعض اوقات انسان کو بےراہ کردیتی ہیں اسی طرح آپ ﷺ نے ایک ماہ میں تین روزے رکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے اگر مزید ضرورت ہو تو ہر سوموار اور جمعرات کے روزے کا حکم بیی دیا ہے اور اگر کسی انسان میں حیوانی قوتوں کی اتنی بہتات ہو کہ وہ مزید ضرورت سمجھے تو اس کے لئے آپ ﷺ کا ارشاد ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کا بھی موجود ہے لیکن اس سے زیادہ کرنے سے منع فرمایا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ سب روزے فرض روزوں کے علاوہ ہیں اب ہر مرد اور ہر عورت اپنی ضرورت کو خود سمجھتا ہے کہ اس کو کتنے روزوں کی ضرورت ہے جو فرائض کے علاوہ ہوں لہٰذا وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جتنے روزے چاہے رکھے اپنی حالت کے پیش نظر وہ جو بھی کرے اپنے عقل و شعور سے کام لے کرے اللہ رب کریم ہر انسان کی نیت سے واقف ہے اور اعمال کا دارو مدار اسلام نے نیت ہی پر قرار دیا ہے اس طرح انسان اپنے اختیار سے کام لے کر نوافل اور روزوں سے اپنی غرض پوری کرے اور دین و دنیا میں وہ کتنی رسوائیوں سے بچ سکتا ہے اور جو اجر وہ رب العزت کے پاس پائے گا وہ اس کے سوا ہے ، فرمایا جو لوگ اس حکم رسول سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرتے ہیں وہ عنداللہ { الصائمین } اور { الصائمات } کا اعزاز حاصل کرلیتے ہیں اور بلا شبہ کیا ہی خوب لوگ ہیں وہ جو عنداللہ اس اعزاز کے مستحق قرار پاتے ہیں واللہ یختص برحمتہ من یشاء۔ 9 ۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں ۔ سبحان اللہ ! کیا شان کریمی ہے کہ انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کی جتنی ضروریات تھیں اسے سے پہلے پیدا کردیں۔ انسان کو جسم وروح عطا کیے تو جہاں جسم کی غذا کا بندوبست کیا وہاں اس کی روح کی غذا کا بھی مکمل بندوبست کردیا تاکہ جب اس کو اپنی ضرورت کی چیز کو حاصل کرنا ہو تو اس کو تلاش نہ کرنا پڑے کہ اس کی ضرورت کی چیز ہے یا نہیں اگر ہے تو وہ کہاں ہے ؟ اس رحمت الٰہی کے تقاضا کی یہ تصویر ہے کہ حیوانی خواہشات کے روکنے کا حکم دینا چاہا تو ان کا علاج پہلے بتا دیا اور ایسا علاج بتایا جس علام کے لئے کچھ زیادہ تگ ودو کرنا بھی پڑتی پھر اوپر جب ان حیوانی خواہشات کے روکنے کا علاج بتادیا اور ایسا علاج بتایا جس علاج کے لئے کچھ زیادہ تگ ودو کرنا بھی نہیں پڑتی پھر اوپر جب ان حیوانی خواہشات کے روکنے کا علاج بتا دیا تو اب حکم دیا کہ اللہ کے نیک بندیوہ ہیں جو اپنے مقامات کا خاص خیال رکھتے ہیں جو حیوانی خواہشات کے ازالہ کے مقامات قرار پاتے ہیں۔ وہ ازالہ کیا ہے ؟ یہی کہ انسان ہر اس حرکت ، خیال اور مقال سے بچے جو ان مقامات میں ہیجان پیدا کرتی ہے کہ نہ رہے بانس نہ باجے بانسری۔ اسی طرح رب کریم نے وہ سیل (sale) بتائی جو انسان خود بھی لگا لے اور خود ہی اتار دے گویا وہ چاہے کہ بانس اگے اور بانسر بجے اور چاہے تو اس میں پھونک نہ لگائے اور اس طرح اس کو کسی خاندانی منصوبہ بندی والے کو بھی تلاش نہ کرنا پڑے اور اپنی حفاظت کی چیز کی خود حفاظت کرے ، اپنے ستار و غفار رب کے دیئے ہوئے انعام کو بھی حاصل کرلے جو اس نے { الحفظین فروجھم } اور { الحفظت } کے لئے تیار کررکھا ہے اور اس طرح وہ ایک پنتھ دو کاج کا مستحق ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ 10) اللہ کو یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں ۔ بلا شبہ یہ صفت گزشتہ ساری صفات کی جامع ہے کیونکہ { ولذکر اللہ اکبر } اللہ کا ذکر سب سے زیادہ بڑی چیز ہے جو ارشاد الٰہی ہے رہی یہ بات کہ اللہ کا ذکر کیا ہے ؟ کیا انسان لیٹا ، بیٹھا ، کھڑا اور چلتا پھرتا ، اللہ اللہ کرتا رہے تو یہ ذکر اللہ ہے ؟ اللہ اللہ بھی اچھی بات ہے لیکن ہم کو دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس معاملہ میں کیا بتایا اور سکھایا وہی طریقہ سب سے افضل اور سب سے اعلیٰ ہو سکتا ہے اور وہ اسی سورت کی آیت 21 میں وضاحت کے ساتھ بتادیا گیا جس کو اختصار کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جس شخص نے اپنی پوری زندگی کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا نمونہ بنا لیا اور ہر قول ، فعل اور عمل میں اس کو پیش نظر رکھا وہ گویا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کا ذکر یہ ہے کہ انسان محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرے اور اسی طرح لیٹے ، بیٹھے ، اسی طرح کھڑا ہو ، اسی طرح چلے پھرے ، اسی طرح کھائے ہے غرض کہ زندگی کے ہر پہلو میں صرف اور صرف نبی اعظم وآخر ﷺ کے طریقہ سے راہنمائی حاصل کرے اور پھر اس میں جتنی مطابقت ہوتی جائے گی اتنا ہی وہ اللہ کی یاد کرنے والا ہوتا جائے گا خواہ وہ مرد ہے یا عورت۔ مثلاً ایک آدمی سونا چاہتا ہے وہ دیکھے گا کہ رسول اللہ ﷺ سوتے وقت کیا کرتے اور کس طرح سوتے تھے ؟ اب اس کے سامنے آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ اس طرح آتا ہے کہ سونے سے پہلے آپ ﷺ وضو کرتے تھے اور پھر بستر پر پہنچ کر کسی کپڑے سے بستر کو جھاڑتے تھے اور لیٹے وقت آپ ﷺ دائیں کروٹ پر اس طرح لے ٹتے کہ دایاں بازو سر کے نیچے رکھ کر قبلہ رخ لیٹ جاتے اور تین بار پڑھتے استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھوا الحقی القیوم واتوب الیہ یا کوئی دوسرا وظیفہ۔ اسی طرح آپ ﷺ سو کر جب اٹھتے تو کیا کرتے ؟ آپ ﷺ کی ایک ایک حرکت محفوظ ہے جو طریقہ آپ ﷺ کا ہے اسی طریقہ کے مطابق کرنے سے انسان { الذاکرین اللہ کثیرا والذاکرات } میں داخل ہوتا جائے گا اور اس طرح جب مکمل طور پر فکر کرنے والا ہوجائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق وہ اس انعام کا مستحق ٹھہرے گا جو ذاکرین اور ذاکرات کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا ایک اختصاری خاکہ اس سورت کی آیت 21 کے تحت دیا گیا ہے اس پر ایک نظر ڈال لیں انشاء اللہ مفید رہے گا اور آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق لا الہ الا اللہ کا ورد بھی افضل الذکر ہے لیکن یہ حق حق اور ھو ھو کے نعرے اور جلیاں اور اسی طرح کے دوسرے سارے بکھیڑے جو خشک صوفیوں اور جاہل ملائوں نے اختیار کرلئے ہیں ان کا کوئی جواز شرعی موجود نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ضمن میں آتے ہیں کیونکہ اس طرح کی کوئی بات نبی اعظم وآخر ﷺ سے ثابت نہیں اور بلا شبہ جس بات پر آپ ﷺ کی مہر ثبت نہیں وہ جھوٹا سکہ ہے خواہ وہ کسی کے پاس سے ملے اور خواہ کون ہی اس کو چلارہا ہو۔ یاد رکھو کہ ان ضمنی ، ظلی اور بروزی نبوتوں ہی نے اسالم کا سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور بدقسمتی سے لوگ انہیں کے دلدادہ ہیں۔ زیر نظر آیت میں دس اعلیٰ سے اعلیٰ صفات جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مردوں کو بلند مرتبہ پر پہنچاتی ہیں ، عورتوں کو ان میں برابر کا شریک کرکے یہ بتادیا ہے کہ عورتیں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقامات عالیہ حاصل کرنے میں مردوں سے کسی طرح کم نہیں اس لئے آخر پر مغفرت اور اجر عظیم کا ذکر کردیا ہے اور بلا شبہ مغفرت سے اس جگہ حفاظت الٰہی ہی مرادلی جاسکتی ہے اور اس طرح یہ بتادیا ہے کہ جس طرح اجر کے مرد مستحق ہیں اس طرح عورتیں بھی مستحق ہیں گزشتہ رکوع میں نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کا ذکر تھا اسی مناسبت سے اس جگہ عورتوں کا ذکر مردوں کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کی عورتیں بھی مقامات عالیہ حاصل کرسکتی ہیں ، نبوت و رسالت کے سوا تمام مدارج کسبی ہیں اور ہر جو یندہ یا بندہ ہوتا ہے اس میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں جو تلاش کرتا ہے وہ پالیتا ہے اور اس میں یہ بھی ہمارے لئے سبق ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی میں اتار چڑھائوہوتے رہتے ہیں ہر وہ انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت جو عنداللہ صحیح راستہ پر گامزن ہو وقتی حالات اگر زمانہ کے رواجات کے مطابق اس کو سازگار نہ آئیں تو اس کے مقام ودرجہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ دنیا کے لوگ کسی کو ” بہت اچھا “ اور ” بہت خوب “ کے نعروں سے یاد کرتے رہیں لیکن وہ عنداللہ صیحا اور دسرت نہ ہو تو دنیا والوں کے یہ نعرے اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور اسی طح اگر ایک آدمی کو دنیا کے لوگ ” برا بھلا “ اور ” یہ وہ “ کا نشانہ بناتے رہیں لیکن وہ عنداللہ صحیح اور درست ہو تو دنیا والوں کا یہ سب کچھ کہنا اس کا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح زیر نظر آیت گویا آنے والی آیات جن میں سیدہ زینب ؓ اور سیدنا زید ؓ کا ذکر کیا گیا ہے دیباچہ یا تمہید ہے تاکہ بات سننے اور سمجھنے کے لئے لوگ تیار ہوجائیں اور روایات کو بالائے طاق رکھ کر حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اس طرح کوئی بات منہ سے نکالنے میں جلدی نہ کریں بلکہ اس بات کو معمولی زندگی بنائیں کہ پہلے بات کو تولیں پھر منہ سے بولیں۔ امہات المومنین کا ذکر چونکہ پیچھے گزر چکا ہے اس لئے اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تیرہ ازواج مطہرات کا مختصر ذکر کردیا جائے اور بعد میں اس بات کی وضاحت کردی جائے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کو ان شادیوں کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور ان کا اصل مقصد کیا تھا ؟ اگرچہ ابھی مزید ذکر امہال المومنین کا آئے آئے گا اور یہ بھی کہ اس کے بعد بھی بعض عورتوں کو یہ شرف نصیب ہوا تاہم ہم اس جگہ سب کا ذکر کردیتے ہیں تاکہ مجموعی طور پر قارئین اپنی روحانی مائوں کی مختصرسیرت سے واقف ہوجائیں اور ان کی عزت واحترام اپنی حقیقی مائوں سے بھی زیادہ کریں کیونکہ وہ نبی اعظم وآخر ﷺ سے ایک خاص تعلق رکھتی تھیں ، ؓ 1 ۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ ؓ کا مختصر حال سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ ہمارے نبی کریم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ ہیں۔ ان کے والد کا نام خویلد ، دادا کا نام اسد اور والدہ کا نام فاطمہ اور نانی کا نام زائدہ تھا۔ نسباً قریشیہ تھیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے یکے بعد دیگرے دو شوہروں سے نکاح کرچکی تھیں اور ان دونوں سے اولاد بھی تھی۔ پہلے شوہر کا نام ابوہالہ اور دوسرے کا نام عتیق تھا۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کے جب دوسرے خاوند یعنی عتیق بن عائذ بھی وفات پاگئے تو ان کی شرافت اور مال واولاد کی وجہ سے مکہ کا ہر شریف آدمی جو آپ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس بات کا متمنی تھا کہ ان سے عقد کرلے لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ طے پاچکا ہو۔ رسول اللہ ﷺ ابھی رسول بن کر مبعوث نہ ہوئے تھے اور آپ ﷺ کی عمر کا چوبیسواں برس شروع ہورہا تھا کہ چچا ابوطالب نے کہا کہ میں مالدار آدمی نہیں ہوں اس لئے بہتر ہے کہ تم اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کی طرح خدیجہ کے مال سے تجارت شروع کردو۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کو بھی اس بات کا علم ہوگیا تو انہوں نے خود محمد رسول اللہ ﷺ کو طلب کرکے کہہ دیا کہ اگر آپ ﷺ میرا مال لے جاکر فروخت کریں تو آپ ﷺ کو دوسروں سے زیادہ حصہ دینے کو تیار ہوں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کے مال سے تجارت شروع کی اور دوسروں سے بہت زیادہ نفع کمایا اور کمال امانت ودیانت سے کام کرکے سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کے دل میں جگہ پیدا کردی کہ وہ خود نکاح کی درخواست بھی کردے۔ ماشاء اللہ۔ ایسا ہی ہوا کہ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو درخواست پیش کردی جس کو آپ ﷺ نے منظور کرلیا اور دوسرے خاندان والوں نے بھی اس کو بہت ہی پسند کیا اس طرح جب آپ ﷺ کی عمر 25 سال ہوگئی اور سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کی عمر چالیس سال تھی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے عقد میں آگئیں۔ اس طرح سے رسول اللہ ﷺ اس سارے مال کے جس کی مالک سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ تھیں ایک طرح کے نگران ہوگئے اور سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کی ساری اولاد آپ ﷺ کے ربیب ہوگئے۔ اس طرح اب رسول اللہ ﷺ اس نکاح کے بعد فکر معتشد سے آزادہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکروفکر میں ہمہ تن مصروف ہوگئے اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کا تفکر کچھ زیادہ ہی بڑھتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم ﷺ پانی کی مشک اور ستوئوں کی تھیلی ساتھ لے کر غار حرا میں تفکر و تدبر میں مصروف ہوگئے اور ایک روز آیا کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغام کے لئے منتخب کرلیا اور وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کے بطن اطہر سے رسول اللہ ﷺ کے دو بچے اور چار بچیاں پیدا ہوئیں۔ بچوں کے نام جو سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کے بطن سے پیدا ہوئے قاسم اور عبداللہ ہیں اور لڑکیوں کے نام زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ ؓ سیدہ فاطمہ ؓ سب سے چھوٹی تھیں اور منصب نبوت اور فاطمہ ؓ کی ولادت بالکل قریب قریب ہیں یعنی آپ ﷺ کی عمر کے اکتالیسویں سال۔ اگرچہ اس میں اختلاف بھی ہے۔ اس طرح سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ نبوت سے پہلے ہی محمد ﷺ بن عبداللہ کے ساتھ رہ کر آپ ﷺ کی زوجیت میں آپ ﷺ کی پاکیزگی و طہارت کو نہایت قریب سے دیکھ رہی تھیں لہٰذا جب آپ ﷺ نے پیغام نبوت سنایا تو سنتے ہی سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ نے بغیر کسی تردد کے قبول کرلیا۔ اس طرح بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی صحابیت کا شرف بھی سب سے پہلے ان ہی کے حصے میں آیا اور پھر نبوت کے دس سال تک آپ ﷺ کا اپنی جان سے بڑھ کر خیال کیا اور ہر حال میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے کام کو ترجیح دی۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کے بطن سے نبی کریم ﷺ کی چھو اولادیں پیدا ہوئیں جن میں سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے تھے لیکن دونوں بیٹوں نے صغرسنی ہی میں وفات پائی۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کا انتقال رمضان المبارک 10 نبوی کو مکہ ہی میں ہوا۔ 2 ۔ ام المومنین سیدہ سودہ ؓ کا مختصر حال دس نبوی کو عام الحزن کے نام سے بیان کیا جاتا ہے جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس سال میں محمدرسول اللہ ﷺ پر جان نچھاور کردینے والی رفیقہ حیات کا انتقال ہوا اور اسی سال ابوطالب کی بھی وفات ہوئی۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کی وفات کے بعد اسی سال نبی کریم ﷺ نے عائشہ صدیقہ ؓ اور سودہ بنت زمہ بن قیس ؓ سے نکاح کیا۔ ان دونوں میں کس سے پہلے نکاح ہوا اور کس سے بعد میں سیروتواریخ میں اختلاف ہے تاہم یہ بات زیادہ وزنی ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ سے پہلے نکاح ہوا اور بعد میں سودہ ؓ سے۔ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں آبادہ ہونے میں خدیجہ الکبر کے بعد پہلی بیوی بالاتفاق سیدہ سودہ ؓ ہی ہیں۔ اس طرح آپ ﷺ کے گھر آباد ہونے میں سیدہ عائشہ ؓ بالاتفاق سیدہ سودہ ؓ کے بعد تشریف لائی ہیں اور زیادہ تر یہی کہا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کا نکاح تو مکہ ہی میں شوال 10 نبوی میں ہوگیا تھا لیکن رخصتی ہجرت کے دوسرے سال مدینہ منورہ میں جا کر ہوئی۔ جس سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں آباد ہونے والی پہلی بیوی سودہ ؓ ہی ہیں۔ نکاح خواہ سیدہ عائشہ ؓ سے بعد میں ہوا خواہ پہلے۔ سیدہ سودہ ؓ کی شادی پہلے سکران بن عمرو بن عبدود سے ہوئی تھی۔ یہ اپنے خاوند سے بھی پہلے ایمان لائی تھیں اور پھر خاوند کو ہدایت اور ترغیب کی تو وہ بھی مسلمان ہوگئے۔ ازیں بعد انہوں نے اپنے خاوند سکران اور اپنی والدہ کے ساتھ ہجرت حبشہ بھی کی۔ لیکن سکران کا حبشہ ہی میں انتقال ہوگیا ادھر رسول اللہ ﷺ کی بیوی خدیجہ ؓ بھی وفات پاگئیں تو اللہ نے فریقین کا دکھ دور کرنے کے لئے فریقین کے دل میں یہ بات ڈال دی اور اس طرح سیدہ سودہ ؓ عنہانبی کریم ﷺ کے گھر آباد ہوگئیں یا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا گھر آباد کیا۔ سیدہ سودہ ؓ عنہامحاسن افعال اور مکارم اخلاق میں ابتداء ہی میں معروف تھیں اور رسول اللہ ﷺ کے گھر میں آباد ہونے کے بعدوہ تقویٰ وورع میں اور بھی بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ ان کے نکاح کے بعد رسول اللہ ﷺ تقریباً تین سال مکہ مکرمہ میں رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ صدیق اکبر ؓ کو ساتھ لے کر ہجرت کر گئے لیکن دونوں کے خاندان کے باقی سارے افراد مکہ میں ہی رہے۔ مدینہ سے رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہ اور ابورافع کو دو اونٹ دے کر بھیجا تھا یہ دونوں حضرات حضرت ابوبکر ؓ کے بیٹے کو ساتھ لے کر دونوں خاندانوں کے افراد کو مدینہ لے گئے اس طرح سیدہ سودہ ؓ اور سیدہ عائشہ ؓ نے ایک ساتھ ہجرت کی اور ایک ساتھ ہی مدینہ پہنچیں لیکن وہاں پہنچ کر سیدہ سودہ ؓ عنہارسول اللہ ﷺ کے اور سیدہ عائشہ اپنے والد بزرگوار کے گھر ٹھہریں۔ اس طرح ہجرت کے دوسرے سال سیدہ عائشہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی۔ سیدہ سودہ ؓ اچھی قدآور تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بھاری بھرکم جسم بھی رکھتی تھیں۔ ان کی تاریخ وفات میں کچھ زیادہ ہی اختلاف ہے۔ ” الاستیعاب “ اور ” الا صابۃ “ میں سیدنا عمر ؓ کی خلافت کے آخری سالوں میں تحریر ہے اور حافظ ابن کثیر (رح) نے ابن الجوزی کے قول کے مطابق 54 ھ تحریر کیا ہے اس لئے آپ کی عمر میں کافی سالوں کا فرق ہے ایک قول کے مطابق 80 سال اور دوسرے کے مطابق 104 سال ہوتی ہے اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ 3 ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ کا مختصر حال سیدہ عائشہ ؓ عنہانام ، صدیقہ لقب ، ام المومنین خطاب ، ام عبداللہ کنیت اور بعض روایات کے مطابق ح میرا لقب پایا اور نبی کریم ﷺ بنت الصدیق کے خطاب سے بلایا کرتے تھے اور آپ کی کنیت آپ کے بھانجے کے نام پر رکھی گئی۔ اس لئے کہ عبداللہ اسماء ؓ کے بیٹے تھے اور یہی عبداللہ بن زبیر کے نام سے تاریخ وسیر میں معروف ہیں۔ سیدہ عائشہ ؓ کے والد گرامی قدر کا نام عبداللہ ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ سیدہ عائشہ ؓ کی والد ماجدہ کا نام زینب ام رومان تھا۔ باپ کی طرف سے قریشیہ اور ماں کی طرف سے کنانیہ تھیں۔ صدیقہ ؓ کا نسب ساتویں آٹھویں پشت پر جاکر رسول اللہ ﷺ سے مل جاتا تھا۔ ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا۔ عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عقد میں آئیں۔ ان سے ابوبکر صدیق ؓ کی دو اولادیں ہوئیں۔ عبدالرحمن اور حضرت عائشہ ؓ ۔ حضرت عائشہ ؓ کی ولادت کی تاریخ سے تاریخ وسیر کی عام کتابیں خاموش ہیں۔ سولہ سال کی عمر میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے ہوا مورخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ عنہانبوت کے چوتھے سال کے ابتداء میں پیدا ہوئیں اور اس کے بعد ارباب سیر نے اس کی تقلید کی اور پھر سب یہی لکھتے چلے آئے جو فی الحقیقت صحیح نہیں ہے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہجرت سے تین برس پہلے 16 برس کی عمر میں شوال 10 نبوی میں رسول اللہ ﷺ سے بیاہی گئیں اور شوال 1 ہجری میں 19 برس کی تھیں کہ رخصتی ہوئی اور 28 سال کی عمر میں یعنی ربیع الاول 11 ھ میں بیوہ ہوگئیں۔ اس طرح ان کی ولادت کی صحیح تاریخ 18 قبل ہجری ہوتی ہے اور اس کو 5 قبل نبوت بھی کہا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ یہ بات آپ کو نئی معلوم ہوگی اور آپ یہ بات آپ کو نیر معلوم ہوگی اور آپ ششدرہ رہ جائیں گے کہ میں نے کیا لکھ دیا کیونکہ آپ آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ حدیث وتاریخ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سیدہ عائشہ ؓ سے جب نکاح ہوا تو اس وقت نبی کریم ﷺ کی عمر پچاس اور سیدہ عائشہ ؓ کی عمر 6 سال تھی اور رخصتی کے وقت 9 سال کی عمر تھی اور اس طرح لکھ کر گویا ہم نے صحیح احادیث کا انکار کیا ہے۔ انکار نہیں کیا احادیث اپنے مقام پر بالکل صحیح اور درست ہیں بلکہ خود سیدہ صدیقہ ؓ سے روایت بھی ہیں جن کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ : عن عائشۃ قالت تزو جنی النبی ﷺ وانا بنت ست سنین سیدہ عائشہ ؓ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جب مجھ سے نکاح کیا اس وقت میری عمر چھ برس کی تھی۔ (بخاری شریف پارہ 15 ، کتاب المناقب) بالکل یہی الفاظ مسلم میں بھی موجود ہیں اور اس طرح کے الفاظ ترمذی میں بھی ہیں اور روایات بھی صحیح و درست ہیں لیکن اس جگہ سست عشر ہے اور عشر کا لفظ محذوف ہے جیسا کہ عام بول چال میں بڑے عدد کو اور کبھی چھوٹے عدد کو حذف کردیا تھا ہے اور اس طرح کی مثالیں احادیث میں بکثرت ہیں اس لئے کہ جس طرح ہر زبان میں اس کا رواج موجود ہے عربوں میں بھی تھا اور اس وقت بھی ہے۔ بول چال میں بھی اور تحریر میں بھی دونوں صورتوں میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں مثلاً کوئی کہتا ہے کہ 70 ء میں ہم نے مکان بنایا تھا ، 60 ء میں حج پر گئے تھے۔ 72 ء میں فلاں نے وفات پائی اور سب جانتے ہیں کہ اس 60 ء اور 70 ء سے مراد 1960 ء ہیں اس طرح بڑے عدد کو چھوڑ کر بات کرنا عام محاورہ ہے لیکن جب اس پر سات آٹھ سو سال گزر جائیں تو پھر تحریر شدہ بات تو اسی طرح رہے گی لیکن مدت بعید گزرنے پر یہ بحث پیدا ہوجائے گی کہ یہ 970 ء ہے یا 1970 ء یا کیا ہے ؟ اس طرح جب نقل در نقل ہوتا چلا جائے تو یقینا شبہ ہوگا لیکن جس وقت وہ تحریرہوئی یا جس وقت وہ الفاظ بولے گئے اگر اس زمانہ کے پیش نظر اس کو دیکھیں گے تو پوری وضاحت ہوجائے گی کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح اس جگہ عشر جو بڑا عدد ہے اس کو حذف کرکے بیان کیا گیا لیکن مرور زمانہ سے الفاظ وہی رہے اور وہی رہنے چاہیے تھے لیکن ان کا مفہوم غلط بیان کردیا گیا۔ اس بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسماء ؓ جو عائشہ ؓ کی بڑی بہن ہیں ان کے متعلق تحریر ہے کہ ماتت اسماء بنت ابی بکر الدصیق بعد ابنھا عبداللہ بلیال وکانت اخت عائشۃ لا بیھا وام اسماء بنت ابی بکر قتیلۃ بنت عبدالعزی بن عبداسعد من بنی مالک بن حسل وکانت لا سماء یوم ماتت مائۃ سنۃ ولدت قبل التاریخ بسبع وعشرین سنۃ (مجمع الزوائد 260 جلد 9) ” اسماء بنت ابی بکر الصدیق نے اپنے بیٹے عبداللہ کے بعد وفات پائی یہ اسماء عائشہ بنت ابی بکر ؓ کی بڑی بہن ہیں جن کی والدہ کا نام قتیلہ بنت عبدالعزی ہے ، اسماء ایک سو سال کی عمر پاکر فوت ہوئیں اور یہ اسماء سنہ ہجری سے 27 سال پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ “ یہی بات اسماء الرجال ملحقہ مشکوٰۃ شریف اور الریاض المستطابہ میں بھی درج ہے کہ وہ 73 ہجری میں سو سال سے زائد عمر پاکر فوت ہوئیں۔ اس حساب سے اسماء ہجرت کے وقت 28 سال کی ہوئیں اور عائشہ ؓ اسماء ؓ سے دس سال چھوٹی ہیں اس حساب سے عائشہ ؓ ہجرت کے وقت 18 سال کی ہوئیں اور یہی بات ہم نے بیان کی ہے۔ اسماء ؓ کے دس سال بڑا ہونے کا ذکر بھی اسماء الرجال ملحقہ مشکوٰۃ شریف اور الریاض المستطابہ میں موجود ہے۔ سید عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ عشر اسامۃ بعتبۃ الباب فشج فی وجھہ فقال رسول اللہ ﷺ امیطی عندالاذی فتذرتہ فجعل یمص الدام الخ (کنزالعمال ج 7 ص 4 ، مجمع الزوائد ج 2 ص 223) ” اسامہ نے گھر میں داخل ہوتے وقت دہلیز سے ٹھوکر کھائی تو چہرہ کے بل گر کر خون آلود ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اس کو اٹھا کر اس کا چہرہ صاف کردے میں نے اس کے صاف کرنے سے گھن کھائی تو آپ ﷺ خود اٹھے اور اس کو صاف کیا “۔ کنزالعمال ج 7 ص 5 پر ہے کہ امرنی رسول اللہ ﷺ ان اغسل وجہ اسامۃ بن زید یوما وھو صبی وما ولدت والا اعرف کفے یغسبل الصبیان فاخذتہ فغسلہ غسلا لیس بذلک فاخذہ فجعل یغسل وجھہ ویقول لقد احسن بنااذلم یکن جاریۃ۔ (کنز العمال ص 5 ج 7 بحوالہ جامع عبدالرزاق وابن عساکر) اسامہ ابھی بچہ ہی تھا کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اس کا چہرہ دھو کر صاف کردے چونکہ میرے ہاں ! کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا اس لئے مجھے کچھ سلیقہ نہیں تھا کہ بچہ کا چہرہ کیسے دھوتی اور صاف کرتی۔ بہرحال میں نے اٹھ کر جیسا کچھ دھویا مگر آپ ﷺ نے میری صفائی کو پسند نہ کیا لہٰذا خود اٹھے اور صاف کرنے لگے اور فرمایا کہ اچھا ہوا کہ یہ لڑکا پیدا ہوا ہے اگر یہ لڑکی پیدا ہوتی تو ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنا پڑتا۔ “ (اسی طرح کی روایت ترمذی ج 2 ص 223 میں بھی موجود ہے۔ ) ان دونوں احادیث سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ عائشہ ؓ اسامہ سے کافی بڑی تھیں کیونکہ اسامہ بچہ تھا اور آپ فرمارہی ہیں کہ ” میرے چونکہ کوئی اولاد نہ تھی لہٰذا مجھے چہرہ صاف کرنے کا سلیقہ نہ تھا “۔ یہ فقرہ صاف صاف بتا رہا کہ عائشہ جوان تھیں اور اولاد کے قابل تھیں اگرچہ اولاد نہ تھی۔ یہ اسامہ کون ہیں ؟ یہ اسامہ زید بن الحارث کے بیٹے ہیں جس زید کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا متنبی بنایا تھا ۔ جس زید کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد زینب کا نکاح کرکے دیا تھا۔ یہ وہی اسامہ ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات اقدس کے آخری ایام میں ایک اہم سریہ رومیوں کے مقابلہ پر بھیجنے کا بندوبست فرمایا تھا جس کی امارت اسامہ کے سپرد ہوئی۔ اس سریہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس میں حضرت اسامہ کو حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، حضرت سعید بن زید اور حضرت قتادہ بن لقمان جیسے کبار صحابہ پر شرف امارت عطا فرمایا تھا۔ جس کا ذکر صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، مجمع الزوائد ، کنز العمال اور دوسری کتب احادیث میں موجود ہے۔ اس امارت کے وقت جو 11 ہجری میں مرض الموت کے درمیان رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی تھی۔ اسامہ ؓ کی عمر اسماء الرجال ، مشکوٰۃ شریف کے مطابق بیس سال تھی۔ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کے بیان کے مطابق 18 سال کی تھی۔ آپ اس اٹھارہ سال ہی کی روایت کو تسلیم کرلیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 11 ہجری میں اسامہ بھی 18 سال کے ہوں اور سیدہ عائشہ بھی 11 ہجری میں 18 سال کی ہی ہوں تو دونوں کی عمر برابر ہوئی اور اوپر کی روایات ثابت کرتی ہیں کہ عائشہ ؓ اسامہ سے بہت بڑی تھیں تو اس تجزیہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کم از کم عائشہ ؓ کو اس وقت 11 ہجری میں 28 سال کا ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب کہ شادی کے وقت عائشہ ؓ 16 سال کی اور رخصتی کے وقت 19 سال کی ہوں کیونکہ رخصتی ہجرت کے دوسرے سال مدینہ طیبہ میں ہوئی جیسا کہ صحیح حدیث سے واضح ہوچکا ہے۔ اس پر مزید شہادتیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کی عمر بوقت نکاح 16 سال اور بوقت رخصتی 19 سال تھی اور اس طرح کی شہادتیں بیان کرتے وقت بڑا عدد یا کبھی چھوٹا عدد بھی حذف کیا جاتا تھا۔ بخاری شریف اور دوسری کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں اور اس وقت تک بھی اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ بڑا عدد چھوڑ کر صرف ایک عدد بیان کردیا جائے اس کا رواج تحریر میں بھی ہے اور تقریر میں بھی۔ پھر قرآن کریم بھی اسی طرح راہنمائی کرتا ہے کہ نکاح جس سے مراد ازدواجی تعلقات لیا جاتا ہے اس وقت بلوغت کے بعد ہے پہلے نہیں جیسا کہ ارشاد ہے { وابتلوا………… النکاح } (النساء 6:4) نکاح یعنی ازواجی تعلق کے لئے بلوغت شرط ٹھہرادی ہے۔ کیونکہ نکاح کا مقصد طرفین کی خواہشات کا احترام اور ان کی تکمیل ہے نہ کہ کسی ظلم و زیادتی کا نام نکاح ہے۔ جن قوموں کے ہاں عقل کا استعمال گناہ ہے وہ تو ایسی باتیں کرتی رہیں لیکن جس قوم نے عقل ہی کو دارومدار دین سمجھا ہے اس کو تو عقل سے کام لینا ہی چاہیے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور پھر کسی کے متعلق یہ بیان کیا جارہا ہے ؟ اس سلسلہ میں ساری احادیث اور ان کی شروح اور امثال وغیرہ کو اگر جمع کیا جائے تو ایک کتاب بن جائے لیکن یہ ایک مستقل موضوع ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس معاملہ میں بڑے بڑے لوگوں کے سر میں درد اٹھی ہے لیکن وہ سر درد کی گولی کھا کر خاموش ہوگئے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ؟ لیکن ہم نے سچی بات کہہ دینے کی قسم کھائی ہے سر رہے یا نہ رہے یہ ہماری ذمہ داری نہیں۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں تاہم ہمارا وعدہ ہے کہ کسی مناسب مقام پر اس کی تفصیل ضرور بیان ہوگی۔ انشاء اللہ۔ فی الحال آنے والوں کے لئے میں نشان راہ چھوڑے جارہا ہوں اگر کوئی اس راہ کا راہ رو ہوا تو انشاء اللہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا اور ماشاء اللہ اس سلسلہ میں پیش رفت شروع ہوچکی ہے اور آہستہ آہستہ جمود ٹوٹے گا تو ساری بات واضح ہوجائے گی۔ ہاں ! ایک بات مزید گوش گزار کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ صحیح بخاری کتاب المناقب کے باب تزویج النبی ﷺ عائشہ ؓ کے تحت ایک بہت طویل حدیث مذکور ہے جو حدثنا یحییٰ بن بکیر سے شروع ہوتی ہے اور اس میں عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ لم اعقل ابوی قط الا وھما بدینان الدین ” کہ مجھے تو جب ماں پاب کی شناخت ہوئی یعنی جب میں آنکھ کھولی تو اپنے والدین کو دین اسلام پر ہی پایا “۔ اس فقرہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ عائشہ ؓ کی پیدائش نبی کریم ﷺ کے دعویٰ نبوت کے بعد ہونا لازمی قرار پاتا ہے کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچہ خواہ کوئی بھی ہو ایسا نازک معاملہ نہیں سمجھ سکتا۔ لہٰذا اس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس وقت عائشہ صدیقہ ؓ 5 یا 6 سال کی تھیں اس طرح جب آپ نے آنکھ کھولی یعنی کچھ شعور آیا تو اپنے ماں باپ کو دین اسلام ہی پر پایا۔ (صحیح بخاری جلد اول ص 556) یقینا یہ روایت بھی صحیح ہے اور اس کا یہ مفہوم بھی درست ہے۔ مختصر یہ کہ سیدہ خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ بہت ملول رہا کرتے تھے بلکہ اس تنہائی کے غم سے زندگی ہی دشوار ہوگئی تھی۔ جان نثاروں کو بھی اس کی بڑی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت عثمان بن منطعون المتوفی دو ہجری ایک مشہورو معروف صحابی تھے ان کی بیوی خولہ بنت حکیم آپ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ دوسرا نکاح کرلیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کس سے ؟ خولہ نے کہا کہ بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے موجود ہیں جس بات کو آپ ﷺ پسند فرمائیں اس کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا وہ کون ہیں ؟ خولہ نے کہا کہ بیو تو سودہ بنت زمہ ہیں اور کنواری ابوبکر ؓ کی لڑکی عائشہ ہے۔ ارشاد ہوا کہ بہتر ہے کہ تم اس کی نسبت گفتگو کرو۔ حضرت خولہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی مرضی پاکر حضرت ابوبکر ؓ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔ جاہلیت کا دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں عرب اپنے منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر حضرت ابوبکر ؓ نے کہا خولہ ! عائشہ تو آنحضرت ﷺ کی بھتیجی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر ؓ میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے نکاح کردینا ایک شرط کے تحت منظور کرلیا۔ (صحیح بخاری ص 760) 1 ۔ یہ شرط کیا تھی ؟ شرط یہ تھی کہ چونکہ عائشہ ؓ ؓ نبی کریم ﷺ کی دعوت سے پہلے مطعم بن عدی کے بیٹے سے منسوب ہوچکی تھیں اس لئے اب ان سے پوچھنا بھی ضروری تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کیا کرتے ہیں چناچہ ابوبکر صدیق ؓ نے مطعم بن عدی سے جاکر پوچھا کہ تم نے عائشہ ؓ کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی اب آپ کا ارادہ کیا ہے ؟ مطعم نے اپنی بیوی سے پوچھا کیونکہ مطعم کا خاندان ابھی تک اسلام سے آشنا نہیں ہوا تھا ، اس کی بیوی نے کہا کہ اگر یہ لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بےدین ہوجائے گا لہٰذا مطعم نے ابوبکر ؓ کو کہہ دیا کہ ہم کو یہ بات منظور نہیں (مسند احمد جزء 6 ص 311) یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ عائشہ ؓ اس وقت جوان ہورہی تھیں کم از کم یہ کہ بالکل بچی نہیں تھیں جیسا کہ بدقسمتی سے علمائے اسلام نے سمجھ لیا ہے۔ 2 ۔ ابن سعد نے ایک روایت جو عبداللہ بن نمیر کے واسطے سے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے نقل کی ہے اس میں تحریر ہے کہ ” رسول اللہ ﷺ نے عائشہ ؓ کے لئے ابوبکر ؓ کو پیغام دیا ، ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں عائشہ کو مطعم بن عدی کے بیٹے کے لئے دے چکا ہوں مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اس سے چھٹکارا حاصل کرلوں ، جبیر نے انہیں چھوڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے نکاح کرلیا۔ “ (طبقات ابن سعد ج 8 ص 58 عربی) 3 ۔ ” جب ابوبکر صدیق ؓ کفار کی ایذا سانیوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے 5 نبوی میں حبشہ کی جانب ہجرت کا ارادہ کیا تو انہوں نے سوچا کہ جانے سے قبل اپنی بیٹی عائشہ کو سسرال کے حوال کر جائوں اور بعد میں ہجرت کروں تو وہ اس مقصد کے لئے مطعم بن عدی کے پاس گئے اس وقت اس وقت اس کی بیوی بھی وہاں موجود تھی چونکہ مطعم نے اپنے جبیر کے لئے عائشہ ؓ کا رستہ مانگا ہوا تھا جب ابوبکر صدیق ؓ نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو مطعم کی بوی فوراً بول پڑی کہ اگر ہم اپنے بیٹے کی شادی آپ کی بیٹی سے کردیں تو تم کیا اس کو بھی بےدین بنالو گے گویا اس نے مسلمانوں کو بےدین سمجھا اور وہ کہنے لگی کہ جس مذہب کو تم نے اختیار کیا ہے اس میں میرے بیٹے جبیر کو بھی شامل کرلو گے۔ ابوبکر ؓ نے مطعم کی طرف دیکھا اور کہا کہ تمہاری بیوی صاحبہ کیا ارشاد فرمارہی ہیں ؟ مطعم نے کہا کہ بات تو بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے ہمیں تم سے اور تمہاری بیٹی سے اندیشہ ہے ، یہ سن کر ابوبکر ؓ وہاں سے چلے آئے “۔ (طبری جلد اول ص 493) 4 ۔ یہ واقعہ شبلی نعمانی (رح) نے بھی سیرت النبی جلد دوم میں تحریر کیا ” حضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد خولہ بنت حکیم نے آنحضرت ﷺ سے نکاح کی تحریک کی۔ آپ ﷺ نے رضامندی ظاہر کی ، خولہ نے ام رومان سے کہا ، انہوں نے ابوبکر ؓ سے ذکر کیا وہ بولے کہ جبیربن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں اور میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی لیکن معطم نے خود اس بنا پر انکار کردیا کہ اگر عائشہ ؓ ان کے گھر آگئیں تو گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا “۔ (سیرت النبی جلد ، دوم ص 246 طبع دار الاشاعت کراچی) 5 ۔ نیاز فتح پوری نہایت زیرک وذہین مانے جاتے ہیں انہوں نے ” صحابیات “ نام کی کتاب لکھی اس میں رقم طراز ہیں کہ ” حضرت عائشہ ؓ اس سے قبل جبیرببن مطعم کے بیٹے سے منسوب ہوچکی تھیں اس لئے حضرت ابوبکر ؓ نے جبیر سے پوچھا مگر ابھی جبیر کا خاندان اسلام سے نا آشنا تھا اس لئے جبیر کی ماں نے یہ کہہ کر کہ اس لڑکی کے آنے سے ہمارا لڑکا لامذہب ہوجائے گا صاف انکار کردیا۔ (صحابیات ص 30 صوف پر نٹنگ پریس) اس میں نیاز فتح پوری صاحب سے یا کاتب سے یا معلوم نہیں کہ کیسے ” جبیربن مطعم کے بیٹے سے “ کے الفاظ تحریر ہوگئے حالانکہ حقیقت میں ” جبیر بن مطعم تھا “ یہ ” کے بیٹے سے “ کے الفاظ کیسے تحریر ہوئے اس بات کو اللہ ہی جانتا ہے شاید نیاز صاحب (رح) نے ” مطعم بن عدی کے بیٹے جبیر سے “ تحریر کیا ہو وہ سہواً اس طرح لکھا گیا ہو۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے ” جبیر بن مطعم کے بیٹے سے “ کے الفاظ ایسے یادرکھے کہ اس کے بعد کے سیرت نگار سب یہی لکھتے آرہے ہیں ہم نے اس کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ بعض اوقات ایک غلطی ہوجاتی ہے تو بعد میں آنے والے مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں اور یہ بات آج سے نہیں بہت پرانی ہے اور تاریخ میں اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں اور یہی کچھ سیدہ عائشہ ؓ کے حالات میں ہوا خصوصاً عمر عائشہ ؓ میں۔ اس طرح حضرت عائشہ ؓ کا نکاح جب ہوا تو آپ کی عمر 16 برس کی یقینا تھی اور اس شادی کا منشا دراصل نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی جو علم الٰہی میں محفوظ تھی۔ دوسرا اس کا سبب یہ بھی تھا کہ ابوبکر صدیق ؓ کے اسلام لے آنے کی وجہ سے دوسرے خاندان والے اس وقت رشتہ ناطہ کو پسند بھی نہیں کرتے تھے بلکہ اس طرح کے رشتے ہی نہیں نکاح ہوچکے بھی لوگوں نے نہ رکھے اور طلاقیں دے دیں اس لئے آپس میں رشتے کرنے کی یہ ایک مجبوری بھی تھی۔ چناچہ یہ بات بالکل واضح ہیجس میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کی دو بیٹیوں کو طلاق دی گئی جو ابولہب کے دونوں بیٹوں سے شادی شدہ تھیں۔ ایسے واقعات جو احادیث میں آئے ہیں کہ عائشہ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ والدہ ماجدہ نے پکڑ کر اور ہاتھ منہ دھو کر اور نہلا دھلا کر رخصتی کے لئے تیار کیا تو یہ سب احادیث بالکل صحیح اور درست ہیں اور ان میں کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں ، سترہ اٹھارہ سال کی عمر کی لڑکیوں کا ہم جو لیوں کے ساتھ کھیلنا اور ان کیس اتھ بیٹھنا اٹھنا اور کھانا پینا آج بھی عام ہے اور خصوصاً شادی بیاہ کے دنوں میں تو یہ باتیں اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں اور آج بھی دلہن کو نہلا دھلا کر تیار کرنے کا سارا کام سہلیاں ، بہنیں اور والدہ ہی انجام دیتی ہیں اس طرح ایسی باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کسی طرح بھی درست نہیں کہ اس وقت عائشہ ؓ کی عمر چھ سات سال کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے عائشہ ؓ کو حق مہر میں پانچ سو درہم نقد ادا کئے اور ایک چھوٹا سا گھر بھی جو اس وقت رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکرصدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ کی آخری آرام گاہ ہے۔ جس پر بعد میں روضہ اقدس تعمیر کیا گیا اور یہ واقعہ خاص حالات میں پیش آیا حالانکہ آپ ﷺ نے پکی عمارتیں قبروں پر بنانے سے منع فرمایا ہوا تھا تاہم قبریں آج بھی اندر سے کچی ہیں اور آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ قبروں کو پکار نہ بنائو آج بھی اسی طرح بدستور قائم ہے اس کے خلاف ورزی کرنے والے یقینا عنداللہ جواب دہ ہیں۔ عائشہ صدیقہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کو بہت محبت تھی اور آپ ﷺ نے عائشہ ؓ کی ذہانت وفطانت اور قابلیت کے پیش نظر جو ان کو دراصل باپ سے ورثہ میں حاصل ہوئی تھی ان کے اندر قرآن کریم اور اپنی سنت کا علم بھر دیا۔ اگرچہ اس تعلیم کا کوئی خاص وقت مقرر نہ تھا۔ اب معلم شریعت خود گھر میں تھے اور شب وروز ان کی صحبت میسر تھی ۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیم و ارشاد کی مجلسیں جو گھر سے باہر منعقد ہوتی تھیں وہ بھی مسجد ہی میں ہوتی تھیں جو عائشہ ؓ کے حجرہ سے بالکل ملحق ہوتی تھیں اس لئے اپنی ذہانت کے باعث ان سے بھی وہ براہ راست مستفید ہوسکتی تھیں۔ اس طرح شب روز علوم ومعارف کے بیسیوں مسائل ان کے کانوں میں پڑتے تھے اور پھر کسی بات میں کوئی ابہام رہ جاتا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خاص مجلسوں میں آپ ﷺ سے دریافت کرلیتی تھیں۔ اس طرح ہر بات میں اپنی تسلی براہ راست رسول اللہ ﷺ سیکرتیں اور اس طرح زن وشو کے خاص مسائل سے بھی آپ کی بڑی گہری واقفیت تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں بھی آپ ایک بہترین معلمہ ثابت ہوئیں اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد تو ان کا مشغلہ ہی یہ رہ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث میں مرویات صدیقہ کی تعداد دوہزار دو سو دس تک شمار کی گئی ہے اور آپ کے فتاویٰ شرعیہ اور حل مشکلات علمیہ اور بیان روایات عربیہ اور علم الانساب اور واقعات تاریخیہ کا شمار ان کے علاوہ ہے۔ آپ کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ فی البدیہہ جواب دیتیں لیکن اتنا صاف اور اتنا پر حکمت اور برمحل کہ بڑے بڑے لوگ ششدر رہ جاتے۔ ایک بار ایک شخص نے سوال کیا کہ میں اپنے آپ کو نیک کب سمجھوں ؟ فرمایا جب تجھے اپنے برے ہونے کا گمان ہوجائے۔ اس نے کہا کہ اپنے آپ کو برا کب سمجھوں ؟ فرمایا جب تو اپنے آپ کو نیک سمجھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے وقت ان کی عمر 28 سال کی تھی ۔ اس طرح 9 سے 13 سال کی صحبت قدسیہ میں جو علوم عالیہ سیکھے تھے قریباً نصف صدق تک فرزندان روحانی مردوزن کو ان کی تعلیم دیتی رہیں۔ مردوں کو بلکہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کو جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تو وہ ان ہی کی طرف رخ کرتے اور پردے میں رہ کر اور آپ کے بھانجوں اور بھتیجوں کے توسط سے مسائل دریافت کرتے تھے اور اپنے سوالوں کا صحیح جواب پاکر مطمئن ہوتے تھے۔ عائشہ صدیقہ ؓ نے 73 سال کی عمر میں 17؍رمضان المبارک 57 ھ کو مدینہ منورہ میں اجل طبعی سے وفات پائی۔ ابوہریرہ ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کی گئیں اور بھائی کے بیٹوں نے قبر میں اتارا۔ 4 ۔ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ کا مختصر حال سیدہ حفصہ ؓ عمر فاروق ؓ کی بیٹی تھیں۔ ان کا پہلا نکاح خنیس بن حذامہ بن قیس بن عدی سے ہوا تھا۔ خنیس ؓ سابقین میں میں سے تھے ، انہوں نے ہجرت حبشہ اور پھر ہجرت مدینہ کی تھی۔ بدر واحد میں شریک تھے اور احد کی جنگ میں زخمی ہو کر مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ خنیس ؓ کی شہادت کے بعد جب ان کی عدت کے دن گزر گئے تو عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے حفصہ کا ذکر کیا لیکن انہوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر حضرت عمر فاروق نے ان کا ذکر عثمان ؓ سے کیا کیونکہ ان کی بیوی سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ بھی ان ہی دونوں وفات پاگئی تھیں۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی کہہ دیا کہ ابھی تو میں شادی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے بعد یہ دونوں واقعات حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ” حفصہ کی شادی اس شخص سے ہوجائے گی جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کی شادی اس عورت سے ہوجائے گی جو حفصہ سے بہتر ہے “۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حفصہ سے خود نکاح کرلیا اور حضرت عثمان ؓ کو اپنی بیٹی ام کلثوم سے بیادہ دیا۔ اس واقعہ کے بعد ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ سے مل کر فرمایا کہ میں نے اس وقت آپ کو کچھ جواب نہ دیا تھا اس بات کا میری طرف سے کوئی رنج نہ رکھنا اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ حفصہ کا ذکر مجھ سے فرما چکے تھے اور میں اس وقت نبی کریم ﷺ کا یہ راز ظاہرنہ کرسکتا تھا اور اس معمولی سے واقعہ میں ہماری زندگی کے لئے کتنے اسباق پوشیدہ ہیں۔ حضرت حفصہ ؓ کی والدہ زینب بن مظعون ہیں جو نہایت قدیم الاسلام تھیں لیکن انہوں نے قبل از ہجرت مکہ ہی میں وفات پائی۔ عبداللہ بن عمر ؓ ان کے حقیقی بھائی تھے اور عثمان بن مظعون ان کے حقیقی ماموں تھے اور یہ سب لوگ ذوالحجرتین ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی دیندار خاتون تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے 3 ہجری میں ان سے شادی کی اور سات سال تک رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت میں رہیں۔ ان کا انتقال 41 ہجری جمادی الاولیٰ میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً پچاس سال کے قریب تھی۔ لیکن حافظ ابن کثیر (رح) نے 45 ہجری میں وفات بتائی ہے اس طرح ان کی عمر بھی 54 سال ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ 5 ۔ ام المومنین زینب بنت خزیمہ ؓ کا مختصر حال جاہلیت میں ان کا لقب ام المساکین تھا۔ ان کا پہلا نکاح طفیل سے اور دوسرا نکاح عبیدہ سے ہوا۔ یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے عم زاد بھائی تھے یعنی ہارث بن عبدالمطلب کے فرزند تھے۔ ان کا تیسرا نکاح عبداللہ بن جحش سے ہوا تھا جو نبی کریم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ام المومنین زینب بنت جحش کے بھائی ہیں۔ یہ بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے اس لئے ان کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا۔ سیرت اور سیر لکھنے والے سارے حضرات کا اتفاق ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں دو یا تین ماہ تک ہی رہی تھی کہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں اور بقیع میں مدفون ہیں۔ 6 ۔ ام المومنین ام سلمہ ؓ کا مختصر حال ام سلمہ ؓ کا اصل نام ہند ہے جو ابی امیہ بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم کی بیٹی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے نکاح کرنے سے پہلے ام سلمہ ؓ حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن الاسد بن ہلال بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم کے نکاح میں تھیں۔ ام سلمہ نہایت قدیم الاسلام تھیں اور ابو سلمہ بھی تقریباً گیارہویں شخص اسلام لانے والوں میں ہوتے تھے۔ ابو سلمہ کی والدہ برہ بنت عبدالمطلب نبی کریم ﷺ کی حقیقی پھوپھی تھیں اور اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ اور حضرت حمزہ ؓ اور ابو سلمہ ؓ تینوں برادران رضاعی بھی تھے۔ ام سلمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ اول ہجرت حبشہ کی تھی اور پھر مکہ میں واپس آگئے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد دوبارہ ابو سلمہ نے ہجرت کے ارادہ سے ام سلمہ اور اپنے بیٹے سلمہ کو ساتھ لے کر ہجرت کرنا چاہی تو ابو سلمہ کے خاندان والوں نے ابو سلمہ کے بیٹے سلمہ کو روک لیا اور ام سلمہ کے خاندان والوں نے اسم سلمہ کو روک لیا اس طرح ابو سلمہ اکیلے رہ گئے تاہم انہوں نے ہجرت کی اس طرح ان کے بیٹے سلمہ اور بیوی ام سلمہ دونوں ہی مکہ میں رہ گئے۔ ابو سلمہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے لیکن ام سلمہ ؓ نے ایک سال تک برابر اپنے خاوند کا غم جاری رکھا اور ایک سات تک برابر روتی رہیں حتیٰ کے سنگدل عزیزوں نے ام سلمہ ؓ اور ان کے بیٹے سلمہ کو سفر کی اجازت دے دی۔ یہ اللہ کی بندی اکیلی اپنے چھوٹے سے بیٹے کے ہمراہ چل پڑیں۔ عثمان بن طلحہ جو کلید بردار بیت اللہ تھے اگرچہ وہ مسلمان تو نہ ہوئے تھے لیکن ان کو ام سلمہ کی بےکسی و تنہائی پر رحم آگیا۔ اس لئے وہ ساتھ ہو لئے ، اپنے اونٹ پر ان کو سوار کیا اور خود پیدل چلتے ہوئے منزل بہ منزل مدینہ پہنچ گئے لیکن جب مدینہ کا نخلستان نظر آنے لگا تو ان سے کہا کہ دیکھو یہ نخلستان جو سامنے نظر آرہا ہے یہ مدینہ النبی ہے تم چلی جائو اور اس طرح عثمان واپس مکہ چلے آئے۔ ابو سلمہ جنگ احد میں ایسے زخمی ہوئے کہ دوبارہ صحت مند نہ ہوسکے اور جمادی الاخر 3 ہجری میں انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی اور بوقت شہادت ان کی زبان پر تھا کہ اللھم اخلصنی قی اھلی بخیر الٰہی ! میرے کنبہ کی نگہداشت فرما دے۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ابوسلمہ چھوڑ گئے ان کا آخری کون غم خوار ہوتا ظاہر ہے کہ نبی ﷺ کے قریبی رشتہ دار بھی تھے آپ ﷺ نے ان سب امور کے پیش نظر ام سلمہ سے خود نکاح کرلیا اور اس طرح گویا آپ ہی کے خاندان کے بچے بھی آپ ﷺ ہی کے ربیب ہوگئے۔ اس وقت ام سلمہ ؓ کے چا ربچے تھے جن میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ لڑکے عمرو ، سلمہ ، اور لڑکیاں زینب وورہ تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان یتیموں کو بھی اپنی گود میں لے لیا اور خوب اچھی طرح ان کی تعلیم وتربیت کی اور ان کی شادیوں کا بندوبست بھی آپ ﷺ نے خودہی فرمایا۔ ام المومنین ام سلمہ ؓ کے ان بچوں اور بچیوں کو اللہ نے بڑی برکت دی اور ایک سے بڑھ کر ایک اللہ کے دین کا محافظ ہوا اور دنیا میں بہت ترقی پائی۔ ام المومنین ام سلمہ ؓ 4 ھ میں رسول اللہ ﷺ کی زوجہ ہوئیں اس وقت ان کی عمر تقریباً 24 سال تھی اور تقریباً سات سال رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت میں رہیں لیکن آپ ﷺ سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ ان کا انتقال 59 ھ میں تقریباً 80 سال کی عمر میں ہوا۔ 7 ۔ ام المومنین زینب بنت جحش ؓ کا مختصر حال زینب بن جحش بن ایاب بن یعمر کی والدہ ماجدہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب ہے۔ اس طرح امیمہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی اور زینب پھوپھی کی بیٹی تھیں۔ ان کا پہلا نکاح زید بن حارثہ کے ساتھ ہوا۔ یہ زید وہی زید ہیں جو زید بن محمد کے نام سے یاد کئے جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہی اس نکاح کی تحریک کی لیکن زینب اور اس کے گھر والوں نے اس کو پسند نہ کیا تا آنکہ قرآن کریم میں حکم آگیا کہ ” کسی مومن مرد یا کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ فرمادیں اس کے بعد بھی وہ اپنی مرضی کریں “۔ (الاحزاب :33) اس حکم کے آجانے کے بعد زینب اور اس کے بھائیوں نے اپنے موقف میں تبدیلی کی اور زید سے نکاح کرنے اور کرانے پر رضامندی کا اظہار کردیا۔ نکاح ہوگیا اور اس طرح یہ رسم اپنی بیخ وبن سمیت اکھڑ گئی کہ کوئی غلام ہوتا ہے اور کوئی آزاد اور پھر ان میں اس طرح کوئی شریف ٹھہرتا ہے اور کوئی رذیل۔ ہرگز نہیں رذیل وہی ہے جس کے اعمال اچھے نہیں اور شریف وہی ہے جس کے اعمال اچھے ہیں اور اللہ نے اس کو برائی سے بچایا ہے۔ رذیل وہی ہے جس کے اعمال برے ہیں اور وہ برائیوں میں لت پت ہے جب تک کہ وہ ان برائیوں سے توبہ نہ کرے۔ رسم تو بلا شبہ ٹوٹ گئی لیکن اتفاق دیکھئے کہ زینب اور زید دونوں کا نباہ نہ ہوسکا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ مشیت ایزدی نے اس زینب کے ذریعہ سے ایک اور اس سے بڑی اور بری رسم کو ختم کرانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا اور الٰہی فیصلوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ مشیت الٰہی کے فیصلوں کے سامنے ہر انسان بےبس ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ رسول اللہ ﷺ زید کو روکتے رہے کہ امسک علیک زوجک کہ اپنی بیوی کو روک اور طلاق مت دے لیکن فیصلہ الٰہی میں آپ ﷺ بھی میخ نہ لگوا سکے اس لئے کہ زوکین میں باوجود خواہش نفس کے ازالہ کے جو رافت ورحمت اور محبت و شفقت ہونا چاہیے تھی وہ پیدا نہ ہوسکی اور انجام کار رسول اللہ ﷺ کو اجازت دینا ہی پڑی اس لئے کہ سکون قلبی فریقین کو نصیب نہ ہوا اس طرح قلم تقدیر کا لکھا اپنے وقت پر ظاہر ہوگیا اور زید نے زینب کو طلاق تفویض کردی۔ قانون خداوندی میں جس انسان سے اللہ نے جو کام لینا ہوتا ہے وہ لے کر ہی رہتا ہے اور کوئی شخص بھی اس کو سمجھ نہیں سکتا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ رسول اللہ ﷺ کو اس واقعہ سے بہت رنج ہوا اور ایسا ہونا طبعی امر بھی تھا۔ ایسے ہی واقعات انسان کی زندگی کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر یہ بھی حق ہے جتنا انسان بڑا ہوتا ہے اتنی ہی اس کی آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے۔ چونکہ رسول سے بڑا کوئی انسان نہیں ہوتا اس لئے ان کی آزمائش بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے لیکن رسول کا کمال یہ ہوتا تھا کہ وہ ہر آزمائش سے پاس ہوتے تھے ۔ رسول کے سامنے ہمیشہ آزمائشیں فیل ہوئیں ، آزمائشوں کے سامنے رسول کبھی فیل نہ ہوئے اور یہی حقیقت میں صبر کی انتہا ہے۔ جس طرح اس نکاح کا ہونا انسانیت پر احسان عظیم ہوا اور حضرت زینب بھی خاص تعریف کی مستحق ٹھہریں۔ اب امرالٰہی یہ ہوا کہ حضرت زینب ہی کی شاندار زندگی سے ایک دوسری اصلاح کراکر دنیا والوں کے لئے ایک نمونہ قائم کرادے۔ دوسرے ممالک کی طرح عربوں میں بھی یہ عام رواج تھا کہ جس آدمی کے اولاد نہ ہوتی وہ کسی دوسرے عزیز و اقارب سے لے کر اپنی اولاد قرار دے لیتا جس کو متنبی کہا جاتا اور پھر متنبی اپنی حقیقی اولاد کی طرح ان سارے رشتوں کو بھی حرام کردیتا تھا اور جس نے متنبی بنایا ہوتا اس کی جائیداد کا بھی وہ وارث قرار پاتا اور پھر آہستہ آہستہ یہ رواج اتنا بڑھا کہ بعض اوقات متنبی بنالیتے کے بعد حقیقی اولاد بھی پیدا ہوجاتی تاہم متنبی کے حقوق منسوخ نہ ہوتے اور اس طرح دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے نقصان ہوتا۔ دنیوی لحاظ سے مال و دولت اور وارثت کے غلط تقسیم ہونے کے باعث دینی لحاظ سے یہ کہ وہ یعنی متنبی بنانے والا گویا اللہ سے یہ کہتا کہ تو نے مجھے اولاد نہ دی لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ دیکھو کہ یہ بیٹا تو میں نے حاصل کر ہی لیا۔ تبنیت پر اگر آپ ذرا غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ اس کے کتنے زہریلے اثرات خاندان پر مرتب ہوتے ہیں جب ورثا تو حقیقی طور پر وارث ہوتے ہیں لیکن ان ورثاء کے ساتھ یہ محروم شخص مصنوعی طریقہ سے وارث بنایا جاتا ہے تو حقیقی ورثاء پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے۔ اس کی مثالیں آج بھی پیش آتی رہتی ہیں اور ان کا انجام قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور اس طرح ایسے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں جو خاندانوں کے خاندانوں کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ بہرحال فیصلہ الٰہی یہ تھا کہ اسلام میں اس رسم زبوں کی اصلاح کردی جائے اور اللہ کا رسول جو سارے جہانوں کے لئے رحمت اور عالم دنیا کے لئے مصلح اعظم ہے وہ خود اپنی نورانی شخصیت اور وجود اقدس سے ایک زبردست دلیل اس سارے بطلان پر قائم کردے اور دنیا والوں پر ثابت کردے کہ { ماکان…………… رجالکم } (الاحزاب 40:33) ” محمد رسول اللہ تم مردوں میں سے کسی کا حقیقی باپ نہیں ہے “۔ اور یہ ثابت کردے کہ { وماجعل…………… بافواھکم } (الاحزاب 4:33) ” اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں جو حقیقت پر اثر پذیر نہیں ہوسکتیں “۔ پھر یہ تو اس بری رسم کی نقلی تردید تھی جو کتاب اللہ میں بیان فرمادی گئی اور اس کی عملی تردید کے لئے رسول اعظم وآخری ﷺ کا وجود باجود بھی کام کی تکمیل کے لئے اسوہ حسنہ کے طور پر سامنے لایا گیا تاکہ رہتی دنیا تک اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہوا کہ : { فلما قضی………………………… مفعولا } (الاحزاب 37:33) ” پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے اس مطلقہ خاتون یعنی زینب کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آکر ہی رہتا ہے “۔ زینب ؓ کا نکاح نبی کریم ﷺ سے ذی قعدہ 5؍ہجری میں ہوا۔ نکاح کی رات زفاف جب گزر گئی تو نبی کریم ﷺ نے ایک پر تکلف دعوت ولیمہ کی ایک بکری ذبح کرکے ولیمہ میں پیش کی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایسا ولیمہ آپ ﷺ نے اور کسی بیوی کا نہیں کیا اور ان کے الفاظ اس طرح ہیں ما اولم رسول اللہ ﷺ علیٰ امراۃ من نسبائہاکثروافضل اولم علی زینب ” سیدہ زینب ؓ سے شادی کرکے جو ولیمہ آپ ﷺ نے کیا اس سے بہتر ولیمہ آپ ﷺ نے کسی بیوی کا نہیں کیا “۔ اس ولیمہ کی دعوت میں تقریباً تین سو آدمیوں نے شرکت کی اور پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ زید کے حاجت پوری کرچکنے کا اصل راز کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ زید نے زینب کو طلاق دے دی اور پھر طلاق کی مدت بھی پوری ہوگئی۔ ” حاجت پوری کرچکا “ کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہزید کو اس سے کوئی حاجت نہ رہی اور یہ صورت محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی کیونکہ عدت کے دوران میں شوہر کو اگر کچھ بھی دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کرسکتا ہے اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے اور اگر شوہر چاہے تو عدت کے اندر اس کو روک بھی لے۔ اس لئے مطلقہ بیوی کے ساتھ اسکے سابق شوہر کی حاجت صرف اسی وقت ختم ہوتی ہے جب عدت گزر جائے۔ اور { زوجنکھا } کے الفاظ اس بات میں بالکل صاف اور صریح ہیں کہ یہ نکاح کرنا رسول اللہ ﷺ کی خواہش کے مطابق نہیں تھا بلکہ اللہ کے حکم پر تھا اور جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر کوئی کام قرض کردے تو اسے وہ کام کرکے ہی رہنا ہوتا ہے خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت پر تل گئی ہو۔ اس لئے اس نکاح کے لئے جو کہانیاں گھڑی گئیں وہ دشمنان اسلام کی دریدہ دہنیوں کا نتیجہ ہیں جو نادان دوستوں نے اپنی نادانی کے باعث قبول کرکے کتب تفاسیر میں بھر دیں اور اس طرح نقل در نقل ہوتی چلی آئیں۔ تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ قدرت الٰہی کی کرشمہ سازیاں بھی بڑی عجیب ہیں کہ دیکھو عربوں کے رواج میں یہ بات تھی کہ چھوٹی عمر ہی میں یعنی بلوغت ہوتے ہی لڑکیوں کی شادی کردیتے تھے اور یہ ان کے ہاں بہت پختہ اور واضح رواج تھا لیکن اس رواج کے باوجود زینب کی شادی 34 سال سے بھی زائد عرصہ تک نہ ہوئی۔ پھر ہوئی تو اس کا کیا طریقہ ہوا اور کس طرح معرض وجود میں آئی ؟ اچھا شادی ہوگئی لیکن ایک سال سے کچھ ہی زائد عرصہ گزرا تھا کہ طلاق کا واقعہ پیش آگیا اور اس طرح 36 سال کی عمر میں زینب ؓ رسول اللہ ﷺ کے حبالہ عقد میں آئیں۔ یہ 5 ہجری کا واقعہ ہے اور آپ ﷺ کی وفات میں 6 سال تک رہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد 9 سال تک زندہ رہیں۔ 20 ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی اس وقت ان کی عمر تقریباً 51 سال ہوئی تھی۔ ان کی کنیت ام الحکم بتائی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایک طرح کی توصیفی کنیت تھی۔ 8 ۔ ام المومنین جو یریہ ؓ کا مختصر حال جویریہ بنت الحارث بنت ابی ضرار بن حبیب بن عائذبن مالک بن خزیمہ وھوا لمصطلق بن خزاعہ 5 ہجری میں غزوہ مریسیع میں اسیر ہو کر آئیں۔ ثابت بن قیس بن شماس القاری نے ان کو اسیر کیا اور پھر مکاتب کردیا تھا۔ یہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں زر کتابت کی اپیل کے لئے آئیں۔ انہوں نے پہلے تو اپنا تعارف اس طرح کروایا کہ میں مسلمان ہوں اور بعد میں یہ بھی بتا دیا کہ وہ حارث بن ابی ضرار سید القوم کی بیٹی ہیں۔ اس کی یہ بات سن کر نبی کریم ﷺ نے کہا کیا یہ ٹھیک نہیں ہے کہ تیرے لئے اس سے بھی بہتر سلوک کیا جائے۔ جو یریہ ؓ نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا زر کتابت بھی ادا کردیا جائے اور تجھ سے شادی بھی کرلی جائے۔ جو یریہ ؓ نے خوشی سے تسلیم کرلیا۔ لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے بنو المصطلق کے سب قیدیوں کو رہا کردیا اور یہ لوگ تقریباً سو سے بھی زیادہ تھے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اب رسول اکرم ﷺ کے سسرال ہوگئے۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئے عائشہ ؓ نے فرمایا تھا کہ فما راینا امراۃ کانت اعظم برکۃ علی قومھا منھا (ابودائود ، عن عائشہ) ” میں کسی ایسی عورت کو نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لئے جو یریہ سے زیادہ بڑھ کر برکت والی ہو “۔ اور اس طرح اب جو یریہ ؓ ام المومنین کا خطاب پاگئیں اور رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہنے لگیں۔ ایک روز رسول اعظم وآخر ﷺ ان کے گھر سے صبح کی نماز کے لئے تشریف لے گئے اس وقت یہ جائے نماز پر تھیں۔ بوقت چاشت جب نبی کریم ﷺ واپس تشریف لائے تو یہ مصلے پر ہی بیٹھی تھیں۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تم اس وقت سے یہاں بیٹھی ہو ؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا فرمایا اگر تم یہ چار کلمات ادا کرلیتیں تو تمہیں اتنی لمبی عبادت سے بہتر ہوتا کیونکہ وہ بہت وزنی ہیں اور پھر وہ کلمات بھی تعلیم فرمائے۔ وہ کلمات یہ ہیں : سبحان اللہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضی نفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلماتہ (مشکوٰۃ المصابیح) ” اللہ پاک ہے اور میں اس کی تعریف کرتا ہوں جس قدر اس کی مخلوق ہے اور جس سے وہ راضی ہوجائے اور جتنا اس کے عرش کا وزن ہے جس قدر اس کی تعریف کہنے کے لئے ہے۔ بےانتہا کلمات کی روشنائی ہو “۔ جویریہ ؓ کا اصل نام برہ تھا۔ آپ ﷺ نے اس نام کو بدل کر جو یریہ رکھا۔ رسول اللہ ﷺ کے نکاح کرلینے کے بعد انکے والد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میری بیٹی بڑی معزز ہے جسے قیدی بنا کر رکھنا گوارا نہیں ہے لہٰذا آپ ﷺ اسے چھوڑ دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں اختیار دے دوں کہ جی چاہے تو چلی جائے اور مناسب سمجھے تو میرے پاس رہے تو اس بات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ اس نے منظور کرلیا۔ اس کے بعد حارث اپنی بیٹی کے پاس آئے اور پورا واقعہ سنایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھے اختیار دیا ہے کہ چاہے تو چلی جائے اس لئے میرے ساتھ چلی چلو ! حضرت جو یریہ ؓ نے جواباً فرمایا کہ اخترت اللہ ورسولہ میں نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرلیا ہے اس لئے تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی۔ (الاصابہ) اس کے بعد ان کے والد اور بھائی بلکہ قبیلہ والے بھی مسلمان ہوگئے۔ جو یریہ ؓ کی وفات ربیع الاول 56 ھ میں ہوئی اور بعض روایات میں 50 ھ کا ذکر آیا ہے اس وقت ان کی عمر 71 سال کی تھی۔ ان کی نماز جنازہ مروان بن الحکم نے پڑھائی تھی۔ 9 ۔ ام المومنین سیدہ ریحانہ ؓ کا مختصر حال بنو قریظہ نے احزاب میں اعلانیہ شرکت کی حالانکہ ان کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ معاہدہ تھا کہ وہ ان کی مدد کریں گے اور مکہ والوں کے ساتھ نہیں دیں گے۔ جب احزاب کے لشکر چھٹ گئے تو ضروری ہوگیا کہ ان کا بھی آخری فیصلہ کیا جائے چناچہ نبی کریم ﷺ نے احزاب سے فارغ ہو کر یہ حکم دیا کہ ابھی لوگ ہتھیار نہ کھولیں اور قریظہ کی طرف بڑھیں ، قریظہ اگر صلح وآتشی سے پیش آئے تو قابل اطمینان تصفیہ کے بعد لیکن وہ تو مقابلہ کا فیصلہ کرچکے تھے اس لئے قلعہ بند ہوگئے اور مقابلہ کی تیاری کرنے لگے۔ ادھر مجاہدین اسلام نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا اور یہ محاصرہ بھی الاحزاب کی طرح تقریباً ایک مہینہ جاری رہا اور بالآخر انہوں نے درخواست پیش کی کہ سعد بن معاذ جو فیصلہ کریں وہ ہم منظور کرتے ہیں حضرت سعد بن معاذ نے تورات کے حکم کے مطابق فیصلہ صادر کردیا اور پھر اس کے مطابق عمل درآمد شروع ہوا ، ان کے جوان قتل کیے گئے ، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو غلام بنا لینے کا حکم دیا اور اس حکم کے مطابق عمل درآمد ہوا۔ ان قیدیوں میں ایک یہودی عورت جس کا نام ریحانہ تھا اس کی نسبت آپ ﷺ نے حکم دیا کہ یہ الگ کردی جائے اور پھر آپ ﷺ نے چند روز کے بعد اس کو آزاد کرکے اپنے حرم میں داخل کرلیا لیکن بعض مورخین نے ان کو نبی کریم ﷺ کی لونڈیوں میں شمار کیا ہے اور انہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ ان سے متمع ہوتے تھے ان مورخین نے دوسری لونڈی ماریہ قبطیہ بھی بتائی ہے حالانکہ یہ روایت سخت مخدوش اور سنداً ، روایتاً اور درایتاً ہر لحاظ سے غلط ہیں بلکہ من گھڑت ہیں تاہم ایک بار جب تحریر ہوگئی تو مخالفین نے اس کو ہوا دے کر کیا سے کیا کچھ بنا دیا خصوصاً عیسائی مورخین نے اس واقعہ کو صحیح قرار دے کر اس کو نہایت ہی ناگوار صورت میں دکھایا ہے اور یہی وہ چیز ہیں جنہوں نے کبھی ” رنگیلا رسول “ کبھی ” ہفوات المسلمین “ اور کبھی رشدی جیسے مصنفین بےلگام کی مدد کی۔ بحث کا یہ موقع نہیں یہ موضوع تاریخ کا ہے اس وقت اس طرف اشارہ کردینا ہی کافی ہے۔ بہرحال ریحانہ ؓ کے حرم میں داخل ہونے کی جس قدر روایتیں ہیں سب کی سب واقدی یا ابی اسحاق سے ماخوذ ہیں لیکن واقدی نے بتصریح بیان کردیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا اور ابن سعد (رح) نے واقدی (رح) کی جو روایت نقل کی ہے اس میں خود ریحانہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ فاعتقنی وتزوج بی ” پھر نبی کریم ﷺ نے مجھ کو آزاد کردیا اور مجھ سے نکاح کرلیا “۔ اس طرح حافظ ابن حجر (رح) نے اصابہ میں محمد بن الحسن کی تاریخ مدینہ سے جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں وکانت ریحانۃ القرظیۃ زوج النبی ﷺ تسکنہ “ اور ریحانہ قریظہ جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں اس مکان میں رہتی تھیں۔ “ … حافظ ابن مندہ کی کتاب طبقات ال صحابہ جو تمام محدثین ما بعد کا ماخوذ ہے اس میں یہ الفاظ ہیں واستسری ریحانۃ من بنی قریظۃ ثم احتقھا فلحقت باھلھا واحتجبت وھی عنداھلھا ” ریحانہ کو گرفتار کیا گیا اور پھر آزاد کردیا گیا تو وہ اپنے خاندان میں چلی گئیں اور وہیں پردہ نشین ہو کر رہیں “۔ حافظ ابن حجر (رح) اس عبارت کو نقل کرکے لکھتے ہیں وھذہ فائدۃ جلیلۃ اغفلھا ابن الاثیر… حافظ ابن مندہ کی عبارت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو آزاد کردیا تھا بلکہ ان کے خاندان کو بھی لہٰذا وہ اپنے خاندان میں جاکر بیویوں کی طرح پردہ نشین ہو کر رہیں۔ اگر یہی مان لیا جائے کہ وہ حرم نبوی ﷺ میں آئیں تو بھی یہ بات قطعاً واضح ہے کہ وہ منکوحات میں تھیں اور ان کا مقام امہات المومنین میں ہیاگرچہ قرآن کریم کی ان آیات کے نزول کے وقت وہ امہات میں داخل نہ تھیں لیکن یہ تو اوپر واضح ہوچکا ہے کہ ان آیات کریمات کے نزول کے وقت 4 یا زیادہ سے زیادہ 6 بیویاں تھیں باقی چھ یا سات تو ان آیات کے بعد نکاح میں آئیں تاہم وہ بھی اس حکم کے تحت امہات المومنین ہی میں شمار ہوتی ہیں چونکہ بنی قریظہ کا واقعہ ذی الحجہ 5 ھ میں شروع ہوا اور محرم 6 ھ میں ختم ہوا اس لئے ظاہر ہے کہ ریحانہ ؓ سے آپ ﷺ کا نکاح 6 ھ میں ہوا جو زینب ؓ کے معا بعد ہے یا کچھ قبل بہرحال ہم نے اس کو زینب ؓ کے بعد تحریر کیا ہے۔ صاحب علم حضرات کو اس میں کوئی ابہام یا غلط چیز نظر آئے تو وہ اپنی تحقیق سے ہم کو آگاہ کردیں اور ہم ان کی تحقیق کو مزید تحقیق کی سان پر چڑھائیں گے۔ انشاء اللہ اس جگہ اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کو صحیح سمجھتے ہیں اور تحدی سے کہتے ہیں کہ کنیز بنا کر ازواجی تعلقات نہ جائز ہیں نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی اس کا حکم دیا ہے اور نہ ہی آپ ﷺ کا کوئی عمل ایسا موجود ہے یہ بعض لوگوں نے محض اپنے نظریہ کو تقویت دینے کے لئے بات بنائی ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے اور کنیز یا لونڈی کے متعلق ہم مفصل بحث عروہ الوثقی جلد دوم میں سورة النساء کی آیت 25 کے تحت بڑی وضاحت سے پیش کر آئے ہیں وہاں سے ملاحصہ کرلیں۔ 10 ۔ ام المومنین ام حبیبہ ؓ کا مختصر حال ام حبیبہ ؓ کا اصل نام رملہ بنت ابو سفیان بن امیہ بن عبدالشمس تھا ۔ ان کی والدہ صفیہ بنت ابوالعاص بن امیہ تھیں۔ یہ نہایت قدیم الاسلام ہیں۔ ان کا پہلا شوہر عبیداللہ بن جحش تھا جو حبش کو ہجرت کر گیا تھا ۔ چونکہ وہ دائم الخمر تھا اس لئے عیسائیوں کی محبت میں بیٹھ کر عیسائی ہوگیا مگر اس کے باوجود ام حبیبہ اسلام پر قائم رہیں۔ اسلام کی خاطر انہوں نے باپ ، بھائی ، خویش وقبیلہ اور وطن سب کچھ چھوڑا تھا اور پردیس میں خاوند کا سہارا تھا اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے وہ بھی جاتارہا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب ان کا یہ حال معلوم ہوا تو عمرو بن امیہ الغہریکو ملک حبشہ کے پاس بھیجا اور اسے تحریر فرمایا کہ ام حبیبہ کو نبی کریم ﷺ کا پیغام شادی پہنچا دے۔ بادشاہ نے اپنی ایک لونڈی کو اپنی طرف سے بہت کچھ ہدایا دے کر ام حبیبہ ؓ کے پاس بھیجا۔ ام حبیبیہ ؓ اس سے پیشتر ایک خواب میں دیکھ چکی تھی کہ کوئی شخص ان کو ام المومنین کہہ کر پکاررہا ہے۔ اب لونڈی سے یہ پیغام سن کر فوراً اللہ کا شکر ادا کیا اور اس شکرانہ میں اپنا تمام زیور اس خبر دینے والی لونڈی کے حوالے کردیا اور پیغام کو بخوشی قبول کرلیا۔ نجاشی نے مجلس نکاح خود منعقد کی جس میں حضرت جعفر بن طیار اور دوسرے جملہ مسلمان مدعو تھے۔ نجاشی نے خطبہ کا نکاح پڑھا پھر خالد بن ولید جو ام حبیب کے وکیل ٹھہرے تھے خطبہ پڑھا اور اس کے بعد نجاشی کی جانب سے جملہ حاضرین کو کھانا کھلایا گیا اور نجاشی نے یہ بھی بیان کیا کہ انبیاء کرام کی سنت یہ ہے کہ وہ تزویج کے بعد کھانا کھلاتے تھے۔ (الا ستیعاب) اور اس خطبہ کے بعد اس طرح الفاظ بھی ادا کئے گئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی فرمائش قبول کی اور ام حبیبہ بنت ابوسفیان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا۔ فتبارک اللہ لرسول اللہ ﷺ اس کے بعد خالد نے مہر والے دینار لئے اور حضرت ام حبیبہ ؓ کو پہنچا دیئے اور ام حبیبہ ؓ نے ان میں سے پچاس دینا اس باندی کو مزید پہنچا دیئے جس نے خوشخبری پہنچائی تھی لیکن اس باندی نے وہ دینار پھر واپس کردیئے اور ساتھ ہی کہلادیا کہ بادشاہ سلامت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (البدایہ والاصابہ) اس نکاح کی خبر جب ابوسفیان کو مکہ میں پہنچی جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تو اپنی ہار مان گئے اور بول اٹھے کہ محمد رسول اللہ جواں مرد ہیں ان کی ناک اب نہیں کاٹی جاسکتی۔ یعنی وہ بلند مرتبہ ہیں ہم ان کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔ نکاح کے بعد دوسرے ہی روز نجاشی نے ام حبیبہ ؓ کے لئے جہیز کا بہت سامان بھیجا اور حضرت شرجیل کے ہمراہ ان کو مدینہ منورہ پہنچا دیا اور وہاں پہنچ کر وہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے دین اسلام کی خدمت میں لگ گئیں اس طرح ان کا مبارک خواب جس میں کسی نے ام المومنین کے نام سے پکارا تھا فی الحقیقت سچا ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں 6 ہجری میں آئی تھیں اور اس طرح پانچ سال آپ ﷺ کی رفاقت میں رہیں یہ رسول اللہ ﷺ کا بیحد احترام کرتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ام المومنین ام حبیبہ ؓ نے 44 ہجری میں مدینے میں وفات پائی۔ ان کی وفات کے وقت حضرت عائشہ ؓ اور ام سلمہ ؓ دونوں موجود تھیں اور ان دونوں سے درخواست کی کہ سوت عورتوں کے درمیان کبھی کوئی نوک جھونک ہوجایا کرتی ہے جو کچھ میں نے کہا سنا ہے مجھے معاف کردو دونوں نے اس طرح کہنے کی بہت خوشی منائی اور بخوشی اس کو منظور فرمایا۔ ام المومنین ام حبیبہ ؓ پاکیزہ ذات ، حمیدہ صفات ، جواد اور عالی ہمت تھیں۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر)
Top