Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 46
وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا
وَّدَاعِيًا : اور بلانے والا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف بِاِذْنِهٖ : اس کے حکم سے وَسِرَاجًا : اور چراغ مُّنِيْرًا : روشن
اور اللہ کے حکم سے اللہ ہی کی طرف بلانے والا اور سورج (کی طرح) روشنی دینے والا بنایا ہے
اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ اللہ کی طرف دعوت دینے والے اور ایک چمکتا ہوا سورج ہیں 46 ۔ زیر نظر آیت میں آپ ﷺ کی دو خصوصیات اور بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ آپ ﷺ دعوت الی اللہ پہنچانے والے ہیں اور دوسری یہ کہ آپ ﷺ طلوع آفتاب ہیں اور بلا شبہ یہ دونوں صفات بھی آپ ﷺ ہی کا خاصہ ہیں آپ ﷺ نے جس سرگرمی سے دعوت الی اللہ کا کام کیا اور پھر جس کامیابی تک اس کو پہنچایا وہ آپ ﷺ ہی کا حصہ تھا ، اشارات اس طرح ہیں : 1… نبی اعظم وآخر ﷺ کے پہاڑ کے وعظ کو دیکھو جس میں آپ ﷺ نے اپنے خاندان والوں کو پکارا اور فرمایا کہ یا ال فھرایا آل غالب۔ اور ظاہر ہے کہ یہ آپ ﷺ کے اپنے خاندان کے سربراہ تھے جن کی اولاد کثیر اور قبائل مختلف تھے۔ 2… نبی کریم ﷺ کے اسی خلوت کدہ کا خیال کرو جہاں مکہ سے دور اور دامان کوہ کے سایہ میں ارقم بن ابو ارقم گھر کے اندر خفیہ خفیہ تعلیم دی جاتی تھی۔ 3… کوہ طائف کا واقعہ یاد کرو جہاں نبی اعظم وآخر ﷺ کا خون جسم سے بہہ رہا تھا اور جوتوں میں جم رہا تھا اور زبان پر دعوت الی اللہ کا وعظ جاری تھا۔ 4… عکاظ کے بڑے سالانہ میلے پر نظر دوڑائو جہاں نبی کریم ﷺ یایھا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا کا نعرہ بلند کر رہے تھے اور آپ ﷺ کا حقیقی چچا سنگ دل ابولہب آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے جارہا تھا اور آپ ﷺ کو دیوانہ بتارہا تھا۔ 5… مکہ سے باہر پہاڑیوں کی گھاٹی عقبہ کا تصور کرو کہ تاریکی چھا گئی ہے ، کوئی مسافر اس پر خطر مقام پر ٹھہرنا نہیں چاہتا مگر راستہ کی صعوبت اور خطرات راہ کے تصور نے یثرب کے قافلہ کو اس جگہ ٹھہر جانے پر مجبور کردیا ہے نبی کریم ﷺ اس تاریکی میں یکہ و تنہا اس لئے گام فرسا ہیں کہ شاید کسی ایک نفس ہی کے مکان میں دعوت الی اللہ کی آواز پہنچا سکیں۔ 6… ذرا کوہ تنعیم کے دامن تک نظر کو وسیع کرو کہ چالاک دشمن نے بنی اعظم وآخر ﷺ کو بےیارومددگار اور آرام کرتے ہوئے دیکھ کر آپ ﷺ کی تلوار پر قبضہ کرلیا اور آپ ﷺ کو گستاخانہ لہجہ اور متکبرانہ انداز میں مخاطب کیا۔ آپ ﷺ کی آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دشمن سرباختہ ایک تیغ آختہ کے ساتھ کھڑا ہے اور پوچھ رہا ہے کہ اے محمد ! ﷺ اب تم کو کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ ایسے وقت میں بھی دعوت الی اللہ کے فرض کو فراموش نہیں کرتے اور بےدھڑک اسے وہی مبارک نام سناتے ہیں جو غافل دل انسانوں کے زنگ آلودہ دلوں سے چاہے تو حجاب اٹھا دیتا ہے اور قلوب مردہ کو حیات تازہ عطا کرتا ہے اور جسے ” اللہ “ کے اسم مبارک سے یاد کرتے ہیں۔ 