Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
(اے پیغمبر اسلام ! ) ہم نے آپ ﷺ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور نصیحت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے
اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپ ﷺ کو شاہد ، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ 45 ۔ قرآن کریم میں نبی اعظم وآخر ﷺ کو شاہد بھی فرمایا گیا ہے اور شہید بھی جیسا کہ زیر نظر آیت میں { شاھدا } کا لفظ آیا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا { انا ارسلنک…… ونذیر } (الفتح 8:48) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا { ویکون……… شھیدا } (البقرہ 143:2) اور ایک جگہ فرمایا { وجئنا…… … شھید } (النساء 41:4) اور ایک جگہ فرمایا { وفی ………… علیکم } (الحج 78:22) شہادت کیا ہے ؟ امر واقع کو بیان کرنا اور دوسرے شخص کو اپنے بیان کے ذریعے سے اس امر کا باور کرانا ہے بلا شبہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی شہادت جسے آپ ﷺ نے ادا کیا اور جسے ادا فرما کر لوگوں کو یقین کے درجہ تک پہنچایا امور ذیل کے متعلق تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اور تنزیہہ صفات ، سلسلہ وحی ، وجود نبوت و رسالت ، رسالت ونبوت کا اجر اور اس کا خاتمہ ، اعمال کا جزوسزا سے تعلق ، جزا و سزا کی حقیقت ، وجود عالم معاد ، عالم ارواح ، علوم ما بعد الطبیعہ وغیرہ جیسے امور کی وضاحت اور کمال علم اور روشن دلائل اور براہین قاطعہ سے آپ ﷺ نے بیان فرمایا اور جس انداز بیان سے فرمایا وہ بلا شبہ آپ ﷺ ہی کا خاصہ تھا اور پھر اپنے گفتار وکردار سے اسی صداقت کے تیقن کو بعض ملحدوں اور منکروں کے قلوب میں جس طرح مستحکم فرمایا یہ آپ ﷺ ہی کا حصہ خاص تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدرت خداوندی اور حکمت الٰہی نے آپ ﷺ کو دنیا کے سامنے بطور اپنے ہی گواہی کے پیش کیا۔ یہ ایک قانونی حقیقت ہے کہ گواہوں کی قلت یا کثرت کسی معاملہ کے ثبوت ونفی پر ذرا بھی موثر نہیں ہوتی بلکہ حقیقت میں شہادت کو قوت دینے اور صداقت کے درجہ تک پہنچانے والی جو چیز ہے وہ صرف اور صرف شاہد کی ثقاہت اعتبار اور راست بازی ہے۔ کاش کہ لوگ اس کی حقیقت کو سمجھتے اور قانون شہادت میں اس کی سب سے اوپر جگہ دیتے لیکن ایسا بھی ہی کم ہوا اور بہت ہی کم ہورہا ہے۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی راست بازی اور اعتبار کی یہ حالت تھی کہ جب کفار نے ابوبکر صدیق ؓ سے دریافت کیا کہ تم نے کیونکر محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا رسول تسلیم کرلیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ لوگو ! یہ ہونٹ جھوٹ بولنے والے کے نہیں۔ ہر قل نے ابوسفیان کے جواب میں کہا تھا کہ جس شخص نے کبھی کسی مخلوق پر جھوٹ نہیں بولا ناممکن ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر جھوٹ باندھنے لگے اور ابوجہل جیسے الدالخصام نے کہا تھا کہ محمد ﷺ میں تجھے جھوٹا نہیں سمجھتا مگر تیری تعلیم پر میرا دل نہیں جمتا۔ غور کرو کہ مخالفین نے کیا کہا صداقت اور اعتبار ہو تو ایسا ہو کہ خواہ کوئی شہادت کو قبول کرتا ہے یا نہیں لیکن شہادت دہندہ کی ثقاہت کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نہیں نکالتا یا بقول ابو سفیان نہیں نکل سکتا بلکہ ہر شخص دل میں سمجھ گیا ہے کہ اس کے خلاف لب کشائی کرنا اپنی ہنسی کرانا اور خود کو ذلیل کرنا ہے۔ آپ ﷺ نے اس شہادت کو دشت وکوہ میں آشکارا کیا ، بیاباں اور شہروں کے سمع وقلب تک پہنچایا { اشھدان لا الہ الا اللہ } کے نعرہ سے فضاء ارض وسماء کو بھر دیا اور سننے والوں کے دل و دماغ کو شک و انکار اور تذبذب و گمان کے ہوائے فاسد سے بالکل خالی کردیا ” اللہ اکبر “ یہ شاہد کس زبردست شہادت سے اٹھا ہے جس کے منہ سے نکلتے ہی وہی کلمہ شہادت ہر ایک کی زبان پر رواں دواں ہے اور پھر کیا عجمی اور کیا عربی ، کیا شرفی کیا غربی ہر ایک اسی شہادت کا کلمہ خواں ہے۔ شاہد خاموش نہیں ہوجاتا جب تک ہزار دوہزار اور شمار در شمار بندوں کو { وتکونواشھداء علی الناس } کے فرض پر آمادہ نہیں کرلیتا اور عبیدوملوک اور امور احمر کو { کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط } کے وجوب امری کا پابند نہیں ٹھہرادیتا۔ غور کرو کہ ایک دو نہیں اس شاہد کی صداقت پر لاکھوں شاہد عینی موجود ہوگئے ہیں۔ ملکوں ، قوموں ، جزیروں اور وادیوں نے اس کی شہادت سے ایقان حاصل کرلیا ہے تب شاہد جاکر اس دارفانی سے عزم رحلت فرماتا ہے او چلتے وقت بھی ان سب کو یہ سنا دیتا ہے کہ انتم تسالون عنی فما انتم قائلون قالوابلغت وادیت ونصحت فقال باصبعہ یرفعھا الی السماء وینک تھا الی الناس اللھم اشھد اللھم اشھد الھم اشھد ” وہ پوچھتا ہے لوگو ! وہ قاضی جہاں رب زمین وزماں جب دریافت فرمائے گا کہ میں نے اپنی شہادت کو کیونکر ادا کیا تو آپ کیا بتائیں گے سب کے سب متفق اللفظ بول اٹھتے ہیں جناب عالی ! آپ ﷺ نے جتنا کچھ فرمانا تھا اس سے خوب ہی فرمایا۔ آپ ﷺ نے تبلیغ وتفیہم کا حق ادا کردیا۔ آپ ﷺ نے تو اپنی شہادت سے معاملہ کا کھوٹا کھرا پن الگ الگ کرکے دکھادیا۔ شاہد آسمان کی جانب اپنی انگشت شہادت اٹھاتا ہے اور پھر لوگوں کی طرف جھکاتا ہے اور اپنے بھیجنے والے سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے الٰہی میری شہادت کی شہادت کو سن لے۔ میری گواہی کا تو خود گواہ رہنا اور ان لوگوں کے بیان کو محفوظ فرما لینا۔ سبحان اللہ ! ایسے شاہد پر دل وجان قربان ہوتے ہیں جو داوری گاہ عالم میں شہادت کے لئے اکیلا آیا اور لاکھوں کو گواہ بنا گیا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو شاہد اور شہید فرما کر آپ ﷺ کی اس بہترین خوبی سے دنیا والوں کو آگاہ کردیا لیکن ہماری اکثریت نے اس کی اس صفت کو بھی بہت سے غلط معنی پہنا کر اس سے الٹا سیدھا مضمون تیار کرکے اس کو کچھ سے کچھ کردیا اور ایسی بحثیں شروع کردیں جن کا ان معنوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور اب جب ہماری باری آئی تو ہم ششدروحیران ہیں کہ ؎ جس کام کو جہاں میں آیا تھا تو نظیر خانہ خراب ! تجھ سے وہی کام رہ گیا اور ایسے ہی حالات کے لئے میاں محمد نے کہا تھا کہ ؎ ایتھے آیا سیں لعل خرید نے نوں ڈھیر ہنگ اجوائن دے لا بیٹھوں نبی اعظم وآخر ﷺ کی دوسری صفت قرآن کریم میں اس طرح بیان کی گئی فرمایا { مبشرا ونذیرا } کہ آپ ﷺ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں ۔ پورے قرآن کریم کو پڑھ جائیے بلا شبہ دوسرے انبیاء (علیہ السلام) میں سے کسی کی صفت میں یہ دونوں لفظ بیان نہیں کئے گئے آپ ﷺ کو بشیر ونذیر بھی کہا گیا ہے اور مبشر ومنذر بھی اور بلا شبہ یہ جامعیت بھی نبی کریم ﷺ ہی سے خاص ہے اور آپ ﷺ میں بدرجہ اتم پائی گئی ہے اس لئے یہ اوصاف بھی آپ ﷺ کے علو مرتبت نبوت کے اظہار میں خاص ہیں۔ اب بشارت کے متعلق غور کیجئے کہ کہیں تو مومنوں کو اس امر کی بشارت دی گئی کہ { ان لھم من اللہ فضلا کبیرا } (47:33) ” مومنوں کو بشارت سنادیجئے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے “ اور کسی جگہ ارشاد فرمایا گیا { لھم البشری فی ………… … العظیم } (یونس 64:10) ” ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی بشارت ہے اللہ کی کہی ہوئی بات میں تبدیلی نہیں ہے اور یہ بشارت ہی بہت بڑی کامیابی ہے “۔ اور کسی جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ { فبشر………………… احسنہ } (الزمر 18 , 17:39) ” اے پیغمبر اسلام ! ان بندوں کو بشارت سنا دے جو بات کو سنتے ہیں اور پھر سب سے اچھے طریقے پر چلتے ہیں۔ “ یہ سب روحانی اور اخلاقی بشارات ہیں اور بلا شبہ انہی بشارات نے مسلمانوں کو ابھار اور تیار کیا ہے۔ { انذار } کے معنی ڈرانے کے کیے جاتے ہیں لیکن ڈرانا صحیح طور پر { انذار } کے مفہوم کو ادا نہیں کرسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے مفہوم کو الٹ دیتا ہے۔ { انذار } کے معنی تو یہ ہیں کہ آدمی کو اس کے ہونے والے نقصان سے آگاہ کردیا جائے اور ظاہر ہے کہ انبیاء کرام اپنی اپنی امت کو ان کے افعال ناشائستہ کے عواقب بد سے آگاہ کرتے رہے اور برے انجام اور برے نتیجہ کی خبر دیا کرتے تھے اور یہ صفت صحیح معنوں میں دل سوزی اور ہمدردی سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا ترسی اور رحم دلی سے ظہور پکڑتی ہے محبت ومودت نوع انسانی اور حب جنس سے اشاعت پاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے مبارک حالات سے ان جملہ اوصاف کا بدرجہ کمال ہونا بخوشی ثابت ہے اور اسی لئے ایک راہ گم کردہ قوم کو غلط راستہ کی کجی اور اس کے خطرات سے آگاہ کرتے رہنا آپ ﷺ کا گویا کہ خاصہ فطری تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” لوگو ! میری اور تمہاری مثال ایسی ہے کہ تم جلتی آگ کی خندقوں میں منہ کے بل پروانہ وار گر رہے ہو اور میں تم کو کمر سے پکڑ پکڑ کر خندق سے پیچھے ہٹا رہا ہوں “۔ اور یہی آپ ﷺ کا نذیر ہونا ہے ، اب بتائیے کہ اس کو صرف ڈرانے کی بات کیونکر واضح کرسکتی ہے۔
Top