7… راہ ہجرت کی سیر کرو ، سینکڑوں میل کا سفر درپیش ہے ، خشک پہاڑیوں اور بےآب وگیاہ میدانوں میں سے دو اونٹ گزر رہے ہیں جنہوں نے راہ میں کہیں آرام نہیں کیا۔ آپ ﷺ کے ہم رکاب دو مخلص اور ایک وفادار ہے کینہ توڑ دشمن کے تعاقب کا ہر لحہ خطرہ لگا ہوا ہے اور یہی اندیشہ را ہواروں اور رہردوں کو تیز گامی سے لئے جارہا ہے پھر بھی آپ ﷺ ہیں کہ دعوت الی اللہ کے دامن کو نہیں بھول گئے۔ امر معبد الخزایہ ، سراقہ بن مالک الحد لجی اور بریدہ بن الحصیب اسلمی اور اس کے ساتھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس خشک بیاباں ہی میں آب حیات پیا اور اسلام کا چشمہ زندگی حاصل کرلیا۔ 8… آٹھ روز کی شب روزی اور تگاپو کے بعد اللہ کا رسول ﷺ قبا پہنچ گیا صبر آزما سفر نے بےزبان حیوانوں کو بھی تھکا دیا ہے لیکن نبی کریم ﷺ اس دعوت الی اللہ کے شوق کی تعمیل میں دوسرے ہی روز ایک مسجد کے قیام کا اہتمام فرما رہے ہیں جہاں سے حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی صدا ہر صبح وشام پہاڑیوں سے ٹکراتی غافلوں کو جگاتی شائقوں کو بلاتی اور آج تک اس داعی الی اللہ کی دعوت کی یاد تازہ کررہی ہے۔ 9… اب نبی اعظم وآخر ﷺ قبا سے مدینہ کو جاتے ہیں اہل مدینہ زن ومرد ، پیروجواں ، یہودونصاریٰ صابئی وترسا بھی اہل ایمان کی طرح ہمہ چشم اور ہمہ تن شوق بن رہے ہیں ، راہ میں نماز کا وقت ہوجاتا ہے اور اللہ کا رسول اس جگہ دعوت الی اللہ کے لئے رک جاتا ہے بنی سلیم کے قلوب سلیم کو تقویٰ کے رنگ سے رنگین بناتا رضوان الٰہیہ کی نوید سے شاد کام فرماتا ہے۔ 10… مدینہ میں بنواشبل ، بنو غفار ، اوس و خزرج کا ہر شخص دل ودیدہ کو نبی اعظم وآخرت ﷺ کے فرش راہ بنائے باہی وامی باہی وامی عرض کررہا ہے مگر رسول مکرم اور نبی معظم ﷺ دعوت الی اللہ کے لئے ابن سلول کے پاس جاتے ہیں کو چہ میں صاف زمین پر اس کے قریب جابیٹھتے ہیں وہ ناک چڑھاتا چہرہ پر تیوری ڈال کر رومال کو منہ پر رکھ لیتا ہے اور زبان سے کہتا ہے محمد تم نے گرد سے اور تمہاری سواری نے اپنی بو سے میرے دماغ کو پریشان کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مسکراتے ہیں اور آیات قرآنیہ کی تلاوت کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا اتمام فرماتے ہیں۔ 11… نبی اعظم وآخر ﷺ ربیع بنت معوذ ایک شب کی دلہن کے پاس سے گزرتے ہیں تو اس کو دعوت الی اللہ فرماتے ہیں اور وہاں انصاری کی چھوٹی چھوٹی بچیاں حربیہ اشعار فخریہ لہجہ میں پڑھ رہی ہیں ، آپ ﷺ سنتے ہیں تو ان بچیوں کو صحیح عقائد کی تلقین فرماتے ہیں ہاں ! گائو جو تم گا رہی ہو لیکن اس کو اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہی کہو۔ 12… پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ آپ ﷺ سسکتی ہوئی اور جاں توڑتی ہوئی پیارس نواسی زینب کی بیٹی کو گود میں لیتے ہیں اور اس وقت بھی دعوت الی اللہ میں مصروف نظر آتے ہیں اور اس طرح پھر اکلوتے بیٹے ابراہیم کی لاش پر بیٹھتے ہیں تو اس وقت بھی حاضرین کو رضائے الٰہی کا درس دیتے ہیں اور اپنی خداداد استقامت کا نمونہ دکھاتے ہیں۔ 13… مرض الموت ہے ، گیارہ دن کا تپ شدید ہے ، درد سر میں ذرا تخفیف ہوئی ، ضعف اس قدر ہے کہ پائوں بل کھڑا نہیں ہوا جاتامگر دعوت الی اللہ میں وہی سرگرمی ہے سر پر پٹی باندھے ہوئے عباس وعلی کے کندھوں پر سہارا لیے ہوئے مسجد میں تشریف لاتے ہیں ، منبر پر نہ کھڑا ہوا جاتا اور نہ ہی چڑھاجاتا ہے تاہم اس کے زیریں زینہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور نصیحت بالغہ فرماتے ہوئے دعوت الی اللہ کی تکمیل کرتے ہیں۔ 14… آخری دن ہے سفر آخرت میں صرف پانچ گھنٹے کا وقفہ رہ گیا ہے ، مسلمان صبح کی نماز کے لئے مسجد میں جمع ہیں ، آپ ﷺ کمزوری اور درد سر کی وجہ سے بستر پر جسے کھجوروں کے پٹھوں سے نرم بنایا گیا ہے ، لیٹے ہوئے ہیں اور دعوت الی اللہ کا فرض پھر آپ ﷺ کے قلب گداز میں تازہ حرارت پیدا کرتا ہے مسجد اور حجرہ مبارک کے درمیان جو پردہ پڑا ہوا ہے اسے ہٹاتے ہیں اور تھوڑی دیر تک تبسم کے ساتھ اس نظارہ کو ملاحظہ فرماتے ہیں جو ایک رب ذوالجلال والاکرام کی عبادت کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی حاضری سے پیدا ہوگیا تھا۔ آپ ﷺ زمین پر گھسٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اس بڑے مجمع کے سامنے پھر آخری دفعہ دعوت الی اللہ کی ایک نورانی مثال قائم فرماتے ہیں۔ 15… آخری گھڑی ہے ۔ بیویاں ، بیٹی ، نواسے اس تنگ حجرہ میں جمع ہیں جو سیدہ عائشہ ؓ کے نام نامی سے منسوب تھا۔ یہ وہی مکان ہے جس کے اندر دس آدمیوں سے زیادہ کی گنجائش موجود نہیں ہے اور ایسی حالت میں بھی دعوت الی اللہ ترحم بر عباد اللہ کی تعلیم زبان پر ہے اور ارشاد ہورہا ہے الصلوٰۃ الصلوٰۃ وما ملکت ایمانکم نماز ، نماز اور لونڈی غلام کے حقوق۔ 16… آخری سانس ہے ، دیدہ حق بیں کو آسمان کی جانب بلند کیا ہے اور اس پاک نام کا اعلان فرماتے ہوئے جس کی دعوت عمر بھر دیتے رہے اللھم الرفیق الاعلیٰ کہتے ہوئے چشم حق بیں کو ان فانی نظاروں سے بند کرلیتے ہیں انا للہ واناالیہ راجعون۔ ہم کو تاریخ بشر ایسا نمونہ دکھانے سے قاصر ہے جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دعوت الی اللہ ہی میں پورا ہوا ہو اس لئے آپ ﷺ کے لئے داعیا الی اللہ باذنہ کا خطاب بلا شبہ خاص معلوم ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ رب ذوالجلال والاکرام نے آپ کو اس صفت سے موصوف فرمایا ہے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔ زیر نظر آیت میں آپ ﷺ کا دوسرا وصف سراجاً منیراً بتایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ یعنی سورة فرقان کی آیت 61 اور سورة نوح کی آیت 16 میں آفتاب کو سراجاً کہا گیا ہے اور اسی طرح سورة النباء میں سراجاً وھاجاً بھی فرمایا گیا ہے لیکن سراجاً منیراً ایک ایسا خطاب ہے جو آپ ﷺ ہی کذات پاک کے لئے مختص رکھا گیا تھا اس لئے اور کسی کو اس خطاب سے نہیں نوازا گیا گویا یہ فیصلہ ازل تھا کہ صرف آپ ﷺ کو اس خطاب سے نوازا جائے۔ نظام شمسی میں آفتاب کا جو درجہ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ اس نظام کے جملہ سیاروں کا وہ قبلہ اعظم ہے جس کا طواف ان سیاروں پر گویا لازم ہے اور یہی آفتاب ہی نیراکبر ہے۔ عالم کون ومناد میں بھی آفتاب کی بہت بڑی ضرورت ہے ، اس کی حرارت اور اس کا نور ہر ایک شے کے وجود اور قیام پر گہرا اثررکھتا ہے ہاں ! غور کرلو کہ عالم مادی کا آفتاب ایسا ہی ہے یا نہیں ؟ بالکل ایسا ہے اب اللہ تعالیٰ عالم روحانی کے نیرا عظم کو اپنے مخلوق کردہ نور میں دکھانے کے لئے نبی وآخر ﷺ کو سراجاً منیراً کے خطاب سے روشناس کر ارہا ہے بلاشبہ جملہ سیاہ گان سماء نبوت کا مدار اعظم بھی ہیں اور عالم شریعت کی بقائے دوام کی علت اولیٰ بھی ﷺ ۔ آفتاب رات کی تاریکی کو دور کرتا ہے اور سراج منیر نے ظلمت کفروشرک کو محو کردیا۔ آفتاب کی روشنی سب ستاروں پر چھا جاتی ہے تو انہیں چھپا لیتی ہے سراج منیر کی شریعت بھی تمام شریعتوں کی مہمین ثابت ہوتی ہے۔ آفتاب کی روشنی بہت سے جرائم کا ارتکاب روک دیتی ہے اور سراج منیر کے نور نے بھی بلا شبہ معاصی کو بند کردیا ہے۔ کرہ ارضی کا آفتاب ایک وقت میں کرہ ارضی کے صرف ایک ہی پہلو کو روشن کرسکتا ہے لیکن اس سراج منیر نے وقت واحد میں جاہلیت کی ظلمت وجہالت کی تاریکی ، کفر وشرک کی سیاہی ، رسومات جاہلیت کے اندھیرے ، رواج کی گھٹائیں ، تقلید کی تیرگی کو اپنی نورانی شعاروں سے اٹھا کر دلوں کو نور ایمان سے ، دماغوں کو عقائد صحیح کے لمعات سے ، آنکھوں کو کتاب مبین کے مطالعہ سے ، خلا کو نورانی تعلیم سے ، دھندلے تذبذب کو دلائل وبراہین ساطعہ سے ، تاریک ظنون کو براہین مبینہ سے روشن فرمادیا اور بلا شبہ اس روشنی میں ہر ایک نے حقیقت اشیاء کو دیکھا اور ہر ایک کی نگاہ خود اپنے آپ کو بھی دیکھ سکنے کے قابل ہوئی۔ وہ جو انسانیت کی حقیقت کو فراموش کر بیٹھے تھے اب خودا صحابی کالنجوم بابھم اقتدیتم اھتدیتم ثابت ہوئے۔ وہ جو راہنما رہ گم کردہ تھے اب وہ خضرراہ بن گئے۔ ہاں ! بلا شبہ شپرہ چشم آفتاب کی روشنی میں چندھیا جاتے ہیں اور بعض بوم طبع رات کی تاریکی ہی میں پر وبال کھولتے ہیں اور یہی حال ان تیرہ درونوں کا ہے جو انوار محمدی ﷺ کی تاب نہیں لاسکتے اور ضوء رسالت سے مستنیر نہیں ہوتے سچے مومنین و مسلمین کو تو اس سراج ربانی پر پروانہ وار نثار ہونا ضروری ہے اور بلا شبہ وہ نثار ہو رہے ہیں اور رہتی دنیا تک ہوتے رہیں گے۔ اللھم بارک علی محمد واعلی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی ابراھیم انک حمید مجید۔
Top